1
0
Wednesday 22 May 2024 15:31

سفارتکاری کے میدان کا حاج قاسم

سفارتکاری کے میدان کا حاج قاسم
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

شہید "حسین امیر عبداللہیان" کا نام پہلی بار اس وقت میرے سامنے آیا، جب میں نے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بارے میں ان کا ایک مختصر آرٹیکل ایک اخبار میں پڑھا۔ مضمون کے مطالعہ کے بعد جو بات میرے ذہن میں آئی، وہ یہ تھی کہ مضمون نگار نے صحافتی نام استعمال کیا ہے اور اس کا حقیقی نام کچھ اور ہے، کیونکہ مضموں کے آخر میں صرف امیر عبداللہیان لکھا ہوا تھا اور اس وقت میرے لئے یہ نام غیر معروف تھا۔ میں نے اس آرٹیکل کا کچھ ایرانی جاننے والوں سے ذکر کیا تو کہیں سے تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ یہ مضمون غالباً 1999ء یا 2000ء میں ایک ایرانی اخبار میں شائع ہوا تھا۔ میڈیا سے تعلق کی وجہ سے مجھے کئی بار شہید "حسین امیر عبداللہیان" کو قریب سے سننے کا موقع ملا۔ یمن پر سعودی حملے کی بعد میں نے ان سے کافی استفادہ کیا اور ان کے انٹرویوز کا حوالہ دیکر میں تجزیئے لکھتا اور ریڈیو، ٹی وی پر تبصرے کرتا رہا ہوں۔

مشرق وسطیٰ کی سیاست کے بارے میں جتنا واضح اور شفاف ان کا تجزیہ ہوتا، شاید ہی کوئی اور کرتا ہو۔ شہید "حسین امیر عبداللہیان" جب وزیر خارجہ بنے تو اس کے بعد بھی چند ایک محافل میں ان کو قریب سے سننے کا موقع ملا۔ ایک بار شہید حاج قاسم کی برسی کے موقع پر وہ غیر ملکی مہمانوں کے انکلوژر میں میری ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گئے۔ جب تک اسٹیج سے کافی اصرار نہیں کیا گیا، وہ میرے قریب بیٹھے رہے۔ اس موقع پر میں نے ایک کوشش کی کہ ان سے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بارے لکھے گئے ان کے آرٹیکل کے بارے میں سوال کروں، لیکن ساتھ بیٹھے ایک اور غیر ملکی مہمان نے انہیں کسی اور مسئلے میں الجھا دیا اور یوں میرے ذہن میں ایک بار پھر یہ سوال تشنہ رہ گیا۔

شہادت سے دو دن پہلے حسین امیر عبداللہیان ایران میں منعقدہ بین الاقوامی کتب میلے میں تشریف لائے، جہاں انہوں نے نمائش گاہ میں موجود پاکستانی اسٹال کا بھی دورہ کیا۔ اس اسٹال پر شہید ڈاکٹر کے بارے میں نئی شائع شدہ کتاب "مون سون" پڑی ہوئی تھی۔ شہید حسین امیر عبداللہیان نے ٹائیٹل پر موجود شہید ڈاکٹر نقوی کی تصویر دیکھ کہ اسٹال پر موجود افراد کو مخاطب کرکے کہا شہید ڈاکٹر نقوی میرے دوست تھے۔ شہید "حسین امیر عبداللہیان کے اس اعتراف کے بعد مجھے 24 سالہ پرانا جواب مل گیا۔ میں نے ارادہ کیا کہ شہید کے بارے شائع شدہ دیگر کتب بھی جلد ان تک پہنچا دوں گا، لیکن کسے خبر تھی کہ شہید "حسین امیر عبداللہیان" اتنے جلدی اپنے دوست شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے جاملیں گے۔ شہید "حسین امیر عبداللہیان" شہید "سید ابراہیم رئیسی" کی کابینہ کے واحد رکن ہیں، جو کابینہ کے امور کے بعد شہادت کے راستے میں بھی اپنے صدر کے ساتھ رہے۔





کچھ لوگ شہید حسین امیر عبداللہیان کو "ڈپلومیسی کے میدان کا حاج قاسم" بھی کہتے ہیں۔ شہید حسین امیر عبداللہیان شہید سلیمانی کے بارے میں کہتے تھے کہ "شہید  جنرل کا ہمیشہ ایک ہاتھ ہتھیار پر اور دوسرا ہاتھ قلم پر ہوتا تھا اور وہ اپنے عسکری اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے مذاکراتی صلاحیت کو بھی استعمال کرتے تھے۔" حسین امیر عبداللہیان، 1964ء میں صوبہ سمنان کے شہر دامغان میں پیدا ہوئے، اگرچہ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی اپنے والد کے انتقال کے باعث اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر گھر چلانے کی ذمہ داری لی، لیکن یہ ذمہ داری ان کی تعلیم میں کبھی رکاوٹ نہ بنی اور یوں اس محنتی شخصیت نے اپنے علمی سفر کو کبھی رکنے نہ دیا۔انہوں نے گریجویشن تک تعلیم وزارت خارجہ کی فیکلٹی سے حاصل کی اور ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم تہران یونیورسٹی میں حاصل کی۔ سفارت کاری کے میدان میں انہوں نے ہمیشہ ایک مستعد اور انتھک سفارت کار کے طور پر کام کیا۔
 
شہید سفارتکار کا شاندار سفارتی ریکارڈ
حسین امیر عبداللہیان نے وزارت خارجہ میں، وزارت خارجہ کے خلیج فارس کے سیاسی شعبے کے نائب سربراہ، عراق کے مسئلے پر ایران-عراق-امریکہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن، یورپی ٹرائیکا کے ساتھ ایران کے جوہری مذاکرات کے لیے سیاسی سلامتی کمیٹی کے رکن، وزیر خارجہ کے خصوصی نائب برائے عراقی امور، وزارت خارجہ کے خلیج فارس کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، عراق کے لیے وزارت خارجہ کے خصوصی اسٹاف کے سربراہ، بحرین میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفیر، وزارت خارجہ میں خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے ڈائریکٹر جنرل، وزارت خارجہ کے عرب اور افریقی امور میں ڈپٹی وزیر، پارلیمنٹ کے اسپیکر کے معاون خصوصی، اسلامی کونسل کے بین الاقوامی امور کے ڈائریکٹر جنرل اور شہادت کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز رہے۔

امیر عبداللہیان ایک مصنف اور استاد
حسین امیر عبداللہیان نے ان سالوں کے دوران اپنی بے شمار ذمہ داریوں کے باوجود تالیف اور تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تجربہ کار سفارت کار نے سفارتی کام میں اپنے تجربات کو بروئے کار لاتے ہوئے "صبح شام"، "عظیم مشرق وسطیٰ- امریکی منصوبے کی ناکامی"، " نئے عراق میں امریکہ کی متصادم جمہوریت" اور "امریکہ کی دوہری اسٹریٹجی" جیسی کتابیں تصنیف کیں۔ امیر عبداللہیان نے اس کے علاوہ "بغداد-واشنگٹن سکیورٹی معاہدہ: نئے عراق میں امریکی طرز عمل"، "شام کا بحران اور غیر مستحکم علاقائی سلامتی"، "مشرق وسطیٰ کی ترقی اور بحرین کیس اسٹڈی" جیسے موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھے۔

وہ سنٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز میگزین کے بورڈ کے بانی ممبر، سہ ماہی تہران فارن پالیسی اسٹڈیز کے ایڈیٹوریل بورڈ کے ممبر اور فلسطین اسٹریٹجک میگزین (سہ ماہی) کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنی تحقیقی سرگرمیاں انجام دیتے رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کی بین الاقوامی تعلقات کی فیکلٹی اور تہران یونیورسٹی کی فیکلٹی آف ورلڈ اسٹڈیز میں وزٹنگ پروفیسر اور تہران کی یونیورسٹیوں میں ڈاکٹریٹ اور ماسٹر کے تھیسز کے ایڈوائزر اور نگران استاد بھی رہے ہیں۔۔
 
سفارتکاری کے میدان میں وزیر خارجہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتی نظام کے سربراہ کی حیثیت سے امیر عبداللہیان کو ایران کی گیارہویں پارلیمنٹ کے 270 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا اور انہیں ایران کی سفارت کاری کے میدان میں پہلے شخص یعنی وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ امیر عبداللہیان نے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے، مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرنے اور علاقائی مساوات میں ایک موثر اور خود انحصار کھلاڑی کے طور پر ایران کی پوزیشن کو قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ امیر عبداللہیان کے ریکارڈ میں سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بحال کرنا، اسلامی جمہوریہ کی علاقائی اور بین الاقوامی پوزیشن اور پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا، "شنگھائی" اور "برکس" جیسے اداروں میں ایران کی حیثیت کو تسلیم کروانا وغیرہ شامل ہے۔

شہید امیر عبداللہیان جہادی اور انقلابی قوت کے مالک ایک اعلیٰ سفاتکار تھے، جنہوں نے مزاحمتی محاذ کے اہداف کو آگے بڑھانے میں قابل قدر کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی ان کے لئے خصوصی عقیدت و احترام کے قائل تھے۔ امیر عبد اللہیان اپنے پورے کریئر کے دوران پاسداران انقلاب کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ انہیں پاسداران انقلاب کے شہید جنرل حاج قاسم سلیمانی کا قریبی فرد سمجھا جاتا تھا۔
خبر کا کوڈ : 1136836
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اللہ شہید کے صدقے ایران کو مزید طاقت عطا کرے۔ آمین
ہماری پیشکش