0
Friday 4 Nov 2011 21:37

یہ عید تو بالکل اچھی نہیں ہے اور میں نے گوشت بھی نہیں کھایا

یہ عید تو بالکل اچھی نہیں ہے اور میں نے گوشت بھی نہیں کھایا
تحریر:سید مظاہر حُسین فخری  
عید! عید ویسے تو نام ہے خوشی کا، یہ دن ہے اپنوں سے ملنے کا، ایسی خوشی کا نام ہے کہ جس کے آنے کے لئے چھوٹے، بڑے، بوڑھے اور جوان سب منتظر رہتے ہیں اور جب عید قریب آ جاتی ہے تو سب اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اور مختلف سپنے دیکھنے لگتے ہیں۔ خاص کر بچے
اِس میں سب سے آگے آگے ہو تے ہیں۔
عید تو عید ہے مگر!!!!!!!!!
بکرا عید کی بات ہی کچھ اور ہے، اور میرے خیال میں دوسرے عیدوں کی نسبت بکرا عید کچھ زیادہ ہی مزیدار اور پرُ رونق ہوتی ہے۔ اُس کی وجہ آپ سب بہتر جانتے ہیں ۔۔۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی بکرا عید قریب ہے اور لوگ منتظر ہیں اُس دن کیلئے کہ جس دن لوگ قربانی کر کے اللہ کے حضور سرخرو ہونے کی کوشش کر تے ہیں۔
 
مگر افسوس !!!! کہ ایک طرف تو عید اپنے ساتھ خوشیاں لاتی ہے ۔۔۔ مگر دوسری طرف؟؟؟؟
ایک طرف مائیں اپنے جگر گوشوں کو تیار کرکے بوسے لے لے کر نمازِ عید اور رشتہ داروں کے ہاں بھیجوا رہی ہیں۔ مگر دوسری طرف مائیں اپنے جوان بیٹوں کے غم میں آنسو بہا رہی ہیں۔ ایک طرف باپ بیٹے کو عیدی دے کر پیار کر رہا ہے مگر دوسری طرف بیٹے اپنے باپ کی محبت کے لئے ترس رہے
ہیں۔ ایک طرف وہ بہنیں ہیں جو کہ اپنے بھائیوں کے صدقے اُتار رہی ہیں کہ کہیں نظر نہ لگ جائے مگر دوسری طرف وہ ہیں جو کہ اپنے بھائیوں کے غم میں نوحہ کناں ہیں۔ ایک طرف وہ بہنیں ہیں کہ جن کے بھائی اُن سے ملنے کے لئے اُن کے گھر آ رہے ہیں۔ مگر دوسری طرف وہ بہنیں ہیں کہ جو حسرت سے دروازے کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ اُن کا بھائی اُن سے ملنے کیلئے آئے گا۔ حالانکہ اُنہیں پتہ ہوتا ہے کہ ظالموں کے ہاتھوں اُن کا پیارا مالکِ حقیقی سے جا ملا ہے، اور پھر کھبی واپس نہیں آئیگا۔ 
مگر ایک طرف ایسے بھی لوگ ہیں کہ پچھلی کئی عیدوں کیطرح یہ عید بھی اُنکی گھر سے باہر ہے اور اپنے پیاروں کی دید و محبت سے محروم ہیں۔

میرا تعلق پاراچنار کے ایک چھوٹے سے گاؤں ’’ابراہیم زئی‘‘ سے ہے۔ آخری جنگ جو بالش خیل کے مقام پر یزیدیوں کے خلاف لڑی گئی۔ اُس میں میرا مامو زاد بھائی سید مجاہد حسین فخری بھی شہید ہوا تھا۔ اُس کی شہادت کے کچھ دن بعد اُس کی ماں سے فون پر میری بات ہو گئی۔ مجھ میں ہمت نہ تھی کہ شہید کی ماں سے بات کر سکوں، مگر دل ہی دل میں میں نے مولا مشکل کشا کو پکارا کہ میری مدد کریں۔ میں نے شہید کی ماں کو تعزیت پیش کی اور ساتھ میں مبارک بھی۔
 
چونکہ شہید میرا ہم عمر اور بہت اچھا دوست تھا اسلئے مجھ سے رہا نہ گیا اور میں رونے لگا۔ تو اُس پر شہید کی ماں نے کہا کہ بیٹا تُو کیوں رو رہا ہے۔ میرا بیٹا عظیم مقصد کیلئے قربان ہوا ہے، اُس نے اپنی دھرتی، اپنے مذہب، ماؤں اور بہنوں کی عزت کی بقاء کیلئے اپنا لہو بہایا ہے۔ میرا بیٹا یزیدانِ وقت (طالبان) کیخلاف حسینی سپاہی بن کر لڑا ہے اور اِس نے سید الشہداء کی آواز پر لبیک کہا ہے کہ جو آواز سید الشہداء نے کربلا کے میدان میں بلند کی تھی۔ میں بالکل مطمئن ہوں اور خدا کا شکر ادا کر رہی ہوں کہ لشکرِ حسینی میں مجھ جیسی حقیر کے بیٹے کا بھی نام آ گیا۔ اور میں روز قیامت
جنابِ سیدہ س کے سامنے سرخرو ہونگی اور اُن سے شکایت کروں گی کہ ائے بنتِ محمد ص
ہمارا تو اور کوئی قصور نہ تھا مگر یہ کہ ہم آپ کے محب تھے اور آپ ہی کے نام پر ہمارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ 
شہید کی ماں کے یہ الفاظ سُن کر میں زار و قطار رونے لگا۔ اُس وقت چونکہ عید الفطر قریب تھی تو شہید کی ماں نے کہا کہ کوئی دُکھ نہیں، مگر میرے شہید بیٹے کا رزلٹ آ گیا ہے جو اُس نے Teaching کے لئے ٹسٹ دیا تھا وہ پاس ہو چکا ہے اور اُس کی Selection ہو گئی ہے جس پر اُس
کا ابو بہت رو رہا ہے۔ کہا کہ بیٹا! آپ اُسے فون کر کے تسلی دے دینا اور ایک یہ کہ اُس کی چھوٹی بہن کہ جس کے ساتھ شھید نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اِس عید پر ایک خوبصورت ہار لے کر اپنی چھوٹی بہن کو دے گا، مگر افسوس کہ وہ عید سے پہلے ہی ہمیں چھوڑ کر گیا۔ 

میں یہ ساری کہانی اس آخری بات کے لئے لکھ رہا ہوں چونکہ عید کی بات ہو رہی تھی، تو مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک عید پر میں پشاور میں تھا اور اپنے گھر نہ جا سکا۔ اُس وقت چونکہ موبائل نیٹ ورک کام کر رہا تھا اور تو میں نے اپنے گھر فون کیا۔ تمام گھر والوں سے بات ہوئی، مگر میری ایک چار سالہ چچا زاد بہن سے جب بات ہو رہی تھی تو میں نے پوچھا "آپ کیسی ہو اور عید کیسی ہے؟ تو اُس نے بڑے معصومیت سے کہا ’’انکل یہ عید تو بالکل اچھی نہیں اور میں نے گوشت بھی نہیں کھایا۔ میں نے پوچھا کیوں؟ اُس نے کہا انکل تمھیں پتہ نہیں کہ ہمارے راستے بند ہیں اور پاراچنار میں چکن دستیاب نہیں ہے۔ میں اُن طالبان کو بہت بددُعائیں دوں گی۔‘‘
 
اُس کے معصومانہ الفاظ سن کر میری حالت بدل گئی اور میں سوچوں میں گم ہو گیا کہ کتنے ہی ایسے بچے ہونگے کہ جن کے سپنے ٹوٹ گئے ہونگے، کتنے بچے ہونگے جو یتیم ہو گئے ہونگے، کتنی مائیں ہونگی جن کے جگر گوشے زیرِ زمین سو رہے ہونگے، کتنی بہنیں ہونگی کہ جو آج بھی اپنے بھائیوں کے دیدار کے انتظار میں بیٹھی ہونگی۔
افسوس! یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہم بیدار نہیں ہو رہے اور اتفاق و اتحاد سے نہیں رہ رہے اور ہر کوئی اپنی دنیا میں گم ہے اور دوسروں کا بالکل خیال ہی نہیں آخر کیوں! آخر کب ہم بیدار ہونگے اور کب متحد ہونگے۔۔۔کب؟ خدارا سوچئے اور بیدار ہو جائیے۔
خبر کا کوڈ : 111661
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش