0
Wednesday 24 Sep 2014 23:43

بلوچستان، صحافی دہشتگردوں کے نشانے پر

بلوچستان، صحافی دہشتگردوں کے نشانے پر
رپورٹ: این ایچ جعفری

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ریاست اور بلوچ قبائل کے درمیان شورش، مذہب کے نام پر فرقہ وارانہ دہشتگردی اور سکیورٹی فورسز پر حملوں‌ کے بعد اب صحافیوں پر بڑھتے پرتشدد واقعات نے صوبے کی پیچیدہ حالت کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں میں رہنے والے لوگ شاید کم ہی اس پسماندہ صوبے کے حالات کے بارے میں صحیح طور پر واقفیت رکھتے ہوں، لیکن یہاں رہنے والے اپنے روزمرہ کی مشکلات و چیلنجز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہر مکتب فکر اور پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ سرکار کی رہائشگاہوں اور دفاتر پر کڑے پہرے موجود ہیں۔ اہل قلم کے بازو کاٹے جا رہے ہیں، لب یا تو سیے جاتے ہیں یا پھر زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ خاموش رہنے کا حکم دیا جاتا ہے یا پھر رگ جان کاٹ دی جاتی ہے۔ اہل صحافت کو زندگی یا موت میں سے ایک کا انتخاب کرنے کا گویا عملاً حکم دیا جا چکا ہے۔ یقیناً ایسا ہی ایک فرمان ارشاد مستوئی کی حیات کے بارے میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ارشاد مستوئی کی زندگی کا قصہ نادیدہ افراد نے 28 اگست کی شام کو تمام کردیا۔ اہل صحبت نے پھر جنازے اٹھائے، پھر بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں۔ پریس کلبوں پر سیاہ جھنڈیاں لہرائیں۔ اس احتجاج سے ان کا کچھ بننے والا نہیں، ہوگا وہی جو نادیدہ ہاتھ چاہیں گے۔ ارشاد مستوئی اور ان کے دو ساتھیوں کے قتل کے بعد صحافیوں کے قتل کی فہرست نے چالیس کا ہندسہ سر کرلیا۔ تعجب اور افسوس اس بات پر ہے کہ اب تک نہ کوئی ملوث کارندہ پولیس یا کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی گرفت میں آیا ہے اور نہ ہی وجوہات، محرکات و اسباب معلوم کرنے کی خاطر جوڈیشل کمیشن قائم کیا جاسکا ہے۔ جس کا وعدہ حکومت پچھلے سال کرچکی ہے۔ اس بار تو اپنی نوعیت کے لحاظ سے واردات الگ طریقے سے کی گئی۔ یعنی سفاک قاتلوں نے دفتر میں گھس کر خون ناحق بہایا۔

ارشاد مستوئی آن لائن نیوز ایجنسی کے بیورو چیف اور فعال صحافی و رپورٹر تھے۔ بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ نجی نیوز چینل اے آر وائی کے ساتھ بھی بطور اسائمنٹ ایڈیٹر وابستہ تھے تاہم قتل کا لرزہ خیز سانحہ آن لائن کے آفس میں پیش آیا۔ یہ خونی کھیل کبیر بلڈنگ کی دوسری منزل میں کھیلا گیا۔ اس بلڈنگ کے مذکورہ پورشن میں اخبارات، خبر رساں اداروں، ٹی وی چینل اور غیر ملکی نشریاتی ادارے (وائس آف امریکہ) کا دفتر بھی ہے۔ عمارت کے دیگر حصوں میں بھی میڈیا کے دفاتر ہیں۔ قاتل ارشاد مستوئی کو ہی مارنا چاہتے تھے، شناخت کی خوف سے دیگر دو افراد کو بھی نشانہ بنایا۔ سوال یہ ہے کہ ارشاد مستوئی کو دفتر کے اندر کیوں قتل کیا گیا۔؟ وہ اس لئے کہ قاتلوں کے اس نادیدہ گروہ یا طاقت نے تمام صحافیوں کو واضح پیغام دیدیا کہ وہ اپنے اپنے دفتروں میں بھی ان کی خونی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ وگرنہ ارشاد مستوئی جان محمد روڈ پر کرائے کے مکان میں اپنی اہلیہ، دو کمسن بیٹیوں اور ایک چھ ماہ کے بیٹے کے ساتھ رہائش پذیر تھے اور وہ معمول کے مطابق رات بارہ بجے کے بعد گھر پیدل جاتے تھے۔ دفتر سے گھر تک کسی بھی جگہ آسانی سے ٹارگٹ کیا جا سکتا تھا۔ بلوچستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے واقعہ کی مذمت کی۔ بلوچستان اسمبلی میں تیس اگست کے اجلاس میں مذمتی قراردا د منظور کرلی گئی۔

صحافتی تنظیموں کا مطالبہ میڈیا کے دفاتر کی سکیورٹی کے علاوہ متاثرہ خاندانوں کی مالی امداد اور بطور خاص جوڈیشل کمیشن کا جلد سے جلد قیام ہے۔ ارشاد مستوئی اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی تحقیقات اعلٰی سطح پر ہو رہی ہیں۔ امید ہے کہ ملزمان بےنقاب ہوں گے اور ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالا جائیگا۔ یہاں قاتل ٹولے سے سوال ہے کہ کیا ارشاد مستوئی کا جرم اتنا سنگین اور ناقابل رعایت تھا کہ اس سے زندگی کا حق چھین لیا گیا؟۔ یہاں سوال میڈیا کے دوستوں سے بھی ہے کہ کیا وہ اپنے رویوں اور طرز عمل میں تبدیلی لا سکتے ہیں، کہ وہ صحافت کے پیشے سے اتنا ہی انصاف کریں، جتناکہ اس کا حق ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ افراد نہ صرف ایک دوسرے کے پاؤں کھینچنے پر تلے ہوئے ہیں بلکہ زندگیوں کے درپے ہیں۔ غرض اب امتحان ہے حکومت کا، جس کا یہ دعویٰ ہے کہ حکومت اور تمام ادارے ایک صف پر ہیں جبکہ صحافی تنظیمیں بھی اسی انتظار میں ہیں کہ جب اس قتل ناحق میں ملوث نادیدہ ہاتھ بےنقاب ہوں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 411499
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش