2
0
Wednesday 19 Nov 2014 16:46

فروغ الحاد، یہ تو ہونا تھا

فروغ الحاد، یہ تو ہونا تھا
تحریر: ثاقب اکبر

 روزنامہ نوائے وقت نے 17 نومبر 2014ء کو ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ایک خفیہ سروے کے مطابق پاکستان میں مذہب چھوڑنے اور ملحد بننے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور اس میں شیعہ، سنی اور دوسرے تمام مسالک کے لوگ شامل ہیں۔ الحاد کے تیزی سے پھیلنے کا سبب سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بیٹھے سابقہ مسلمان ہیں، جن کے بقول مذہبی تعلیمات جھوٹ پر مبنی ہیں، اس کے علاوہ وہ مذہبی عقائد کے خلاف سائنسی ثبوت بھی پیش کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر سابقہ پاکستانی مسلمان ملحدین کی اکثریت پڑھی لکھی ہے اور ان میں مدارس سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر ملحد بن گئے۔ فیس بک اور ٹویٹر پر کئی ایسے گروپس اور آئی ڈیز ہیں جو لوگوں کو مذہب سے نکالنے کے لئے دن رات کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ الحاد مغربی ممالک اور عرب ممالک میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے اور لوگ کسی بھی مذہب کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو اگنوسٹک کہتے ہیں، یعنی کہ وہ خدا کے تصور کو تو کسی حد تک مانتے ہیں مگر کسی مذہب کو نہیں مانتے، اتھسٹ ہوں یا اگنوسٹک اسلام کے نزدیک یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں، اگر الحاد بڑھنے کا رجحان اسی طرح رہا تو پاکستان سمیت ساری دنیا میں مذہب کے نہ ماننے والے ملحدین کی اکثریت ہوگی۔
 
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رپورٹ ایک پہلو سے تو درست ہے کہ الحاد کے فروغ کے لئے پاکستان میں بعض لوگ شعوری کوششیں کر رہے ہیں لیکن ایسی تمام کوششوں کو کسی سازش کا حصہ کہنے سے پہلے اس امر پر غور کرنا ضروری ہے کہ الحاد کے فروغ کے لیے خود ’’مسلمان‘‘ ’’خلوص نیت‘‘ سے کتنا حصہ ڈال رہے ہیں اور یہ بات جاننے کے لیے کسی خفیہ سروے کی ضرورت نہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم پاکستان اور مسلمان ممالک میں الحادی فکر کے پھیلنے کی وجوہات کا جائزہ لیں، ہمیں یہ جاننا چاہیئے کہ مغرب میں کلیسا کی بساط کا لپٹ جانا اور پورے مغربی سیاسی نظام پر سیکولر فکر کا غلبہ ہوجانا کوئی دور کی بات نہیں۔ مسلمان دانشوروں نے اس مسئلے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے اور اس کی بنیادی وجہ خود کلیسا کے کارپردازوں کا طرز عمل اور ان کے تصور مذہب کو قرار دیا ہے۔ مذہبی استبداد کی جو روش کلیسا نے اختیار کی تھی اور جس طرح سے وہ عقل و فکر کو بروئے کار لانے سے روکتے تھے اور جیسے وہ مشاہداتی حقائق کا انکار کرتے تھے، اس سب کا نتیجہ مذہب سے فرار کے سوا کچھ نہیں نکلنا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس گیا۔ کلیسا سے بغاوت بالآخر مذہب سے بغاوت پر منتج ہوئی۔ یہ خلاصہ ہے مسلمان دانشوروں کے اس نقطۂ نظر کا جو انھوں نے زوال کلیسا کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔
 
ہم سوال کرتے ہیں کہ جو کچھ کلیسا کے اہل حل و عقد اور مذہبی رہنماؤں نے کیا، کیا مسلمان مذہبی راہنما وہی کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ اگر ہماری بات کا جواب مثبت ہے تو پھر نتیجہ وہی نکلے گا جو مغرب میں نکل چکا ہے۔ اہل مغرب خدا کے بیٹے اور رشتے دار ہیں اور نہ اہل مشرق۔ وہ لم یلد ولم یولد۔۔۔ کا مصداق ہے اس کے قوانین اٹل ہیں، اس کی سنتیں نہیں بدلتیں، جن اعمال کے نتیجے میں مغرب والوں نے الحاد کا راستہ اختیار کیا، انہی اعمال کے نتیجے میں مشرق والے بھی الحاد ہی کا راستہ اختیار کریں گے۔ یہ قدرت کے فیصلے ہیں اور جب قوموں کی اجل آجاتی ہے تو نہ ان کا وقت پیچھے کو جاتا ہے اور نہ آگے کو۔
 
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمان گروہ در گروہ تقسیم ہوچکے ہیں۔ دین کی آفاقی تعلیمات پس پشت ڈال دی گئی ہیں، انسان بہت سے اہل مذہب کی نظروں میں بے قیمت ہوگیا ہے، فروع کا غلغلہ ہے اور اصول پامال ہو رہے ہیں۔ دین کے بعض ظواہر مختلف گروہوں نے اختیار کر لئے ہیں اور حقیقت دین کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ مذہب کے نام پر مخالف نقطۂ نظر رکھنے والوں کا بے دردی سے خون بہایا جا رہا ہے، اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کے استعمال کا معاملہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے، فرقہ واریت کا دیو ہے کہ بوتل میں واپس جانے کا نام نہیں لیتا بلکہ اس کا آسیب وحشت ناک حد تک پھیلتا چلا جا رہا ہے۔
 
مسلمان ملکوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھیں بحرین میں کیا ہو رہا ہے، سعودی عرب اپنے ملک کے اندر اور باہر مذہب کے نام پر کیا کردار ادا کر رہا ہے، شام پر کیا گزر رہی ہے، عراق کس طرح سے خون میں نہا رہا ہے، افغانستان پر کیا بیت رہی ہے، ایران کس طرح سے عالمی جکڑبندیوں کا شکار چلا آرہا ہے، پاکستان میں مذہبی تقریبات پر کیسے وحشت و دہشت کے سائے پڑے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اگر کوئی یہ کہنا شروع کر دے کہ مذہب نے انسان کی زندگی کو خوف و وحشت میں مبتلا کر دیا ہے، نوع انسانی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے اور مختلف گروہوں کو ایک دوسرے کا ازلی دشمن بنا دیا ہے تو ایسے میں مذہب ہی کو کیوں نہ چھوڑ دیا جائے۔ سچ کہیے کہ اس فکر کے پیدا ہونے کا باعث کون ہے۔؟
 
جب بھی کوئی اس صورت حال کی بنیاد پر ہمارے دین پر اعتراض کرتا ہے تو ہم قرآن کریم کی آیتیں پڑھ پڑھ کر اسے بتاتے ہیں کہ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ انسان کا خون ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ ہم احادیث کا حوالہ دے کر اپنے نبیؐ کا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان اور انسان محفوظ اور سالم رہیں تو جواب میں ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک طرف کتابوں میں لکھی ہوئی عبارتیں ہیں اور دوسری طرف وحشت ناک طریقے سے ناچتی ہوئی حقیقتیں ہیں۔ خارجی صداقتیں اور وحشت انگیز زمینی حقیقتیں چھوڑ کر اور انھیں نظر انداز کرکے ہم کتابوں کی طرف کیسے چلے جائیں؟ کیا ایک دوسرے کو قتل کرنے والے مسلمان نہیں۔؟
 
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جیسے اہل کلیسا بعض ایسے عقائد پر اصرار کرتے تھے، جو خارجی حقائق پر منطبق نہیں ہوتے تھے، مسلمانوں کے ہاں بھی مذہبی مسند پر براجمان مفتیوں کے بہت سے فتاویٰ خارجی حقائق کا منہ چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مذہبی اداروں کے فارغ التحصیل عام طور پر دنیا میں ہونے والی سائنسی اور انسانی علوم کی پیش رفت سے غافل ہوتے ہیں۔ اسی طرح وہ دنیا پر حکم فرما ان حقائق سے بھی نابلد ہوتے ہیں، جو اپنی قوت سے اپنی طے شدہ سمت کی طرف انسانی کاروان کو لے جا رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کتنے ہی مذہبی علماء ایسے ہیں جنھیں یہ تک نہیں پتہ کے کسی ریاست کے لئے آئین کی ضرورت ہوتی ہے یا نہیں۔ عصری علوم اور مذہبی علوم کا بُعد بڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ بُعد بھی الحاد کے فروغ میں حصہ دار ہے۔ جو لوگ علی وجہ البصیرت خدا پر ایمان رکھتے ہیں، انبیاء کی ضرورت کا ادراک رکھتے ہیں نیز حیات بعد از ممات پر عقیدے کو حقیقت پر مبنی اور ناگزیر جانتے ہیں، انھیں اگر الحاد کی بڑھتی ہوئی روش ناگوار گزرے تو وہ پھر اہل مذہب کی ناگوار اور تکلیف دہ فکر اور حرکت کی اصلاح کے لئے سنجیدہ فکر کریں۔
خبر کا کوڈ : 420372
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
عصری علوم اور مذہبی علوم کا بُعد بڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ بُعد بھی الحاد کے فروغ میں حصہ دار ہے؟
پاکستانی معاشرے میں الحاد کا غلغلہ پہلے بھی 70 کی دہائی میں اسی زور و شور سے ابھرا تھا، جب سوشلزم اور مذہب مدمقابل تھے۔ آج سائنسی فلسفہ اور مذہب کی غلط تعبیریں مدمقابل ہیں۔ ایسے میں درست تعبیرات اور وضاحتوں کی ضرورت ہے, جسکا سنتی علماء کے ہوتے ہوئے پورا ہونا کافی مشکل ہے۔۔ لذا ایک حل تو یہ ہے کہ ایک ایسی افرادی قوت وجود میں آئے جو جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہو اور موجودہ سنتی علماء سے بھی ٹکراؤ نہ رکھتی ہو ۔۔ اور یا پھر موجودہ سنتی علماء ہی اپنی روش میں "اجتہاد" فرما لیں۔۔ بہرحال اب مذہب، اہل مذہب کے بس کی بات نہیں رہا ۔۔ اس کی مدد بانیان مذہب ہی کرسکتے ہیں ۔۔ اب دیکھئے کہ اس کے لئے کونسا نیا طریقہ وضع کیا جاتا ہے!!
والسلام
ہماری پیشکش