0
Sunday 27 Jul 2014 16:02

بلوچستان، ماہ صیام میں بھی پانی و غذاء کی قلت

بلوچستان، ماہ صیام میں بھی پانی و غذاء کی قلت
رپورٹ: این ایچ حیدری

سپریم کورٹ کو اس وقت حیرانگی ہوئی جب کورٹ کو بتایا گیا کہ حکومت بلوچستان کے عوام کو غذائی اجناس میں کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں دی جاتی۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ کوئٹہ سے باہر ایک بھی یوٹیلٹی اسٹور نہیں ہے۔ درجن بھر ایسے سٹور صرف کوئٹہ شہر تک محدود ہیں۔ کوئٹہ سے باہر یوٹیلٹی اسٹورموجود نہیں۔ دوسرے الفاظ میں پورے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جان بوجھ کر امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن نے آج تک بلوچستان بھر میں اپنا نظام کیوں قائم نہیں کیا۔؟ پوری کی پوری آبادی سے، کوئٹہ کے سوا، امتیازی سلوک کا کیا جواز ہے۔ صوبائی حکومت کو چاہیئے کہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرے کہ بلوچستان کے ہر شہر اور بڑے بڑے آبادی والے علاقوں میں یوٹیلٹی اسٹور قائم کرے۔ حکومت نے فوڈ سبسڈی کی مد میں دو ارب روپے مختص کئے تھے۔ اس سے بلوچستان کے عوام کو کچھ بھی نہیں ملا۔ لہذا عوام کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ وفاقی حکومت بلوچستان کے تمام بڑے بڑے شہروں میں سستا بازار لگائے اور ارزاں قیمتوں پر لوگوں کو غذائی اجناس فراہم کرے۔ صوبائی حکومت کو بھی تماش بین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئیے۔ ماہ رمضان میں ارزاں قیمت پر غذائی اجناس کی فروخت کو ہر صورت ممکن بنایا جائے۔ صوبائی حکومت یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن پر دباؤ ڈالے کہ وہ ہر شہر میں اسٹور قائم کرے تاکہ بلوچستان کے عوام ارزاں اور سستی اشیاء خصوصاً ضرورت کی اشیاء خرید سکیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 118 ارب روپے خرچ کر رہی ہے۔ اس میں کسی حد تک حصہ بلوچستان کو بھی ملتا رہا ہے مگر حکومتی نظام بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں نہیں پہنچ سکا اور بلوچستان کے عوام فوڈ سبسڈی جیسی رعایت یا سہولت سے محروم رہے۔

صوبائی حکومت ریاستی مشینری کو دور دراز علاقوں میں پہنچائے تاکہ عوام الناس کو جدید دور کی سہولیات مہیا ہو سکیں۔ بعض ماہرین معاشیات نے یہ مشورہ دیا کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کم سے کم 100 سے زیادہ اسٹور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قائم کرے۔ ہر سال کم سے کم بیس اسٹور قائم کیے جائیں۔ وفاقی حکومت کو یہ تاثر دور کرنا پڑے گا کہ بلوچستان کے عوام دوسرے درجے کے شہری ہیں چونکہ وہ حکومت وقت کے لئے سیاسی خطرہ نہیں بنتے۔ اس لئے ان سے امتیازی سلوک جائز ہو جاتا ہے یا ان کو ہر معاملے میں نظر انداز کرنا زیادہ پسندیدہ عمل ہے۔ بلوچستان کے عوام ان تمام سہولیات اور مراعات کے حق دار ہیں جو اس ملک کے دوسرے صوبوں کے لوگوں کو دی جا رہی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وفاق نے گذشتہ ساٹھ سالوں میں بلوچستان میں ترقی کا بنیادی ڈھانچہ تک تعمیر نہیں کیا نہ ہی اس بات کے امکانات ہیں کہ آئندہ نصف صدی میں یہ ڈھانچہ تعمیر ہو سکے گا۔ بلوچستان میں ستر فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں اور پھر بھی وہ غذائی اجناس کی قیمتوں میں کسی رعایت کے اہل نہیں سمجھے جاتے۔ اس صورت حال میں وفاقی حکومت کا فرض بنتا ہے کہ غذائی اجناس کی وافر فراہمی کے لیے رعایتی بازار لگائے جائیں تاکہ بلوچستان کی ستر فیصد آبادی اس سے فائدہ اٹھائے۔ صوبائی حکومت کی گندم کی سبسڈی گذشتہ پچاس سالوں میں کرپٹ محکمہ خوراک کے افسران اور مل مالکان میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اس سے کم سے کم بلوچستان کے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ محکمہ خوراک کا ایک ایک افسر اربوں روپے ہڑپ کر گیا۔ گوداموں سے گندم چوری کرکے اور اسمگلروں کے ہاتھوں گندم اور آٹا فروخت کرکے بلوچستان کے عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا۔

دوسری جانب تقریباً ہر سال گرمیوں میں کاشت کار نہروں میں پانی کی قلت کی شکایت کرتے رہے ہیں۔ بلوچستان میں یہ شکایت دوسرے صوبوں کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بلوچستان دریائے سندھ کے نہری نظام میں آخری حصے پر واقع ہے۔ اوپری حصے والے اپنی ضروریات یا اس سے زیادہ پانی اپنی طاقت کے بل بوتے پر چوری کرتے ہیں۔ افسران، انتظامی ہوں یا ان کا تعلق آبپاشی سے ہو۔ ان طاقتور وڈیروں کا کچھ نہیں بگاڑتے بلکہ آخری حصے میں طاقتور وڈیرے بھی بےبس نظر آتے ہیں کیونکہ نہری نظام کے آخری حصے میں پانی پہنچتا ہی نہیں ہے۔ ان وڈیروں اور طاقتور لوگوں کو دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ البتہ اخباری نمائندوں کو بلا کر شور و غوغا کرتے رہتے ہیں۔ بلوچستان میں پٹ فیڈر سب سے بڑا کینال ہے۔ جس میں تقریباً 6000 کیوسک پانی کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ یہ اس کا جائز حصہ ہے مگر آج کل اس نہر میں پانی کا بہاؤ صرف 2000 کیوسک یعنی صرف ایک تہائی ہے۔ گرمیاں ہیں، برف کے پگلنے کا عمل زیادہ تیز ہو گیا ہے۔ بالائی علاقوں میں بارشیں بھی ہو رہی ہیں۔ سوات اور اس کے معاون دریاؤں میں سیلاب آیا ہوا ہے مگر زیریں علاقوں میں پانی کی قلت زیادہ ہے۔ صرف 2000 کیوسک پانی سے چاول اور دوسری فصلوں کی بوائی بھی تیس فیصد تک رہے گی۔ پانی نہیں ہے تو چاول کی کاشت کیسے ہو گی۔ مقامی کاشت کار اور محکمہ آبپاشی کے اہلکار سندھ حکومت اور اس کی انتظامیہ پر الزام لگاتے ہیں کہ سندھ سے پانی کا بہاؤ کم ہے۔ سندھ سب سے پہلے اپنی ضرورت مکمل کرنے کے بعد میں اضافی پانی بلوچستان کو فراہم کرے گا۔ پٹ فیڈر میں پانی کی کمی کے باعث لاکھوں ایکڑ زمین آباد نہیں ہو سکے گی اور اسی طرح کیرتھر کینال میں 2400 کیوسک پانی کے بجائے صرف 1200 کیوسک پانی سندھ سے فراہم کیا جا رہا ہے۔

اس طرح کیر تھر کینال کے تحت علاقے میں 50 فیصد بوائی کم ہوگی۔ روزمرہ کے پانی کے بہاؤ کے علاوہ سیلابی پانی سے بلوچستان کا حصہ 10,000 دس ہزار کیوسک بنتا ہے۔ اس سے بھی بلوچستان کو محروم رکھا گیا اور آج کل نہری پانی کی سپلائی صرف 3500 کیوسک ہے۔ ظاہر ہے اس سے پیداوار کم ہوگی اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ لاکھوں کاشت کاروں کے لئے اس سال کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہو گا۔ اس قلت سے بلوچستان کی معیشت پر شدید اور منفی اثرات پڑیں گے۔ جو ملکی معیشت کیلئے نیک شگون نہیں ہے۔ نصیر آباد واحد نہری علاقہ جہاں سے بلوچستان کی حکومت توقع کرسکتی ہے کہ وہاں اتنی غذائی پیداوار ہوگی۔ جس سے بلوچستان غذائی طور پر خود کفیل ہو سکتا ہے مگر نہری پانی کی قلت اور سندھ حکومت کا معاندانہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچستان اپنے غذائی اجناس کے اہداف اس سال حاصل نہیں کرسکے گا۔ لوگ یہ جائز توقع رکھتے ہیں کہ صوبائی حکومت ان معاملات کو وفاق اور سندھ حکومت کے ساتھ اٹھائے گی تاکہ بلوچستان میں نہری پانی کی قلت ختم ہو جائے۔ نہری پانی کی قلت کا ایک پہلو یہ ہے کہ پٹ فیڈر اور کیر تھر کینال لوگوں کے پینے کے پانی کا ذریعہ ہے۔ مال مویشوں کو بھی پانی انہی نہروں سے پلایا جاتا ہے۔ نہروں کے آخری حصوں میں پانی بالکل ناپید ہے اس لئے لوگ اور مال مویشی پینے کے پانی کے محتاج ہیں حکومت کے پاس کوئی متبادل انتظام نہیں ہے کہ وہ پینے کا پانی دور دراز علاقوں کو فراہم کر سکے۔ پانی کی قلت کے باعث ان علاقوں میں مال مویشی بڑی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں متعدد بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ اس کا واحد حل بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی مہیا کیا جائے اور سندھ حکومت بلوچستان کے خلاف اپنا معاندانہ رویہ ترک کرے۔
خبر کا کوڈ : 397970
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش