0
Friday 25 Jul 2014 15:32

عالمی یوم القدس، اسرائیلی مظالم اور امام خمینی

عالمی یوم القدس، اسرائیلی مظالم اور امام خمینی
تحریر: ارشاد حسین ناصر

مستضعفین و محرومین کی آواز جنہوں نے بیسویں صدی میں امت مسلمہ کی قیادت و علمبرداری کی اور ایک عظیم اسلامی انقلاب برپا کرکے اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کیا۔ دنیا انہیں بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ آپ نے اس انقلاب سے بہت پہلے امت مسلمہ کے قلب میں اس خنجر (اسرائیل نامی صیہونی ریاست) کی طرف متوجہ کیا اور ان خطرات سے مسلسل آگاہ و خبردار کیا جو مستقبل میں اس منحوس سازش کے عملی ہونے کے بعد مرتب ہوسکتے تھے۔ آپ نے اس حوالے سے نہ صرف اپنی صدا بلند کی بلکہ اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کو اس مسئلہ کا حل بھی بتاتے رہے، کبھی تو آپ کی آواز ان الفاظ میں خبردار کرتی ۔۔
 "اسلامی ممالک کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہئے کہ فساد کا یہ جرثومہ (صہیونی ریاست)، جس کو اسلامی سرزمینوں کے قلب میں تعینات کیا گیا ہے، صرف عرب اقوام ہی کو کچلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کا خطرہ اور ضرر پورے مشرق وسطٰی کو درپیش ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام پر صہیونیت کا غلبہ ہو اور اسلامی ممالک کی زیادہ سے زیادہ زرخیز اراضی کو استعمار کا نشانہ بنایا جائے اور صرف اسلامی حکومتوں کی جانفشانی، استقامت اور اتحاد کے ذریعے ہی استعمار کے سیاہ سپنے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور اگر اسلام کو درپیش اس حیاتی مسئلے میں کسی بھی حکومت نے کوتاہی کی تو دوسری حکومتوں پر لازم ہے کہ اس حکومت کو سزا دیں، اس سے تعلقات توڑ دیں اور دباؤ ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کریں۔ تیل کی دولت سے مالامال اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ تیل اور دوسرے وسائل سے اسرائیل کے خلاف حربے (اور ہتھیار) کے عنوان سے استفادہ کریں اور ان ممالک کو تیل بیچنے پر پابندی لگائیں جو اسرائیل کی مدد کررہے ہیں"

ایران میں اسلامی انقلاب برپا ہونے کے بعد بانی انقلاب حضرت امام خمینی نے جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس قرار دیا۔ ایران میں قائم اسرائیلی سفارت خانہ کو فلسطینیوں کے سپرد کرکے ایک ایسا پیغام دنیا کو دیا، جس سے اسرائیل و امریکی ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوگیا اور مزاحمت کے دیوانوں کو امید صبح نظر آنے لگی۔ آپ نے یوم القدس اسکی اہمیت و ارزش بیان کرتے ہوئے اسے یوم الاسلام اور یوم اللہ و یوم رسول اللہ کہا اور امت اسلامی کو اسے منانے کی بھی بھرپور تاکید فرمائی۔ انہوں نے اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو سرطانی جرثومے سے تشبیہ دی اور اس کیخلاف تمام وسائل سے لیس ہو کر امت کو اس کیخلاف جہاد کا سبق پڑھایا۔ اسلام کے اس حقیقی درد آشنا نے ہر موقع پر اسرائیل کی نابودی اور امت کے اتحاد کی دعوت دی اور ان خطرات سے خبردار کیا جو مستقبل میں پیش آسکتے تھے۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا
"آج مسلمانوں کا قبلہ اول، اسرائیل مشرق وسطٰی میں اس سرطانی پھوڑے کے زیر قبضہ چلا گیا ہے۔ آج وہ پوری طاقت سے ہمارے عزیز فلسطینی اور لبنانی بھائیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور خاک و خون میں تڑپا رہا ہے۔ آج اسرائیل تمام تر شیطانی وسائل کے ذریعے تفرقہ اندازی کر رہا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو اسرائیل کے خلاف (ضروری وسائل سے) لیس کرے۔"

انبیاء کی سرزمین فلسطین اور قبلہء اول بیت المقدس پر صیہونیوں کے ناجائز قبضہ کو چھیاسٹھ برس گذر چکے ہیں۔ 15 مئی 1948ء کو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی ریاست کو امام راحل امام خمینی نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور امت کو اس کی آزادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی تھی مگر خائن عرب حکمرانوں نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے تسلیم ہونے کی ذلت کو گوارا کیا۔ نتیجتاً ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان اسی طرح دربدر ہیں۔۔۔ ۔۔۔اگر مسلمان حکمران ایران کا ساتھ دیتے تو اسرائیل کا وجود یقیناً دنیا سے مٹ چکا ہوتا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ 66 برس عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف یہ 66 برس ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی پردردو خوفناک کہانیوں کے عکاس ہیں ۔۔۔۔۔۔
 
ان چھیاسٹھ برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی، ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ناجائز ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے ان چھیاسٹھ برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے، اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔۔۔۔۔۔کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم قرار دیئے گئے ارض مقدس فلسطین و غزہ کے باسیوں پر روا نہیں رکھا جا رہا۔۔۔۔۔۔ آج فلسطین کی دختران کی عزتوں کی پائمالی کا حساب نہیں، کتابیں اور بیگ اُٹھائے سکول جاتے معصوم بچوں پر بموں کی یلغار اور گولیوں کی بوچھاڑ کے واقعات نے ہر باضمیر انسان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے تعلیمی اداروں میں جانے والے، والدین کی اُمید، نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں اور نوحہ و ماتم کرتی ماؤں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد کے مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہرروز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔!

آج غزہ کے یہ دلدوز مناظر، خون آشام داستانیں، روح فرسا کہانیاں، گولیوں سے چھلنی لاشیں، بہتے لہو کی دھاریں۔۔۔۔۔۔ یہ اُجڑتے سہاگ، یتیمی کا لباس پہنے معصوم بچے، ضعیفی و ناتوانی کے چھینے گئے سہارے۔۔۔۔۔۔ یہ تاراج بستیاں، برباد کھیت و کھلیان، ٹوٹی سڑکیں، اُداس یونیورسٹیاں اور خوف، وحشت اور ڈر کا چہار سُو راج ۔۔۔۔۔۔ یہ ایک دن، ایک مہینہ اور ایک برس کا قصہ و کہانی نہیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ ظلم کی بنیاد پر وجود میں آنے والی صیہونی ریاست کے قیام میں آنے کے بعد سے ایک ہی منظر روز دوہرایا جاتا ہے ۔۔۔ ہر آنے والا دن ان مظالم میں اضافہ لاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ظلم و زیادتی اور تشدد کی نئی داستان رقم کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس قتل و غارت، سفاکیت و بربادی کے پیچھے دراصل ایک فلسفہ و فکر کار فرما ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی فلسفہ و فکر کے حامل صیہونی یہودیوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر اسے اپنے قبضہ میں کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ 

پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور اپنی بالادستی قائم کر لی۔ جنگ ختم ہوئی تو برطانیہ نے وہ اعلان کیا جسے "اعلان بالفور" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اعلان 2 نومبر 1917ء کو سامنے آیا اور اس میں سرزمین فلسطین یہودیوں کو بطور قومی و طن عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ عالمی طاقتوں کی سرپرستی میں اس وقت یہ سازش عملی شکل اختیار کر گئی جب دنیا کے نقشے پر مسلمانوں کے قلب میں واقع اسرائیل نامی ناجائز صہیونی ریاست کا اعلان 15 مئی 1948ء کو کیا گیا۔ تسلط و طاقت کے فلسفہ پر قائم اس ناجائز ریاست کے ساتھ ہی ظلم و جور اور سفاکیت و بربریت کا یہ سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز تر ہوجاتا ہے۔ 

توسیع پسند و تسلط و طاقت کے نشہ میں مدہوش اسرائیل نے 1967ء میں تمام فلسطین پر قبضہ کرلیا اور مقامی باشندوں کو بے دخل کر دیا، یوں اس سرزمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن، لبنان اور شام میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، مگر سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں یہاں سے بھی نکالنے کی سازش کی چنانچہ ستمبر 1975ء میں اردن کی شاہی افواج نے یہاں پر مقیم فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کر دی۔ ان کا قتل عام کیا گیا، اس کے بعد ان فلسطینیوں کو لبنان میں پناہ پر مجبور کر دیا گیا۔ اس بھیانک ظلم کو سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔

ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں جاری رکھیں، دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے بہت زیادہ مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون کیا، حتیٰ کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کئے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہوگیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کی جانے لگیں۔ لبنان میں اسرائیل کو 2006ء کی جنگ میں بری طرح شکست فاش سے دوچار کرکے اس کے غرور اور ناقابل تسخیر ہونے کے پراپیگنڈے کو زائل کر دیا۔ اس سے پہلے بھی لبنان میں امریکی، فرانسیسی اور صیہونی فوجیوں کے خلاف خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ لوگ دُم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطین میں جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا۔۔۔۔۔۔
 
اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے والی تحریک غلیل سے ہوتی ہوئی کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔ 66 برس میں فلسطینیوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ گولیوں کی بوچھاڑ میں، بارود کی بارش میں، تاراجی اور بربادی میں، منافق اور بزدل لیڈروں، استعماری سازشوں، خوراک کی قلت، محاصرے، گھروں سے نکالے جانے اور مہاجر بنا دیئے جانے میں کیسے زندہ رہنا ہے، اپنی مظلومیت کو اپنی طاقت میں کیسے بدلنا ہے۔ استعمار کے مسلط کردہ حکمرانوں سے کیسے نمٹنا ہے اور استعمار کو کیسے ناکوں چنے چبانے پر مجبور کرناہے۔ شہادتوں کو کیسے اپنی قوت اور طاقت میں تبدیل کرنا ہے۔ درد کو کیسے دوا بنانا ہے۔

امام خمینی جیسے عظیم رہنما کی بات پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرتی تو اسرائیل کا ناپاک وجود آج کہیں نظر نہ آتا۔ انہوں نے بارہا ان خطرات سے متوجہ کیا اور برملا کہا کہ اگر تمام مسلمان ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر انڈیل دیں تو اس کا خاتمہ ہوجائے۔ انہوں نے ا یک موقعہ پر کہا کہ
"اسلامی ممالک کے سربراہوں کو متوجہ ہونا چاہئے کہ فساد کا یہ جرثومہ (صہیونی ریاست)، جس کو اسلامی سرزمینوں کے قلب میں تعینات کیا گیا ہے، صرف عرب اقوام ہی کو کچلنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کا خطرہ اور ضرر پوری مشرق وسطٰی کو درپیش ہے۔ منصوبہ یہ ہے کہ دنیائے اسلام پر صہیونیت کا غلبہ ہو اور اسلامی ممالک کی زیادہ سے زیادہ زرخیز اراضی کو استعمار کا نشانہ بنایا جائے اور صرف اسلامی حکومتوں کی جانفشانی، استقامت اور اتحاد کے ذریعے ہی استعمار کے سیاہ سپنے سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے اور اگر اسلام کو درپیش اس حیاتی مسئلے میں کسی بھی حکومت نے کوتاہی کی تو دوسری حکومتوں پر لازم ہے کہ اس حکومت کو سزا دیں، اس سے تعلقات توڑ دیں اور دباؤ ڈال کر اس کو اپنے ساتھ چلنے پر آمادہ کریں۔ تیل کی دولت سے مالامال اسلامی ممالک پر لازم ہے کہ تیل اور دوسرے وسائل سے اسرائیل کے خلاف حربے (اور ہتھیار) کے عنوان سے استفادہ کریں اور ان ممالک کو تیل بیچنے پر پابندی لگائیں جو اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔"

آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کے جوہر عظیم کی شناخت کرکے عزت و سعادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے 66 برسوں میں ہزاروں قیمتی لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرچکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں ڈاکٹر فتحی شقاقی، شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین کی عظیم قربانیوں نے شجاعت کی جو داستانیں رقم کی ہیں، وہ مشعل راہ کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے۔ ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردہ اسلامی حکمرانوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طور پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان، خواتین اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی دھرتی کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کرائیں گے۔

پاکستان میں مختلف اسلامی و سیاسی تنظیموں کی طرف سے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے جمعۃ الوداع یعنی رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو امام خمینی کے فرمان پر عمل پیرا ہو کر اس دن کو عالمی یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے اور پورے ملک میں جلسے، جلوس، ریلیاں، سیمینارز کے ذریعے مظلوم فلسطینیوں کی آواز کو اقوام عالم تک پہنچانے کی سعی کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ ہر سال پہلے سے زیادہ قوت اور شہامت کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ دنیا بھر کی طرح ہمارے ملک کی فضائیں بھی مردہ باد اسرائیل کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتی ہیں۔ ہر سو اسرائیلی پرچموں کو نذر آتش کرکے اس کے وجود کے خاتمے کا عزم دہرایا جاتا ہے۔ اس دن مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے اور انہیں اس بات کا ااحساس دلایا جاتا ہے کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔
 
اس کیساتھ ساتھ پوری دنیا میں مختلف اقوام و ملل کیطرف سے نکلنے والے مظاہروں، ریلیوں اور احتجاجی جلوسوں سے استعمار کی یہ سازش بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہے۔ جس کا مقصد اس مسئلہ کو عرب مسئلہ یا علاقائی مسئلہ بنا کر اسے محدود کرنا ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ دن ضرور آئے گا جب دنیا کے نقشہ سے اس شیطانی جرثومے اور غدود کو نکال باہر کیا جائے گا تو امت مسلمہ بیت المقدس یعنی قبلہ اول میں نماز شکرانہ ادا کرے گی۔ اسرائیل کا وجود حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا اور دنیا پر امن و سلامتی کا راج ہوگا ۔۔۔۔ ہم اس دن کے انتظار میں ہیں، جب عالمی یوم القدس بھی فلسطین کے دارالخلافہ بیت المقدس میں ہوگا، وہاں ہزاروں شہداء اور قربانیاں پیش کرنے والوں کی یادیں تازہ کی جائینگی اور انہیں خراج عقیدت و تحسین پیش کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 401450
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش