0
Friday 24 Jan 2014 17:51

کیا ورلڈ آرڈر تبدیل ہو رہا ہے؟

کیا ورلڈ آرڈر تبدیل ہو رہا ہے؟
تحریر: ثاقب اکبر

دنیا کے بہت سے مفکرین اس نقطے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ورلڈ آرڈر تبدیل ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں عالمی مدبرین اور مفکرین کی آراء میں چند نکات مشترک ہیں اور چند نکات مختلف۔ لیکن اس میں زیادہ تر اہل فکر و تدبر کا اتفاق ہے کہ تبدیلی درِعالم پر دستک دے رہی ہے۔ ہماری رائے بھی یہی ہے کہ دنیا تبدیل ہونے کو جا رہی ہے۔ شاید بعض لوگوں کے نزدیک یہ کوئی عجیب بات بھی نہ ہو، کیونکہ شاید ہی کوئی اس حقیقت کا انکار کرنے والا ہو کہ 
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
یعنی تبدیلی اور تغیر ہی کو دوام و ثبات حاصل ہے ورنہ ہر چیز متغیر ہے۔
 
تاہم اس تبدیلی کی رفتار کیا ہے اور اس کی سمت کیا ہے، یہ اس موضوع کا مشکل ترین سوال ہے۔ اس کی وجہ تبدیلی میں کارفرما عناصر کے بارے میں مفکرین کی رائے کا مختلف ہونا ہے یا پھر ان کے احاطۂ تخیل کا اختلاف ہے۔ دنیا کی مقتدر قوتیں بھی اس امر کی طرف متوجہ ہیں، لیکن طاقت اور اقتدار کی تاثیر کچھ ایسی ہے کہ جو کم ہی تبدیلیوں کو جذب کرنے یا ان کے رخ میں صحیح فیصلہ کرنے کی اجازت دے سکے۔ اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جن کے ہاتھ میں آج دنیا کی باگ ڈور ہے، وہ یہ نہیں چاہ سکتے کہ آنے والی تبدیلیاں ان سے یہ اختیار واپس لینے کا باعث بن جائیں۔ لہٰذا رضاکارانہ طور پر تغیرات کے تقاضوں کو قبول کرنے کے بجائے وہ ان کا رخ موڑنے یا راستہ روکنے کی غلطی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ غلطی پر غلطی کرتے ہیں جو تبدیلیوں کو اور تیز رفتار کرنے کا باعث بن جاتی ہے۔

آیئے ذرا ان عناصر پر نظر ڈالتے ہیں جو موجودہ ورلڈ آرڈر کو تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں:
1۔ عالمی اداروں خصوصاً اقوام متحدہ پر اقوام کا اعتماد خاصا متزلزل ہوچکا ہے۔ اول تو اسے بڑی طاقتوں خاص طور پر امریکہ کی لونڈی سمجھا جانے لگا ہے، جو دنیا کے تزویراتی اور سیاسی معاملات میں امریکی مفادات کی آلۂ کار بن کررہ گئی ہے اور اگر وہ کسی بات پر ایسا نہ کرسکے تو اس کے غیر موثر ہونے کا تماشا پوری دنیا دیکھتی ہے۔ عالمی توانائی ایجنسی جو اقوام متحدہ ہی کا ایک ادارہ ہے، اس کا جانبدارانہ کردار بھی نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ فوری طور پر تو نہیں کسی تیز رفتار تبدیلی کی صورت میں اقوام متحدہ اپنی موجودہ ساکھ اور حیثیت سے محروم ہوسکتی ہے، یا اس کی ساکھ کو ایک بڑا دھچکا پہنچ سکتا ہے۔

 2۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکی قیادت میں جو یک قطبی دنیا کا تصور ابھرا تھا، رفتہ رفتہ کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ بعض مسائل میں دنیا سرے سے لاقطبی دکھائی دیتی ہے اور بعض حوالوں سے نئے قطب ظہور کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض ممالک جو ایک دور میں امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے اور شاید ان میں سے بعض آج بھی کندھا ملائے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن کچھ دن کی بات ہے کہ وہ واضح طور پر الگ دکھائی دینے لگیں گے۔ اس سلسلے میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت جو اب امریکی اقتصادی طاقت کو چیلنج کرنے لگی ہے، مستقبل قریب میں ایک حقیقی چیلنج بن سکتی ہے۔ کئی یورپی ممالک اب امریکی پالیسیوں سے اپنے آپ کو فاصلے پر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔
 
عراق پر امریکی حملے کے موقع پر امریکہ کو فرانس اور جرمنی کی جس انداز کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا وہ کوئی زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ افغانستان میں نیٹو فورسز کے واضح طور پر دو گروپ دکھائی دیتے تھے، ان میں سے ایک گروپ جنگ کے میدانوں میں فعال رہنے کے بجائے دور دور رہنا پسند کرتا رہا۔ شام کے مسئلے پر بھی حال ہی میں امریکہ کو یورپی ممالک کی ویسی حمایت میسر نہیں آسکی اور اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یورپ نے اس مسئلے میں غیر فوجی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خود امریکہ کو بھی یہی فیصلہ کرنا پڑا ہے، شاید عالم مغرب مستقبل میں مشترکہ طور پر کوئی نئی بڑی فوجی مہم جوئی کا ارادہ نہیں رکھتا۔ 

3۔ فوجی مہم جوئی کے تلخ تجربات کے کئی پہلو ہیں، لیکن مغرب میں گذشتہ چند برسوں میں مختلف اہم ممالک کو کساد بازاری اور اقتصادی دیوالیہ پن کے جو اندیشے لاحق رہے، وہ بھی اب اسے نئی فوجی مہم جوئی سے باز رکھنے میں موثر ہیں، لیکن اس سلسلے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا مغربی دنیا ان وجوہات کا ازالہ کرنے کا راستہ اختیار کرے گی، جو اس کی اقتصادی مشکلات کا باعث ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم تشکیل دینے والی طاقتیں دنیا کے اقتصادی نظام کی خرابیوں کا سنجیدگی سے سامنا کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتیں۔

 4۔ اس سلسلے میں ہماری چوتھی بات سطور بالا میں بیان کی گئی باتوں سے الگ نہیں بلکہ ان کے تسلسل میں ہے اور وہ یہ کہ دنیا پر حکم فرما سرمایہ داری نظام کی خرابیاں آج دنیا کا عام انسان زیادہ شدت سے محسوس کرنے لگا ہے، آج دنیا کی بہت بڑی آبادی یہ بات جانتی ہے کہ دنیا کا نصف سرمایہ فقط پچاسی خاندانوں یا افراد کے ہاتھ میں ہے۔ کچھ ہی عرصہ پہلے امریکہ میں اٹھنے والی وال اسٹریٹ قبضہ تحریک نے دنیا کی بڑی آبادی کو اس امر کی طرف موثر طور پر متوجہ کیا کہ 99 فیصد امریکی دولت ایک فیصد امریکیوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی صورت حال کم و بیش دیگر ممالک میں بھی درپیش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کی آواز سے آواز ملانے کے لیے ایک ہی دن میں دنیا کے تمام براعظموں میں تقریباً آٹھ سو شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ اس سے موجودہ اقتصادی نظام کے خلاف منظم ہوتی ہوئی عالمی آواز کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جب بھی عالمی اقتصادی فورم کا اجلاس ہوتا ہے تو اجلاس کے باہر انہی باشعور غریب عوام کی آواز بلند کرنے کے لیے ایک گروہ مظاہرے کر رہا ہوتا ہے۔ 

5۔ دنیا میں عالمی کردار ادا کرنے اور بڑی طاقت بننے کا ارمان رکھنے والے نئے مراکز پیدا ہو رہے ہیں۔ جرمنی کی خواہش ہے کہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور حاصل ہو۔ یہی خواہش بھارت کے سینے میں بھی مچل رہی ہے۔ روس بھی پھر سے نیا عالمی کردار ادا کرنے کے لیے میدان میں اتر چکا ہے۔ ایران بھی اپنا ایک ورلڈ ویو رکھ کر آگے کی طرف بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے حلقۂ اثر کو فروغ دے رہا ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے ترکی بھی عثمانی خلافت کی یادوں کو زندہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سعودی عرب دنیا کے مختلف ممالک میں جس انداز سے اپنے گھوڑوں اور پیادوں کو آگے بڑھا رہا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ایک بڑا اور مستقل حلقۂ اثر پیدا کرنے کا خواہاں ہے۔ ان میں سے ایک یا ایک سے زیادہ مراکز کو نسبتاً زیادہ طاقت حاصل ہوگئی تو یقینی طور پر مستقبل کا ورلڈ آرڈر نئی شکل اختیار کرے گا۔
 (جاری ہے)

خبر کا کوڈ : 344521
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش