1
0
Tuesday 19 Aug 2014 08:06

انقلاب و آزادی مارچ، منظر و پس منظر

انقلاب و آزادی مارچ، منظر و پس منظر
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پہلا منظر نامہ
پاکستان کے چاروں صوبوں میں 11 مئی 2013ء کے دن ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں مسلم لیگ نواز نے وفاقی حکومت قائم کی تھی، پنجاب میں یہ پہلے سے برسر اقتدار تھے، بس انتخابات کروانے کیلئے تین ماہ نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلٰی بنایا گیا تھا، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عملی طو پر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں گذشتہ چھ برس سے نون لیگ ہی برسر اقتدار ہے، صوبہ کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعت اسلامی برسر اقتدار ہیں، سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کے حصہ میں آیا ہوا ہے جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ نواز نے اکثریت کے باوجود مشترکہ حکومت ہی بنائی ہے، پنجاب میں چھ سالہ اقتدار اور ملت تشیع پر ہونے والے حملوں، ظلم و زیادتیوں اور متعصب رویوں کی داستان بہت طوالت رکھتی ہے، اسی دوران پنجاب جسے امن و امان کے حوالے سے بہت آئیڈیل پیش کیا جاتا رہا ہے، میں جو واقعات و سانحات پیش آئے ان میں سانحہ سرپاک امام بارگاہ چکوال، سانحہ ڈیرہ غازی خان، سانحہ چہلم خان پور و رحیم یار خان، سانحہ راولپنڈی جلوس محرم، سانحہ گوجرانوالہ، سانحہ ملتان و چشتیاں، سانحہ کربلا گامے شاہ اور پنجاب کے شہروں لاہور ، فیصل آباد، رحیم یار خان، لیہ، بھکر، دریا خان، راولپنڈی، چنیوٹ اور کئی شہروں میں معروف شیعہ شخصیات، علماء و وکلاء، قائدین اور شعبہ جاتی ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ ان شخصیات میں مولانا ناصر عباس، ڈاکٹر شبیہ الحسن ہاشمی، ڈاکٹر علی حیدر آئی سرجن، وکیل شاکر رضوی کے نام نمایاں ہیں۔
 
اس ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اس حکومت نے شیعہ شخصیات کے قاتلوں کو باعزت بری کیا اور نامور دہشت گردوں جن میں ملک اسحاق اور غلام رسول شاہ جو انہی کے گذشتہ ادوار میں گرفتار کئے گئے تھے، کو نہ صرف رہا کیا گیا بلکہ انہیں رہا کروا کے استقبال بھی کروائے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ اس شیعہ دشمن حکومت نے قاتلوں کو رہا کروا کر کھلی چھوٹ دے دی، جنہوں نے ملک بھر میں اپنے نیٹ ورک کو مزید فعال کیا اور جگہ جگہ فسادات ہونے لگے، یہ عجیب بات تھی کہ قاتلوں کو عزت و وقار سے نوازا گیا جبکہ مظلوموں اور مقتولوں کے ورثاء کو زندگی سے محروم اور جینا دو بھر کر دیا گیا، اس کے ساتھ ساتھ ہم نے دیکھا کہ پنجاب میں بہت ہی معمولی باتوں پر توہین صحابہ کے سنگین پرچے اتنی زیادہ تعداد میں درج ہوئے کہ تاریخی ریکارڈ ہے، 295  سی، بی یا اے کے تحت درج ہونے والی ایف آئی آر جس پر درج ہو جائے وہ جیل میں جا کر شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے، اس کی ملاقات اور ضمانت نہیں ہوتی، ایسے ہی ہم نے دیکھا کہ اہل تشیع کی مشکلات اور مصائب میں منظم طریقہ سے اضافہ کیا گیا۔
 
حکومت پنجاب کے سب سے زیادہ بااختیار وزیر رانا ثناءاللہ نے ایک طرف تمام قاتلوں و دہشت گردوں کو جیلوں رہا کروانے کا پورا پورا اہتمام کیا، دوسری طرف ہمارے لیئے مشکلات کھڑی کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی، بھکر میں ایک سو سے زیادہ لوگوں کو فورتھ شیڈول جیسے ظالمانہ قانون کا شکار کرتے ہوئے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور چادر و چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، جبکہ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ معمولی میسیج یا فیس بک پر غلط شیئرنگ کرنے پر پرچے کاٹنے والی حکومت نے ٹیلی ویژن پر مولا علی ؑ کی شان میں گستاخی کرنے والے ڈاکٹر اسرار احمد کے خلاف دس گھنٹے تک پریس کلب لاہور سے لیکر مال روڈ اسمبلی ہال کے سامنے چوک میں پرامن احتجاج کے باوجود ایف آئی آر نہیں کاٹی تھی، ایسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ دشمنی اور تعصب کی انتہا کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے حالیہ دنوں میں مولا علی ؑ کے خطبات، کلمات اور خطوط پر مشتمل معتبر ترین کتاب نھج البلاغہ پر پابندی کی سازش کرتے ہوئے اس کی فروخت کے جرم میں ایک سید پر ایف آئی آر کاٹی اور جیل میں بھیجا، اب بھی اس سرمایہء اسلام کو پابندیوں میں لانے کی سازش پر عمل کیا جا رہا ہے، اس وقت سب سے زیادہ جیلوں میں توہین صحابہ کی ایف آئی آر والے شیعہ ہیں، جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ حکومت قاتلوں و دہشت گردوں کو تو کھلی چھوٹ دے چکی ہے مگر بے گناہوں اور معصوم اہل تشیع کیلئے اس کا قانون فوری اور سختی سے عمل درآمد کرنے پر تل جاتا ہے۔ 

آپ دیکھیں کہ اخبارات کے پہلے صفحے پر تکفیریت کے خلاف اشتہارات چھپوائے جاتے، مگر پریس اور میڈیا کے سامنے پولیس و انتظامیہ کی موجودگی میں ہر جلسے و احتجاج میں شیعہ کافر کے نعرے لگانے والوں کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگاتا، یہ سب کچھ گذشتہ چھ سال سے ہو رہا ہے۔ آپ اسے ظلم کہیں یا تعصب کی انتہا، اپنی کمزوری کہیں یا سیاسی میدان میں اپنی لاتعلقی کا نتیجہ، باہمی خلفشار اور انتشار کا نتیجہ سمجھیں یا گذشتہ کئی برس سے تکفیری قوتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا عکس العمل، یہ سب کچھ ہو رہا ہے، ملت ایسے حکمرانوں سے الٹے ہاتھ کر کرکے نجات چاہتی ہے، ملت ایسے شیعہ دشمنوں کو ایک لمحہ کیلئے بھی اقتدار پر متمکن نہیں دیکھنا چاہتی، اگر کوئی کسی بھی شکل میں ایسی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کر رہا ہے تو اور کیا دلیل سامنے لائی جائے، اس مطالبہ کی صداقت و سچائی ثابت کرنے کیلئے۔؟

میں سمجھتا ہوں کہ یہی وہ منظر نامہ تھا جس پر مجلس وحدت مسلمین نے تکفیریت اور اس کے حامی حکمرانوں کو ان کے کئے کی سزا دینے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں معتدل و محبان اہلبیت ؑ پارٹیوں کیساتھ ملکر ایوان اقتدار سے ہٹانے کی جدوجہد شروع کی ہے، یہ جدوجہد کیا رخ اختیار کرتی ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اس سے قطع نظر ہم کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیئے کہ اگرچہ یہ ایک سیاسی اتحاد ہے اور فی الحال اس کے مقاصد سیاسی ہیں، مگر اس اتحاد سے فرقہ واریت کے خاتمہ، سنی شیعہ وحدت کے قیام و باہمی اخوت و بھائی چارہ کے فروغ، باہمی اختلافات کو کم سے کم کرنے کا ماحول بنایا ہے۔ اسکا عملی ثبوت وہ نعرے ہیں جو اس دھرنے اور جلوس میں لگائے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجلس کا ماحول بن جاتا ہے۔ سنی اتحاد کونسل کے ساتھ تو پہلے ہی یہ اتحاد کام کر رہا تھا، اب اہل سنت کی ایک برجستہ شخصیات نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کرکے ایک دوسرے کو سمجھنے کی عملی کوششیں اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ دعا کی جائے کہ یہ سنی شیعہ وحدت ایسے ہی قائم رہے اور مستقبل میں اس وحدت کے ذریعے ملک پاکستان میں نفرتوں اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ملک کی خدمت ہوسکے۔

دوسرا منظر
پنجاب حکومت نے پاکستان عوامی تحریک اور ادارہ منھاج القرآن کے بانی ڈاکٹر طاہر القادری کو جس طرح کینیڈا سے واپسی پر اسلام آباد کی بجائے لاہور لانے کی سازش کی اور اس کے بعد جس طرح ان کے گھر پر یلغار کی گئی جبکہ اس موقعہ پر انکے نوے لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا، چودہ جوان جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی، کو بے گناہ و بلا جرم و خطا خون میں نہلا دیا گیا، اس سنگین ترین واردات کی ایف آئی آر ابھی تک نہی کاٹی گئی، جو مظلوموں و مقتولوں کا بنیادی آئینی و قانونی حق ہوتا ہے۔ اس پر جب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ نے احتجاج کا اعلان کیا تو انہیں محصور کر دیا گیا، ان کو محصور کرتے ہوئے پنجاب کی قاتل و ظالم حکومت نے اہلیان لاہور کو بھی محصور کر دیا، چار دن تک مسلسل اہلیان لاہور شدید کرب و مشکلات کا شکار ہو کر 14 اگست کو آزادی کے دن آزاد ہوئے اور یوں پاکستان عوامی تحریک نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ملکر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کیا۔ قادری صاحب نے اس لانگ مارچ کو انقلاب مارچ کا نام دیا، جس میں پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین، سنی اتحاد کونسل، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں اور شخصیات بھی شامل ہیں۔
 
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف، عوامی مسلم لیگ اور دیگر کئی شخصیات پر مشتمل سیاسی گروہ نے دھرنے دے رکھے ہیں۔ دھرنا دینے والے دونوں گروہوں کے کچھ مطالبات باہم مطابقت رکھتے ہیں جبکہ کئی حوالوں سے اختلافات بھی پائے جا رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو دونوں کا اصل مقصد موجودہ حکومت کو گرانا ہے، موجودہ حکومت چودہ ماہ پہلے ہی پانچ برس کا مینڈیٹ لیکر آئی ہے۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ حکمران جعلی مینڈیٹ سے آئے ہیں۔ یہ جعلی جمہوریت ہے۔ الیکشن میں شدید قسم کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی جس میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری شامل تھے، نے الیکشن چرانے کے لیے جسٹس رمدے کے ساتھ ملکر عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارا ہے۔ اب چونکہ یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے کہ الیکشن چرایا گیا ہے، لہٰذا یہ حکمران حق حکومت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک کے قائد اور اتحادیوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکمران دہشت گردوں کے ساتھی ہیں، یہ خود دہشت گردوں کو مکمل سپورٹ و سرپرستی کرنے والے ہیں۔ اس کا ثبوت سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ہے، جہاں 14 بے گناہ لوگوں جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کو گولیوں سے بھون دیا اور نوے کے قریب لوگوں کو گولیاں مار کے زخمی کیا۔

پاکستان عوامی تحریک کے اس اتحاد میں شامل شیعہ جماعت مجلس وحدت مسلمین کا شروع دن سے موقف رہا ہے کہ نواز حکومت جو شہباز حکومت کے گذشتہ پانچ سال کا تسلسل ہے شیعہ دشمن ہے۔ پنجاب، پاکستان کا 65 فیصد ہے، جس پر برسر اقتدار حکمرانوں نے گذشتہ پانچ برس میں اہل تشیع کو اپنے تعصب کا شکار کئے رکھا۔ اہل تشیع کے قاتلوں جو اس ملک کی افواج اور قومی شخصیات پر حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں کو آزاد کیا، ان کو جیلوں سے چھڑوا کر ان کے عوامی استقبال کروائے اور ایک بار پھر انہیں معصوم و بے گناہوں کی جانوں سے کھیلنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ مجلس وحدت مسلمین اس حوالے سے اپنے موقف اور علامہ طاہر القادری کے موقف میں ہم آہنگی کا احساس کرتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک نیک شگون ہے کہ شیعہ و سنی (بریلوی) یکجا ہیں، ان کے درمیان فاصلے کم رہ گئے ہیں۔ باہمی اتحاد و اخوت کی یہ فضاء ملکی ماحول پر بھی گہرا اثر ڈالے گی اور ان قوتوں کو کمزور کرنے کا سبب بنے گی جو اس ملک اور خطے کو تکفیریت کے عفریت میں مبتلا کرکے استعماری مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بعض لوگ اس سیاسی گہماگہمی اور شور شرابے و اجتماعی رنگ کو قبائلی علاقوں میں جاری آرمی کے آپریشن ضرب عضب کے خلاف سازش سے تعبیر کر رہے ہیں جبکہ بعض اس احتجاج کے پیچھے آرمی کو دیکھ رہے ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔ افواج پاکستان کو اس آپریشن کے دوران جس سپورٹ و عوامی حمایت کی ضرورت ہے۔ وہ پاکستان عوامی تحریک اور اس کے اتحادی کر رہے ہیں۔ گویا ایک طرف افواج پاکستان کے حامی بارود والوں کو نیست و نابود کر رہے ہیں تو دوسری طرف درود والے بارود والوں پر یلغار کرنے والے وطن کے سپوتوں کی اخلاقی مدد کر رہے ہیں، رہا یہ سوال کہ ان کے پیچھے افواج پاکستان ہے تو یہ بات بھی بے جا محسوس ہوتی ہے، کہا جا رہا ہے کہ آرمی کو مشرف کے حوالے سے کچھ تحفظات ہیں، جس کی وجہ سے یہ سب کچھ حکومت کو پریشر میں لانے کیلئے کیا جا رہا ہے، میرا خیال ہے یہ بات اس لئے غلط اور حقیقت سے دور ہے کہ مشرف اک مسئلہ پہلے سے حل شدہ ہے، اس سے پہلے ہی مشرف کیلئے ایک طیارہ ایک دوست ملک سے آکر کھڑا رہا تھا، مگر حکومت نے اس معاملہ میں درمیان والی قوتوں سے معاملہ کرکے وعدہ خلافی کی۔

ہم اس وقت پر جب اسلام آباد میں دھرنوں، جن کا بنیادی مطالبہ موجودہ حکمرانوں کو اقتدار سے علیحدہ کرنا ہے، کوئی پیشین گوئی نہیں کرسکتے، مگر اس حقیقت سے ضرور آگاہ کریں گے کہ حکمرانوں نے اپنی قبر آپ کھود رکھی ہے۔ یہ اپنے ہی بنائے ہوئے گڑھوں میں گریں گے۔ ایسے حکمرانوں کو حکومت دینا بندر کے ہاتھ میں استرا دینے کے مترادف ہے، ویسے بھی حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں سے ملک کا بیڑا غرق کر دینے کی طرف گامزن ہے۔ بجلی، گیس، پانی جیسی بنیادی ضروریات سے محرومی اور بھاری یوٹیلٹی بلز نے غریب کا جینا دوبھر کرکے رکھ دیا ہے۔ لوڈشیڈنگ جس کے خاتمے کے لیے بڑھکیں ماری جاتی تھیں، پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ 

اگر حکمرانوں کی مذاکرات پالیسی جاری رہتی تو طالبان ملک کے اہم جغرافیائی حصوں پر قانونی حکومت قائم کرچکے ہوتے۔ یہ تو بھلا ہو آرمی چیف کا جس نے آپریشن ضرب عضب شروع کرکے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے، اور بقول ISPR ان کا انفراسٹرکچر تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب جب دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور وہ اِدھر اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں تو ان کے سیاسی و مذہبی و حکومتی سرپرستوں پر بھی کاری ضربیں لگانے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ دوبارہ ملک کی تباہی کا ایجنڈہ لیکر ہم پر مسلط نہ ہوجائیں۔ پاکستان لاکھوں قربانیاں دیکر حاصل کیا گیا تھا، جس میں تمام مذاہب و مکاتب فکر کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی کی نوید سنائی گئی تھی، بدقسمتی سے نااہل حکمرانوں کی بدولت آج اس کی عملی تعبیر کہیں نظر نہیں آتی۔ ہمیں اس ملک کو قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کی عملی تفسیر بنانا ہے۔

نتیجہ آخر
ہم اس مضمون کے نتیجہ کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملت تشیع من حیث السیاست پہلی بار قومی افق پر مجلس وحدت مسلمین کی صورت میں دیکھی جا رہی ہے، اس مارچ اور دھرنوں کے بعد مجلس وحدت مسلمین کو بطور سیاسی جماعت نظر انداز کرنا مشکل ہوگا، جبکہ اس حوالے سے بھی کامیابی ملی ہے کہ شیعہ سنی اتحاد کی نئی راہیں کھلی ہیں، باہمی اعتماد کی نئی صورتیں سامنے آئی ہیں، جن کو مضبوط بنیادوں کی ضرورت ہے، اس اتحاد کو مزید آگے لے جانے کی بہرحال ضرورت ہوگی، میرے خیال میں اس تحریک سے مجلس وحدت مسلمین کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے جبکہ حاصل کرنے کیلئے ان کے پاس بہت سے موارد موجود ہیں۔
خبر کا کوڈ : 405483
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

پہلی مرتبہ نہیں بلکہ دوسری مرتبہ کیونکہ علامہ ساجد نقوی نے ۱۹۹۲ میں لانگ مارچ میں پی ڈی اے کے اتحادی کی حیثیت سے حصہ لیا تھا۔ جیسا کہ عرفان علی صاحب نے اپنی تحریر میں بیان کیا۔
ہماری پیشکش