0
Saturday 8 Nov 2014 20:37

اقبالؒ کا جوان

اقبالؒ کا جوان
تحریر: سجاد حسین آہیر

شعراء اپنے تخیلات کو منتقل کرنے کے لیے استعارات اور تلمیحات کا سہارا لیتے ہیں اور یہ استعارات اور تلمیحات اپنے دامن میں معارف و معانی کا بحر بیکران سمائے ہوئے ہوتے ہیں جیسے انگریزی زبان کے شاعر فطرت ورڈزورتھ نے کوئل کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنا پسندیدہ اور تخیلاتی پرندہ قرار دیا ہے ۔ شیلے نے سکائی لارک کو اپنی شاعری کی زینت بنایا۔ مشہور امریکی شاعر رابرٹ فراسٹ نے بھی مختلف پرندوں کے ذکر سے شاخ شعر پر نئے نئے غنچے سجائے۔ فارسی اور اردو شعراء نے بلبل کا ذکر اپنے اشعار میں بکثرت کیا ہے کیونکہ پھول اور بلبل ہماری سماجی اور معاشرتی زندگی کے پس منظر میں حسن و عشق کی داستان کے عکاس بھی ہیں۔ علامہ اقبالؒ ایک نظریاتی اور انقلابی شاعر تھے لہذٰا وہ ملت کا قبلہ درست کرنے کیلئے سنجیدگی سے سرگرم عمل رہے انہوں نے ایک غیرت مند انقلابی جوان کے لیے شاہین کو استعارے کے طور پر پیش کیا ہے۔ سید سلیمان ندوی کے استفسار پر اقبالؒ نے ایک خط میں شاہین سے اپنی رغبت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ شاہین ایسا پرندہ ہے جو عظیم صفات کا حامل ہے ۔یہ درویشی، حرکت، قوت اور غیرت کا نمائندہ ہے ۔

اقبالؒ کے شاہین کو ملت مسلمہ کے غیور انقلابی جوانوں سے تعبیر کرنا خالی از حقیقت نہ ہو گا۔ جوانی، غیرت و حمیت، جذبہ و شوق، تحرک و ہمت، قوت و حیات اور جدت و سرعت کا نام ہے۔ اقبالؒ کا شاہین بھی پاکی و پاکیزگی، بلندی و دلیری کی علامت ہے آج کا نوجوان اقبالؒ کا شاہین ہے کہ اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی۔ اقبالؒ کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مومن جوان کی آزاد فطرت کو بیان کرنے کے لیے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کی گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کے چٹانوں پر

پہاڑوں کی چٹانیں بھی وسعت، بلندی اور مضبوطی کی اصطلاحات ہیں جو صرف اور صرف شاہین جیسے پرندے کے مزاج و فطرت کے ساتھ ہی مطابقت رکھتی ہیں۔ پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرنا آزادی اور وسعت نظری کی علامت ہے جب کہ قصر سلطانی کے گنبد پر آشیانہ بنانا اور کار آشیاں بندی طمع، لالچ، ہوا ئے نفس اور غلامی پر دلالت کرتا ہے جبکہ آزادی انسان کی فطری صلاحیتوں کو تشکیل دیتی ہے اسے [و لقد کرمنا بنی آدم ] اور [لقدخلقنا الانسان فی احسن تقویم] کا مصداق ٹھہراتی ہے۔ اقبالؒ نے ظلم و ستم کے خلاف مبارزانہ روش اختیار کی اور شاہین کا بار بار ذکر کر کے جوان مومن کی انقلابی اور اعلٰی صفات و خصوصیات کی نشاندہی کی ہے ۔

جوانی زندگی کا ایک ایسامرحلہ ہے کہ جس میں انسان کے پاس قوت، قدرت اور نشاط موجود ہوتی ہے، جوانی طاقت اور اُمید کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ جوان کے اندر جذبہ و ارادہ ہوتا ہے، سب کچھ کر گزرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے، بھرپور توانائیوں اور جرات کے ساتھ زندگی کی مشکلات کا سامنا کر رہا ہوتا ہے۔ اس عالم میں اگر اُس کے اندر ایمان کی قوت بھی آ جائے تو یہ اقبالؒ کا شاہین کمال کی راہ کا بہترین مسافر ثابت ہو سکتا ہے اور زندگی کے ہر مرحلے میں کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے ۔

اسی لیے علامہ اقبالؒ جوانوں سے خطاب کر کے فرماتے ہیں۔ اپنے اندر عقابی روح بیدار کریں۔ جس طرح شاہین بلند پروازی کی بدولت آسمانوں کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے اسی طرح جوانوں میں جب یہ روح بیدار ہو جاتی ہے تو منزلیں آسمانوں پر دکھائی دیتی ہیں۔ عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن مجید میں جوان کو قوت اور توانائی کا مرکز قرار دیا ہے۔ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِن بَۢعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِن بَۢعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَّشَيْبَةًۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُۖ وَ هُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ۔
اللہ وہ ہے جس نے کمزور حالت سے تمہاری تخلیق (شروع) کی پھر کمزوری کے بعد قوت بخشی پھر قوت کے بعد کمزور اور بوڑھا کر دیا، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور وہ بڑا جاننے والاصاحب قدرت ہے۔ جوان مومن کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ہے، وہ امید، انرجی اور قوت ارادہ سے مزین ہوتا ہے۔ امیر المومنین ؑ نے فرمایا:
تَرَاهُ‏ بَعِيداً كَسَلُهُ‏ دَائِماً نَشَاطُهُ قَرِيباً
تم دیکھو گے کہ سستی اس سے کوسوں دور اور ہمیشہ پُرنشاط نظر آئے گا۔
شاہین عظیم صفات کا حامل پرندہ ہے اور ہر موصوف اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی فضا میں، اسی شکل و صورت کے اور بھی پرندے موجود ہیں لیکن وہ بلند صفات جو شاہین میں موجود ہیں اس کے تشخص کا موجب بنتی ہیں اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے اندر مثبت اور اعلٰی صفات پیدا کر لے تو وہ شخصیت کا روپ دھار لیتا ہے اور اگر منزل انسانیت سے گر جائے تو اسفل السافلین میں اس کا شمار ہو نے لگتا ہے۔ یہی مثبت اور منفی اقدار بلندی اور پستی کا تعین کرتی ہیں۔ اقبالؒ نے کرگس اور شاہین کی متفاوت خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے کرگس مردہ پرندے کھاتے ہیں۔ مردہ خوری اس کی فطرت کا حصہ ہے جبکہ شاہین تازہ شکار کا اشتیاق لئے فضا میں محو پرواز رہتا ہے۔ شاہین کسی کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ اسی تفاوت کی بنا پر دونوں کا جہان اور مقام بھی متفاوت ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں اور

کرگس اور شاہین کا مقائسہ کر کے اقبالؒ ایک مومن جوان کی صفت حلال خوری کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مومن کی رگوں میں حرام غذا سے ناپاک خون جاری نہیں ہوتا کیوں کہ ناپاک غذا پرواز ملکوتی میں رکاوٹ بنتی ہے
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی


جن قوموں کی غذا خالص اور حلال ہو وہ قومیں زندہ اور باغیرت ہوتی ہیں۔ پیغمبر اکرم ﷺنے بھی رزق حلال کو حق گوئی اور نجابت و جرائت کی علت قرار دیا ہے۔ شاہین چونکہ مردار کھانے سے نا آشنا ہوتا ہے لہذٰا اس کی جرات اور غیرت اسے ہر دم تخلیق و عمل اور جدت و جستجو سے نوازتی ہے۔
طرح نو افگن کہ ماجدت پسند افتادہ ایم
این چہ حیرت خانہ ا مروز فردا داشتی

امت مسلمہ کے جوان کو دنیا میں سروری حاصل کرنے کی طرف راغب کرتے ہوئے اس کے حصول کا گر اور طریقہ بتاتے ہیں برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیدا کر یہاں فقط سر شاہین کے واسطے ہے کلاہ
اے ایسی امت کے جوان کہ جس نے سب امتوں پر حکومت کرنی ہے آج اگر تو اپنے آپ کو برھنہ سر دیکھ رہا ہے اور تیرے سر پر کوئی تاج یا عظمت و افتخار کی کوئی دستار نہیں ہے تو اس کے حصول کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ عزم بلند پیدا کر کیونکہ اس دنیا میں فقط شاہین، جو کہ بلند ہمت اور اعلٰی عزم کا مالک پرندہ ہے، کے لئے تاج بنایا گیا ہے یعنی اگر چاہتے ہو کہ دنیا میں سرداری و سروری حاصل کرو تو بلند ہمت اور مصمم عزم کی ضرورت ہے۔ پست ہمت اور کوتاہ فکر ہمیشہ عزت و افتخار کے تاج سے محروم اور برہنہ سر ہی رہیں گے۔

علامہ اقبالؒ امت مسلمہ کے جوان کو اسکا ماضی یاد دلاتے ہوئے اس کی عظمت کو بیان کر رہے ہیں اور اسے یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اب بھی اس دنیا پر غلبہ آپ کا ہو سکتا ہے۔
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا

تعلیم و تربیت کا حقیقی فلسفہ انسان کے اندر خلیفہ الہٰی کی تمام صفات اجاگر کرنا اور زمین پر اللہ کی صفات اور اسماء حسنٰی کا مظہر بننے کی پوشیدہ صلاحیتوں کو میدان عمل میں لانا اور عالم ملک سے آزاد کر کے عالم ملکوت تک کی پروازی کے قابل بنانا ہے۔
جبکہ رسول اکرم ﷺ نے جوانوں کو تربیت کا مرکز قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ احسن سلوک کرنے کی نصیحت فرمائی، قال رسول اللهﷺ اوصيکم بالشبان خيراً فانهم ارق افئدة، ان الله بعثني بشيراً و نذيراً فحالفني الشبان و خالفني الشيوخ "میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ جوانوں کے ساتھ احسن سلوک کرو کیوں کہ ان کا دل نسبتاً نرم ہوتا ہے جب اللہ تعالٰی نے مجھے بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرمایا ہے تو جوانوں نے میری مدد کی جبکہ بوڑھوں نے میری مخالفت کی۔"

پیغمبر گرامی ﷺ نے مصلحین معاشرہ کو نصیحت فرمائی ہے کہ آپ کی تربیتی اور تعلیمی سرگرمیوں کا محور اور ہدف نسل جوان ہونی چاہیئے، کیوں کہ دین مقدس اسلام ملکوتی قوانین اور معارف کا مجموعہ ہے ان معارف متعالیہ کو حقیقی معنوں میں درک کرنے کی صلاحیت آمادہ اور نرم قلوب ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ جوانوں نے ابھی اپنے قلوب کو دنیا کی پستیوں میں الجھایا نہیں ہوتا، ان کے دل دنیا کی اندھی محبت کی بدولت زنگ آلود نہیں ہوتے، گذشتہ خطاؤں کو قبول کر کے ان کا ازالہ و جبران کی فرصت و صلاحیت سے مستفید ہونے کے لیے پرامید ہوتے ہیں اور اپنی روش کو تبدیل کرنے کی ہمت اور قوت سے سرشار ہوتے ہیں جس کے سبب ان میں حقیقت کو قبول کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ موجود ہوتی ہے۔
جوانی میں قلب انسانی کئی رذالتوں سے پاک ہوتا ہے۔ علم جو کہ ایک نور ہے زندگی کےاس مرحلے میں انسانی قلوب کو منور کرنے میں نسبتاً زیادہ کار آمد ثابت ہو سکتا ہے بالکل اس تلوار کی مانند جو ابھی زنگ آلود نہ ہوئی ہو اس کو صیقل کرنا کہیں آسان اور مفید ہوتا ہے بنسبت اس تلوار کے کہ جو معاشرے کی کثافتوں کی بدولت زنگ آلود ہو چکی ہو۔ پس علم کے حصول کا بہترین موقع جوانی ہے۔ جوانی میں دل ایک زرخیز زمیں کی مانند ہوتا ہے،کہ جس میں جو کچھ بو دیا جائے پیدا ہو جاتا ہے۔ اور کم محنت سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اگر جوانی میں آسمان علم کے زینوں کو طے نہ کیا جائے تو زندگی کے پر پیچ راستوں کو طے کرنے میں دشواری پیش آتی ہے لیکن اقبالؒؒ کی نگاہ میں مغربی نظام تعلیم نے تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی ہے وہ خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا ہیں اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہو وہ رہنمائی نہیں کر سکتا ہے۔
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا


یہ مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گفتار اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے اور مغرب کے جھوٹے معیار، نظریات اور اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیرہ کر دیتی ہے اس طرح وہ اپنی فطری حریت، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مغرب کی اندھی تقلید کی کوشش میں خرابیوں کو اپنا کر خوبیوں کو ترک کر دیتے ہیں۔ مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب العین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو مادیت کا اسیر اور شکم کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے اس طر ح اعلٰی مقاصد سے وہ عاری ہو جاتے ہیں۔
فیض فطرت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش


امت مسلمہ وہ امت ہے جس کے پاس پوری دنیا پر حکومت کرنے کا نظریہ موجود ہے اور اللہ کا وعدہ ہے کہ اللہ دین اسلام کو غالب ٹھہرائے گا اب اس ملت کی باگ ڈور اس کے جوانوں کے ہاتھ میں ہے جن کو ہمیشہ بلند پرواز رہنا چاہیئے اور بلند پرواز کے ذریعے ہی مسلمان کمال، سعادت، عزت اور غلبہ کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں طاغوتی طاقتیں کبھی بھی اس پرواز کو برداشت نہیں کر پائیں گی اور راستے میں روڑے اٹکائیں گی لیکن دشمن کی طرف سے استعمال ہونے والی سازشوں کو فرصتوں میں تبدیل کر کے آگے بڑھنا ہی آگاہ اور غیرتمند جوان کا کام ہے۔ اس پرواز سے اگرچہ زمانہ جلتا رہے مسلم جوانوں کو چاہیئے کہ اپنی اس پرواز کو مزید بلندیوں کی طرف لے جائیں تاکہ جلنے والے کی آگ میں مزید اضافہ ہو۔
شاہین تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ
تو اور بھی اس آگ کو بازو سے ہوا دے


مومن کی شان یہ ہے کہ اپنی ذمہ داری کی انجام دہی کی فکر میں ہوتا ہے۔ نتیجہ کو خدا کی ذات پر چھوڑ دیتا ہے چونکہ انسان اللہ کا نمائندہ ہے اور اس کا ہدف اس کمال مطلق تک رسائی ہے اس بے انتہا ہستی کا قرب بھی انسان کے افق کو بےانتہا کر دیتا ہے۔ پس انسان کے سامنے ایک بلند ہدف ہے اسے صرف اسی کو سامنے رکھ کر پرواز کرنی چاہیئے۔ کسی منزل پر رک نہیں جانا چاہیئے بلکہ مسلسل محو پرواز رہنا چاہیئے۔ اقبالؒ ایک مومن جوان کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں،
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں

جی ہاں! اقبالؒ کا جوان تو نام ہے اس ذوقِ یقیں کا، جو پیدا ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں کٹ جایا کرتی ہیں۔ اقبالؒ کا جوان تو نام ہے اس سوچ کا، جو آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات بخشتی ہے۔ اقبالؒ کا جوان تو نام ہے اس تصور کا، جو نوجواں کو اتنا عظیم کرتی ہے کہ منزل خود انہیں پکارا کرتی ہے۔ اقبالؒ کا جوان تو نام ہے اس جذبے کا کہ جہاں صلہءِ شہید، تب و تابِ جاودانہ ہوا کرتا ہے۔ اقبالؒ کا جوان تو نام ہے اس اڑان کا، جہاں عشق کی ایک جست سبھی قصے تمام کرتی ہے۔ اقبالؒ کا جوان۔۔۔جو خاکی تو ہے ’’خاک سے پیوند نہیں رکھتا‘‘۔ جو ’’زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا‘‘ اور جو رہے ۔۔۔۔آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش ‘‘ اور۔۔۔’’ جہاں ہے جس کے لئے وہ نہیں جہاں کے لئے‘‘ اور اقبالؒ کا جوان تو نام ہے اس قوت کا نام ہے:
دو نیم جس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ جس کی ہیبت سے رائی
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الٰہی


مانا کہ مصائب کڑے ہیں، اسباب و وسائل تھوڑے ہیں، ترقی کی رفتار کم ہے، یہاں بھوک بھی ہے اور افلاس بھی، یہاں بم بھی پھٹتے ہیں اور خودکش حملے بھی لیکن
آئینِ جواں مردی حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

مرد حالات کے تھپیڑوں سے ڈر کر چوڑیاں نہیں پہن لیتے۔ کوشش و تلاش سے گھبرا کر مردار نہیں کھاتے کہ ’’شاہین کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔۔۔۔سر چھپانے کے لیے اپنا منہ مٹی میں نہیں ٹھونستے کہ ’’شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی‘‘ دوسروں کے سر سے تاج نہیں اتارتے کہ ’’شاہین حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہوتا‘‘۔جی ہاں اقبالؒ کا شاہین تو وہ ہے جو جھپٹنے اور پلٹنے کا گُر جانتا ہو، جو جینے کیلئے مرنے کا ہنر جانتا ہو۔
یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہی مردوں کی شمشیریں

ہم آج بھی زندہ قوم بن سکتے ہیں، اگر ہماری سوچ زندہ اور آزادہو جائے اور جس کی سوچ زندہ ہو، وہی اقبالؒ کاشاہین ہے ،اور میرے دیس کا ہر نوجوان اقبالؒ کا شاہین بن سکتا ہے۔اور میرا ایمان ہے کہ
ہمارا قافلہ جب عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

خبر کا کوڈ : 418591
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش