7
0
Friday 30 May 2014 00:01

پاکستان میں دیوبندی طاقت کے ظہور اور ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ (2)

پاکستان میں دیوبندی طاقت کے ظہور اور ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ (2)
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

پاکستان میں دیوبندی، وہابی تبلیغی جماعتیں تعلیمی انداز میں وارد ہوئیں اور مارشل لاء کے زیر سایہ ریاستی سرپرستی میں کس طرح سیاسی اور عسکری قوت میں ڈھل گئیں۔ اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے مختلف عوامل، پاکستانی سوسائٹی پر اسکے اثرات اور خود دیوبندی وہابی گروہوں کی تشکیل، تقسیم در تقسیم کا جائزہ جاری ہے۔ مضمون کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے۔
افغان جنگ نے پاکستان کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ پاکستانی عوام داخلی مسائل میں اس قدر پھنس گئے کہ عالمی محاذ پر اسلام دشمن طاقتوں کی طرف انکی توجہ گھٹتی چلی گئی۔ پاکستان میں علامہ عارف حسین الحسینی اکیلے تھے، جو استعمار کو بے نقاب کرتے رہے۔ وہ پوری زندگی امامیہ طالب علموں کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے رہے، جو امام خمینی کی قیادت پر غیر متزلزل ایمان رکھتے تھے۔ علامہ عارف حسین حسینی ہر سال یوم القدس کا انعقاد کرواتے اور ہر موقع پر عالم اسلام کے مسائل کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ انہیں پشاور میں شہید کروا دیا گیا۔ پاکستان میں فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں اٹھنے والی آخری آواز بھی خاموش کر دی گئی۔

سی آئی اے، آئی ایس آئی، القاعدہ اور مقامی دیوبندی جماعتوں کے کابل پر راج کیوجہ سے اختلافات کا آغاز:
روس افغانستان سے چلا گیا، باقی ماندہ افغان متحارب گروپ آپس میں لڑتے رہے۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے اسامہ بن لادن، استاد عبداللہ عزام سے متاثر ہو کر افغانستان آئے تھے۔ نوے کی دہائی میں وہ واپس سعودی عرب گئے، لیکن مقامی حکومت نے ان کی شہریت منسوخ کر دی اور وہ سوڈان چلے گئے۔ اس دوران انہیں حزب اللہ لبنان کے معروف کمانڈر عماد مغنیہ ملنے آئے۔ سوڈان میں اسامہ کی رہائش گاہ پر امریکی فورسز نے حملہ کیا، جس میں انکی کیمیکل فیکٹری تباہ ہوگئی۔ وہاں سے وہ دوبارہ افغانستان آگئے۔ یہاں دوبارہ عرب جنگجو اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ اور القاعدہ کی عسکری تربیت کے مرکز کو امریکی کروز مزائلوں نے نشانہ بنایا۔ اس حملے میں وہ بال بال بچ گئے۔ اسوقت تک القاعدہ، جہاد افغانستان کے بچے ہوئے عرب مجاہدین پر مشتمل تھی۔ اسامہ بن لادن نے جزیرةالعرب میں موجود امریکی اور برطانوی سکیورٹی فورسز کیخلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا، اسی وجہ سے سعودی حکومت نے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ دیوبندی، وہابی طاقت کو اپنے منصوبے کے تحت استعمال کرنے والے ریٹائرڈ جنرل حمید گل نے اسامہ بن لادن کو مشورہ دیا کہ وہ سیٹلائٹ ٹیلی فون کا استعمال چھوڑ دیں۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کو افغانستان میں اسی سیٹلائٹ فون کی وجہ سے ٹریس کیا تھا۔

نوے کی دہائی کے وسط میں، سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ کوشش سے ملا عمر کی قیادت میں، پاکستان کے دیوبندی مدرسوں میں تیار ہونے والے طالبان نے کابل کو فتح کیا تھا۔ طالبان کو کابل کے بعد، افغانستان کے شمالی علاقوں کی جانب پیش قدمی تک، پاکستانی ٹینکوں اور جیٹ طیاروں کی مدد حاصل تھی۔ پاکستانی حکمت کار، تزویراتی گہرائی سے متعلق حکمت عملی کو، من پسند حکومت کے ذریعے نافذ کرنا چاہتے تھے۔ کابل میں ملا عمر نے جماعت اسلامی پاکستان کی آغوش میں پرورش پانے والے حکمت یار کو شکست دی تھی۔ آئی ایس آئی، سی آئی اے اور القاعدہ نے جماعت اسلامی کی خدمات کو فراموش کرتے ہوئے، حکمت یار کی مدد کرنے کی بجائے، ملا عمر کو فتحیاب کروانے میں کردار ادا کیا۔ کابل میں اقتدار کی مسند، آئی ایس آئی، سی آئی اے اور القاعدہ کے کنٹرول میں تھی، لیکن روس کے خلاف زبردست قربانیاں دینے والوں کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ کابل میں طاقت کا توازن یکسر بدل گیا۔ 

یہ وہ وقت تھا جب حالات نے جماعت اسلامی کو جہاد افغانستان کے متعلق امور سے آئی ایس آئی نے الگ کر دیا۔ یہیں سے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور جماعت اسلامی کے درمیان دوری کا آغاز ہوا۔ یہ فاصلے بڑھتے گئے۔ افغانستان سے جان بچا کر آنے والے حکمت یار بھی تہران میں سرکاری مہمان تھے۔ پاکستان کی جس خفیہ طاقت نے جہاد افغانستان کے نام پہ، دیوبندی اور وہابی گروہوں کو اکٹھا کیا تھا، انہوں نے ہی انکے درمیان تقسیم اور پھوٹ کا آغاز کیا۔ جہاد افغانستان کے نام پہ جمع ہونے والے دیوبندی، افغانستان میں اپنی اپنی حکومت کے مسئلے پر تقسیم ہوگئے۔ اس کے اثرات پاکستان میں دیوبندی قوت کے سیاسی گروہوں پر بھی مرتب ہوئے۔

جماعت اسلامی کا مزاج شروع سے ہی جمعیت علمائے اسلام جیسی جماعتوں سے الگ تھا، لیکن بنگلہ دیش اور کشمیر میں جماعت اسلامی کی وسیع اور مضبوط عوامی طاقت کو پس پشت ڈالنا، افغانستان اور چیچنیا کے محاذوں پر امریکی اشتراک میں کام کرنے والے پاکستانی استخباراتی ادارے، آئی ایس آئی کے لیے ممکن نہیں تھا۔ آئی ایس آئی، افغانستان اور پاک افغان سرحد پر واقع قبائلی علاقوں میں جماعت اسلامی کے اثر و رسوخ سے واقف تھی۔ اسی طرح حماس، ترکی اور مصر کی اسلامی طاقتوں کے علاوہ ایران کی اسلامی حکومت کیساتھ جماعت اسلامی کے گہرے روابط کی بدولت افغانستان میں جماعت کا کردار اہمیت کا حامل تھا۔ اسکے اثرات براہ راست پاکستان پر مرتب ہوتے تھے اور اسلام اور جہاد کے نام پر ترتیب دی جانے والی، آئی ایس آئی کی کشمیر پالیسی بھی اسوقت جماعت اسلامی کی رہین منت تھی۔ آئی ایس آئی کے لیے ممکن نہیں تھا کہ جماعت اسلامی کو اندھیرے میں رکھیں۔ لیکن کابل میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے نے جماعت اسلامی کے ساتھ جفاکاری کی تھی، اس حادثے نے جماعت کے مورال کو منفی طور پر متاثر کیا۔ جماعت اسلامی کے حلقوں میں پہلی بار یہ تاثر ابھرا کہ ریاستی اداروں کا سہارا لینے کی بجائے عوامی قوت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اس دور سے جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی روایت سے ہٹ کر عوامی پروگرام کا آغاز کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد، جماعت کی امارت سے فارغ ہونے کے بعد پوری زندگی، کابل میں حکمت یار حکومت کے خاتمے کے متعلق آئی ایس آئی کے منفی کردار کی شکایت کرتے رہے۔ 

مسلمانوں کے ایمان پر کاری ضرب، پاک فوج میں نعرہ حیدری کی بندش، دیوبندی خوابوں کی تعبیر:
پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بنیادی طور پر برصغیر کی مقبول اسلامی ثقافت، ایک ملی مزاج کے طور پر رائج رہی ہے۔ جنرل ضیاءالحق مرحوم کے مارشل لاء سے قبل پاک فوج کی ایلیٹ فورسز اور کمانڈوز کا خاص نعرہ حیدر ؑ حیدرؑ تھا اور پاکستانی سپاہ کی چھاونیوں کی فضائیں نعرہ حیدری، یاعلیؑ کی صداوں سے گونجتی رہتی تھیں۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ میں پورا پاکستان یاعلیؑ کے نعروں کے سہارے اپنی فوج کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس جنگ میں عساکر پاکستان کی کارکردگی تاریخی تھی۔ ہماری مسلح افواج ساز و سامان، ٹیکنالوجی اور جنگی تجربے کے لحاظ سے، آج کی نسبت کمزور تھیں، البتہ دشمن کیخلاف جذبہ جنگ، فتح مندی کی آرزو، فاتح خیبر کے ذکر کی وجہ سے پوری دنیا کے مقابلے میں مثالی تھا۔ امریکی آشیر باد سے پاکستانی ایوان اقتدار پر قبضہ کرنے والے، جنرل ضیاءالحق وہابی مزاج کے حامل تھے۔ انہوں نے پاکستانی معاشرے اور ریاستی اداروں میں وہابیت کا بیج بویا۔ جس طرح ضیاء آمریت کے دور میں درود شریف میں سے آل ؑرسولؑ کا ذکر ختم کرنے کی مہم چلائی گئی، اسی طرح مسلح افواج میں نعرہ حیدری کو شرکیا نعرہ قرار دیکر ختم کر دیا گیا۔ 

پاکستان کے تعلیمی اداروں، انتظامیہ، وزارتوں، خفیہ ایجنسیوں، خارجہ امور اور بلدیات تک کو برصغیر کی مقبول اسلامی ثقافت کی بجائے، تنگ نظری، شدت پسندی اور بنو امیہ سے ورثے میں ملنے والی پرتشدد سیاست پہ مبنی، محمد بن عبدالوہاب النجدی کی مخصوص اپروچ کو نافذ کر دیا گیا۔ دیوبندی سیاسی قوت، جہاد افغانستان کے نام پر پورے پاکستان میں، ریاستی طاقت کے بل بوتے پر پھیلنا شروع ہوئی۔ اہل تشیع اور اہل سنت کو سخت دباو میں رکھا گیا۔ لیکن عید میلادالنبیؑ اور محرم الحرام کے مراسم کم نہ ہوئے۔ فرق یہ پڑا کہ وہابی گروہ عسکری طور پر ایک فوج کی صورت اختیار کرگئے۔ انہوں نے ریاست کی طرف سے ملنے والی خاموش پشت پناہی اور غیر ریاستی عسکری طاقت کے زور پر، پاکستان کے عام مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا شروع کر دیا، جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ضیائی آمریت کے بطن سے جنم لینے گروہوں نے پہلی بار مولائے کائنات کے نام ساتھ امیر شام کا نام لینے کی جسارت کی۔ پاکستانی ریاست کے قوانین میں مذکورہ تبدیلیاں اس کا باعث بنی کہ پاکستانی معاشرے میں، گستاخان رسول ﴿ص﴾ کو شہہ ملنا شروع ہوگئی۔ پہلے تبلیغی جماعت، پھر سیاسی جماعتیں اور اب گلی محلے کے دیوبندی مولویوں نے سپاہ بنا لی۔ انجمن سپاہ صحابہ، پھر سپاہ صحابہ، بعد میں لشکر جھنگوی، تحریک طالبان جیسی قوتوں کی اسی دور میں تخم ریزی ہوئی۔ تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی مسلح افواج کے آفیشل مبلغ اور مربی بنا دیئے گئے۔

ملا عمر کی حکومت اور پاکستان کے دیوبندی گروہوں کی طرف سے بامیان میں ہزارہ شیعہ قبائل کی نسل کشی کے پاکستان پر اثرات:
افغانستان میں طالبان نے شمالی علاقوں اور شیعہ اکثریتی علاقے بامیان میں فرقے اور مسلک کے اختلاف کی وجہ سے مقامی آبادی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسلامی جمہوری ایران اور افغان طالبان کے درمیان شدید تناو پیدا ہوگیا۔ پاکستان میں طالبان نواز سیاسی قوتوں، پاکستانی میڈیا اور خفیہ اداروں نے ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کیا۔ پاکستانی میڈیا میں، پاکستانی خفیہ اداروں کے تعاون سے ملا عمر کی بامیان پر کی جانے والی یلغار کو پاک ایران پراکسی جنگ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس دوران، افغانستان کی تاریخ میں پہلی بار لشکر جھنگوی اور کراچی کے بنوری ٹاون مدرسے نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ جنگ افغانستان کو جماعت اسلامی کے ذریعے شروع کیا گیا تھا لیکن اب انکی جگہ دوسری سطح کے دیوبندی گروہوں نے لے لی تھی۔ ملا عمر نے اسامہ بن لادن کے تعاون سے لشکر جھنگوی کے مفرور کمانڈر ریاض بسرا کو افغانستان میں مراکز اور عسکری تربیت کے لیے سینٹر فراہم کئے۔ افغان طالبان مولانا سمیع الحق کے شاگرد تھے اور سپاہ صحابہ کے رہنما بنوری ٹاون کراچی سے پڑھے تھے۔ لشکر جھنگوی میں غالب تعداد پنجابیوں کی تھی۔ یہی وقت تھا جب، پنجاب سے تعلق رکھنے والے تنگ نظر اور تکفیری سوچ رکھنے والے سپاہ صحابہ کے دہشت گردوں نے افغانستان میں موجود پختون طالبان، عرب جنگجووں، ازبک دہشت گردوں، آئی ایس آئی، سی آئی اے اور سعودی اہلکاروں سے تعلقات پیدا کئے اور وقت کے ساتھ ساتھ  ان رابطوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسامہ بن لادن کی القاعدہ، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، لشکر جھنگوی اور حرکت المجاہدین (جیش محمد) جیسی قوتیں، بامیان کے سنگم پہ اکٹھی تھیں۔ یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں اہل تشیع کو قتل کرنے والے قاتلوں اور مفروروں پر مشتمل سفاک گروہ کو لشکر جھنگوی العالمی کا نام ملا۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان آرمی، آئی ایس آئی، فوجی تنصیبات، فوجی جرنیلوں اور عوامی و مذہبی مقامات پر جتنے دھماکے ہوئے، یہ کارروائیاں لشکر جھنگوی العالمی کی اسی فارمیشن نے انجام دیں۔ البتہ پاکستان کی مسلح افواج کیخلاف جنگ میں، ان کارروائیوں کو ٹی ٹی پی نے own کیا۔ پنجابی طالبان دراصل لشکر جھنگوی العالمی کا ہی دوسرا نام ہے۔

اسلامی جمہوری ایران نے پاکستان یا افغانستان کیخلاف کوئی جارحیت نہیں کی تھی۔ بامیان کے شیعہ ہزارہ قبائل ملا عمر کے ساتھ بات چیت کے ذریعے امور طے کرنا چاہتے تھے، اسی دوران ہزارہ شیعہ جماعت حزب وحدت اسلامی کے سربراہ علی مزاری کو افغان طالبان نے مذاکرات کے بہانے بلایا اور ہیلی کاپٹر سے نیچے پھینک دیا، وہ شہید ہوگئے۔ پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے شائع ہونے والے روزنامہ اوصاف کے اداریئے لال مسجد میں جمعے کے خطبے میں سنائے جاتے تھے۔ اسوقت یہ تاثر عام تھا کہ یہ روزنامہ آئی ایس آئی کی نگرانی میں کام کر رہا ہے۔ یہ اخبار، افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں سب سے آگے تھا۔ اسی دوران اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی آواز کو پاکستان کے کونے کونے میں پھیلانے کے لیے دیوبندی الرشید ٹرسٹ کی طرف سے ضرب مومن کے نام سے ایک اخبار کا آغاز ہوا۔ معروف صحافی حامد میر طالبان کی بامیان میں شیعہ آبادی کیخلاف کارروائی کی کامیابی کو پاکستان کی فتح سے تعبیر کرتے رہے۔ انکے جواب میں ایک شیعہ عالم مولانا جواد حسین نے اپنے تجزیات روزنامہ اوصاف کو بھیجے اور انہیں خیابان سرسید راولپنڈی میں نماز باجماعت کے دوران شہید کر دیا گیا۔ دیوبندی لشکر جھنگوی نے نوئے کی دہائی میں پاکستان کے ہر کونے میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد کو قتل کیا گیا۔ 

پڑھے لکھے دیوبندیوں پر مشتمل پولیٹیکل پارٹی، جماعت اسلامی اسامہ بن لادن کے خیالات اور نظریات کی ہمیشہ حامی رہی ہے۔ القاعدہ کے تمام عرب رہنما جماعت اسلامی کے مخصوص نظریاتی ماحول سے مانوس تھے اور  اسی لئے ہمیشہ جماعت اسلامی کے معروف رہنماوں کے گھروں میں ہی انکا قیام رہا۔ لیکن نوے کی دہائی میں ملا عمر اور حکمت یار کے درمیان جنگ کی وجہ سے، جماعت اسلامی کے عسکری ونگ البدر مجاہدین کی بجائے، دیوبندی لشکر جھنگوی کے دہشت گردوں کی اکثریت، القاعدہ کے تربیتی مراکز میں پروان چڑھی۔ افغانستان میں ملا عمر کی دیوبندی حکومت کی سرپرستی میں لشکر جھنگوی کی طاقت میں اسقدر اضافہ ہوا کہ انہوں پاکستانی ریاست کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد ہمیشہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ پاکستان میں بھی جہاں فرقہ وارانہ قتل و غارت ہوتی، دیوبندی رہنما مرحوم قاضی حسین احمد، دونوں اطراف کے لوگوں سے ملتے۔ لیکن وہ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو تنگ نظری اور تکفیری نظریات سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ ملا عمر کی طرف سے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو عسکری تربیت کے لئے کیمپ فراہم کئے جانے کے بعد، افغانستان میں القاعدہ کے مراکز میں، جماعت اسلامی کی وسیع البنیاد اپروچ کی نسبت زیادہ تنگ نظر اور فرقہ وارانہ تشدد پر مبنی ماحول فروغ پاتا رہا۔ سپاہ صحابہ کی طرف سے مسلسل شیعہ مسلک کے خلاف کافر کافر کا نعرہ لگایا جاتا رہا، لیکن کسی دیوبندی، وہابی جماعت نے انکا بائیکاٹ نہیں کیا، نہ ہی کھل کر اینٹی شیعہ تکفیری عمل کو روکنے کی کوشش کی۔ کالعدم سپاہ صحابہ کے علاوہ تمام دیوبندی جماعتوں کے رہنما اکثر اسلامی جمہوری ایران کا سفر کرتے ہیں اور شیعہ مجتہدین سے انکے اچھے تعلقات ہیں۔ جماعت اسلامی ان میں سرفہرست ہے۔ 
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 386988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
مسلمانوں کے ایمان پر کاری ضرب، پاک فوج میں نعرہ حیدری کی بندش، دیوبندی خوابوں کی تعبیر........بہت خوب۔۔۔
United States
the writer is confused with wahabi and deobandi schools of thought.He could not differentiate them properlyThey are different MASALIK,Though nodoubt Deobandies borrowed a few things _from wahabies.They have great political differences among themelves.After Pakistan came into being,Wahabies have been following a different political stream.Wahabies political interests have been hit hard by the Deobandies.
WIRTER KNOWLEDGE ABOUT SECTS AND COUNTRY IS VERY AND TRY TO CREATE AGITATION BETWEEN SHIA AND SUNNIS .
Excellent Analysis. The writer has very indepth knowledge and anlysed it greatly. We should expose this link and promote Islam in which there is respect and love for Rasool (SAWAS) and his Ahl-e-Bait ( AS
MASHALLAH. Indepth analysis and exposing real fases. Really waiting for next episode.
United Kingdom
Very nice analysis
Asghar
Pakistan
Very nice analtsis. keep it up
ہماری پیشکش