0
Sunday 16 Nov 2014 23:29
داعش مسلمانوں کیخلاف ایک سازش ہے

بھارت کبھی بھی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک نہیں کرسکتا، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

بھارت کبھی بھی پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک نہیں کرسکتا، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ مسلم لیگ نون کے رہنماء بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے ملکی صورتحال، وزیراعظم نواز شریف کے دورہ چین اور جرمنی سمیت حالیہ دھرنے اور احتجاج کے حوالے سے اہم انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: چینی صدر نے پاکستان کا دورہ موخر کر دیا، اب نواز شریف صاحب چین کا دورہ کرکے آئے ہیں، اس دورے کے خطے پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: وزیراعظم نواز شیریف کا حالیہ دور چین بہت اہمیت کا حامل ہے، یہ ایک گیم چینجر ہے، یہ بہت ہی اہمیت کا حامل دورہ تھا، اس دورے میں 42 سے 45 بلین ڈالر کے کنٹریکٹ سائن ہوئے ہیں، ان کنٹریکٹس کی پہلے سے انڈسٹنڈنگ ہوچکی ہے، اس میں توانائی کے شعبے میں تعاون شامل ہے، خنجرات سے لیکر گوادر تک کوریڈور کی تعمیر شامل ہے، یہ کوریڈور پاکستان کی تقدیر بدل دیگا، یہ منصوبہ چائنہ کے بھی فائدہ میں ہے، جب چائنہ سمندر تک پہنچے گا تو اسے اسٹیٹ آف ہارمنز تک بھی رسائی ملے گی، چین کی 2500 کمپنیاں یو اے ای میں کام کر رہی ہے، ان کو سامان کی ترسیل کیلئے لمبا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، تیل، گیس کی سپلائی اسی راستے ہوتی ہے، دنیا کی 60 فیصد سپلائی سمندر کے اسی روٹ سے ہوتی ہے۔ چین کو بھی اپنی سرمایہ کاری بڑھانے میں آسانی ہوگی اور ہمیں بھی ریونیو کمانے کا موقع ملے گا۔ اس سے پاکستان میں روزگار کے موقع ملیں گے۔ لاکھوں نواجونوں کو نوکریاں ملیں گے۔
بدقسمتی سے دھرنوں اور مارچز کی وجہ سے چینی صدر پاکستان کے دورے پر نہ آسکے لیکن کوئی بات نہیں، تاخیر ہوئی ہے اور اس سے ہمارے وقار پر بھی دھبہ آیا ہے لیکن یہ ریکور کرلیا جائیگا۔ ابھی وزیراعظم جرمنی کے دورے پر گئے ہیں، جرمنی کے ساتھ ہماری دوطرفہ تقریباً اڑھائی ارب کی تجارت ہے۔ جرمنی میں کوئی 70 ہزار پاکستانی کام کرتے ہیں، جرمنی قیادت نے کہا ہے کہ اللہ کرے کہ آپ لوگوں کے حالات بہتر ہوجائیں، اس کیلئے آپریشن ضرب عضب چلا ہوا ہے تو یہ وزٹ بھی معیشت کی بہتری کیلئے تھا۔ اسی طرح وزیراعظم لندن گئے ہیں، تاکہ ان کی مارکیٹس تک ہمیں رسائی ملے۔ ہماری دو ترجیہات ہیں، ایک امن و امان کو قائم کرنا ہے، جس کیلئے آپریشن ضرب عضب چلا ہوا ہے اور سی ٹی آپریشن جسے کونٹر ٹیررازم آپریشن کہتے ہیں چل رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے پوری قوم یکسو ہے اور اس کو بہتر کرنے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ نمبر دو معیشت کی بحالی ہے، اسی لئے ہمارے دشمن ان دھرنوں کے پیچھے ہیں، اگرچہ دھرنے کرنے والے تو محب وطن پاکستانی ہیں لیکن ان کے پیچھے فنڈنگ کرنے والے وطن دشمن ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اُن کے کیا عزائم ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہمارے دشمن سے کیا مراد ہے اور وہ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: دشمن ہمارے ملک میں تفرفہ چاہتے ہیں اور وہ یہ کوریڈور بھی نہیں چاہتے اور ہماری معیشت کی بحالی، توانائی بحران کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ وہ ہمارے ان سیاسی قائدین کو بتائے بغیر ہی استعمال کرتے ہیں، ہر روز ایک نئی ڈیڈلائن دی جاتی ہے، کبھی 30 نومبر کی ڈیڈ لائن دی جاتی ہے، ان سب چیزوں کا مقصد ملک میں غیر یقینی کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہے۔ انہیں خطرہ ہے کہ کہیں یہ گوادر تک کوریڈور نہ بن جائے، کہیں معیشت کی بحالی نہ ہوجائے، کہیں حکومت اپنے پاوں پر کھڑی نہ ہوجائے۔ زرداری حکومت میں قومی اداروں کو نچوڑ کر رکھ دیا گیا تھا، ہمارے پاس نواز شریف کے علاوہ کوئی چوائس نہیں بچتی۔ عمران خان کو ابھی کسی نے آزمایا نہیں ہے، انہیں کے پی کے میں حکومت کرنیکا موقع ملا ہوا ہے لیکن انہوں نے وہ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ ان کے پاس ریاست چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے، ان پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے لوگوں کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں ہے۔ میں کبھی نہیں کہتا کہ نواز شریف قائد اعظم ثانی ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمارے پاس کوئی بہتر چوائس ہی نہیں ہے، نواز شریف اور مسلم لیگ نون ٹھیک لیول پر چل رہے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ انہیں تنقید کا نشانہ بنائیں لیکن فلور آف دی ہاوس پر جاتے، وہاں پر کھل کر تنقید کرتے۔ ابھی میاں صاحب اس ڈپریشن سے نکلنے کیلئے کوشش کر رہے ہیں، تاکہ معیشت کی بحالی ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم چین گئے تو وہاں پر بھی سرحد کی صورتحال اور دہشتگردوں کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایران بھی ہم سے ناراض ہے، افغانستان بھی تحفظات رکھتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ سارے ہمسائے ہم سے ناراض ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: یہ ہماری بدقسمتی ہے، ہم اپنے دل سے پوچھیں اور آپ اپنے دل سے پوچھ لیں، آپ کسی بھی سیاسی جماعت سے پوچھ لیں، کیا کوئی دہشتگردی چاہتا ہے، کیا کوئی ہمسایوں سے تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے۔ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ناحق خون بہے، پھر ہم کیوں بدنام ہیں، اس لئے کچھ عناصر ہماری سرزمین کو استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں پراکسی جنگ چل رہی ہے، جس کے پیچھے بیرونی طاقتیں ہیں۔ ان عناصر کے پیچھے بیرونی ایجنسیاں، پیسہ اور اسلحہ سمیت سب کچھ ہے۔ ان ممالک کے ہم سے گلے ہیں لیکن ان کی سرزمین بھی ہمارے خلاف استعمال ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے گھر کو بہتر کرنے کی ضروت ہے، چین کے گلے شکوے ضرور ہیں لیکن وہ دل و دماغ سے ہمارے بارے میں صاف ہیں، ایران اور سعودی عرب کو کلیئر ہے کہ ہم ریاست کے طور ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ ہم مسلم امہ کے اتحاد کیلئے کوشاں ہیں۔ ہم تو وہی فکر چاہتے ہیں جو علامہ اقبال کی فکر ہے۔ یہ ہمارے لئے ایک بڑا ٹاسک ہے کہ ہم بین الاقوامی سطح پر ان کی نگاہ میں اپنے آپ کو سرخرو کریں۔
ہم چاہتے ہیں کہ دہشتگردی کی اس لعنت سے نکلیں اور اس کیلئے قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ اس کیلئے سیاسی جماعتوں کو تعاون کرنا چاہیے، بارہا کہا کہ سیاسی جماعتیں اس لئے ہیں کہ پاکستان ہے۔ اگر پاکستان نہیں ہوگا تو کوئی سیاسی جماعت بھی نہیں ہوگی اور ہم بھی نہیں ہوں گے، پہلے ریاست کو بچانا ہوگا، آپ سیاست کریں، آپ پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کی تحریک لائیں دیگر جو سیاسی حربے ہوسکتے ہیں وہ استعمال کریں لیکن ایسا کام نہ کریں جس سے ریاست کمزور ہو۔ عمران خان اور طاہرالقادری جو باتیں کرتے رہے ہیں وہ غلط نہیں ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ صحیح باتیں غلط وقت پر کر رہے ہیں۔ جب الیکشن لڑنے کا وقت آیا تھا اس وقت یہ باتیں کرتے اور اب پارلیمنٹ کے اندر اپنا کیس فائل کریں اور اس کے بعد جب الیکشن آئے تو پھر یہ باتیں کریں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں سکیورٹی کے حالات خراب ہیں۔ ایک طرف آپریشن ضرب عضب بھی جاری ہے، دوسری جانب حملے بھی جاری ہیں۔ ہم ناکام کیوں دکھائی دے رہے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: ہر محاذ پر کام کرنے کی ضرورت ہے، جہاں فوجی اقدام کی ضرورت ہے وہ کریں، جہاں معاشی قدم اٹھانا ہے وہ کریں، جہاں لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کیلئے میڈیا کو استعمال کرسکتے ہیں اسے کریں، ہم یہ باتیں کر رہے ہیں کہ جو بیرونی عناصر ہیں جو افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، یہ باتیں عام عوام تک پہنچیں اور انہیں پتہ چلے۔ جہاں سفارتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور پروپیگنڈے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے، اس کیلئے سفارتی چینل چلائیں اور حکومت وقت یہ ساری چیزیں کر رہی ہے۔ توانائی کے شعبہ میں کام ہو رہا ہے، آپریشن ضرب عضب بھی لانچ کر دیا ہے، وہ سفارتی سطح پر بھی کام کر رہے ہیں۔ اشرف غنی کا دورہ پاکستان اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ انڈیا، امریکہ، روس اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے فقط چار حلقوں کی بات کی ہے، اگر وہاں دھاندلی نہیں ہوئی ہے تو کیوں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ کھول دیں چار حلقے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: یہ اَنا کا مسئلہ ہے، جن لوگوں نے چار حلقوں کی رٹ لگائی ہے، یہ معاملہ فقط چار حلقوں پر نہیں روکے گا، اگر چار حلقے کھل گئے تو کہیں گے کہ چالیس کھولو، پھر کہیں گے کہ پورا الیکشن ہی دوبارہ کراو، اصل مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان کے وہم و گمان میں تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائیں گے، ان کے اکثر انٹرویوز اٹھا کر دیکھ لیں کہ وہ کہتے تھے کہ سونامی سویپ کر جائیگی لیکن وہ نہ ہوسکا۔ اب دیکھیں کہ نگران حکومت کوئی نواز شریف نے تو نہیں بنائی تھی، نگران حکومت تو تمام جماعتوں کی مشاورت سے بنائی گئی تھی، اب اگر دس یا پندرہ حلقوں میں پتہ چلتا ہے کہ سیاہی استعمال نہیں کی گئی تو ان لوگوں کو پکڑ کر سخت سزائیں دلوائیں۔ لیکن یہ کہیں کہ حکومت ہٹ جائے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ میں نون لیگ کا ایک نمائندہ ہوں اور ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوں تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ نون لیگ نے وہ غلطی کی ہے۔ انفرادی سطح پر ممکن ہے کہ کسی نے دھاندلی کی ہو، لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ جماعت ذمہ دار ہے۔

اسلام ٹائمز: داعش کے پیچھے کون ہے، کہنے والے کہتے ہیں کہ سی آئی اے اس کے پیچھے ہے۔ اب تو پاکستان میں بھی وال چاکنگ شروع ہوگئی ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اگر کوئی کہتا ہے کہ داعش کے پیچھے سی آئی اے ہے تو آپ ہاں کرسکتے ہیں اور نہ ہی ناں کرسکتے ہیں۔ کیونکہ سی آئی اے کے لمبے لمبے پلان ہوتے ہیں، جن لوگوں نے مسلم دنیا میں آکر اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے ان سے کچھ بعید نہیں۔ آپ کے خیال میں عراق میں خطرناک ہتھیار تھے؟، آپ کے خیال میں سی آئی اے کو نہیں معلوم تھا کہ عراق کے پاس کچھ نہیں ہے۔ یہ بہانے بناتے ہیں، ابھی تو نائن الیون کے بارے میں کہتے ہیں کہ پتہ نہیں کیسے ہوگیا۔ وہ تو ایک امریکی پائلٹ نے کہا کہ میں نے ساری زندگی جہاز اڑائے ہیں تو جہاز اس طرح جاکر نہیں ٹکرا سکتا۔ یہ کیسے ہوا۔ داعش مسلم دنیا کیخلاف ایک سازش ہے، کیونکہ مسلم امہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ جس پر وہ آنا چاہتے ہیں، اسلام تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ اب لیبیا، شام اور عراق میں صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ کیا لیبیا سے دنیا کو کوئی خطرہ تھا۔؟ کیا افغانستان میں بیٹھے ہوئے افراد میں اتنی سکت تھی کہ وہ نائن الیون کا واقعہ کرتے۔ یا ایران کے اندر اتنی صلاحیت ہے کہ وہ امریکہ میں جاکر کارروائی کرے۔ ابھی داعش کے حوالے سے انہوں نے بہانا تلاش کیا ہے اور ائیر اسٹرائیک شروع کر دی ہے۔ داعش شیعوں، سنیوں، کردوں سے لڑ رہی ہے، انہوں نے 60 لاکھ آبادی کو محصور کیا ہوا ہے۔ آپ دیکھیں کہ داعش میں ہزاروں لوگ یورپ، رشین اور دیگر ممالک سے آکر جوائن کر رہے ہیں۔ حتٰی امریکہ سے لوگ آکر اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ ایک سخت معمہ ہے جس سے ہم نے بچنا ہے۔ ابھی وزیر داخلہ نے بھی کہا ہے کہ باہر سے داعش کے کوئی بندے نہیں آئے، البتہ کچھ پمفلٹس تقسیم کئے گئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مودی سرکاری کیجانب سے ہونیوالی ایل او سی اور ورکنگ باونڈری کی خلاف ورزی پر کیا کہیں گے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: میں اس پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان کی سوچ اور رویہ بدنیتی پر مبنی ہے، سڑسٹھ سال سے مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن مذاکرات میں بات بن نہیں رہی، بھارت کبھی کہتا ہے کہ بائی لیٹرل مذاکرات ہوں، کبھی راگ الاپ دیتے ہیں کہ شملہ معاہدہ یہ کہتا ہے، جب مذاکرات کیلئے میز سجتی ہے تو پھر حیلے بہانے سے تعطیل کر دیتے ہیں، مذاکرات کی آڑ میں کشمیر میں ہندووں کو بسایا جا رہا ہے۔ ہم اقوام متحدہ سے مسئلہ حل کرانے کی بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ ہم نے مل کر حل کرنا ہے اور جب ہم بات کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ابھی فضا سازگار نہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر ہمارے حوالے کرو، یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں۔ اگر آپ مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پھر لمبے چوڑے مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہندوستان کے فاونڈنگ فادر نہرو نے تحریری عہد کیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت ضرور ملے گا۔ انہوں نے بڑے واضح کہا تھا کہ کشمیریوں سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اور پاکستان سے یہ میرا وعدہ ہے۔ نہرو نے کشمیریوں سے کہا کہ آپ نے پاکستان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا تو ہمیں ناپسند بھی ہوا تو ہم اپنے آئین میں تبدیلی کرکے اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے دیکھیں، حق خودارادیت دینے کی بجائے بھارت 7 لاکھ فوج چڑھا کر بیٹھا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارت ہمارے اوپر سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے۔؟
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: ہندوستان سرجیکل اٹیک کی جرات نہیں کرسکتا۔ ہندوستان امریکہ نہیں ہے، امریکہ کا سرجیکل اٹیک ہمارے ملک میں اسامہ بن لادن پر آیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم امریکہ کے اتحادی تھے اور ہم نے اپنی مغربی سرحدیں ان کیلئے کھولی ہوئی ہیں۔ شمسی نامی ہمارا ایک ائیر بیس ان کے پاس رہا ہے۔ انڈیا کبھی بھی ایسی جرات نہیں کریگا۔ پاکستان کی پالیسی ہے کہ ہم نے دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے۔ اس کیلئے آپریشن ضرج عضب کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 419850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش