1
Thursday 23 May 2024 15:32

عرب نیٹو کے احیاء کیلئے بلینکن کا منصوبہ

عرب نیٹو کے احیاء کیلئے بلینکن کا منصوبہ
تحریر: علی احمدی
 
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے ایران کے خلاف بیان دیتے ہوئے "وعدہ صادق" آپریشن کو ایران کی جانب سے درپیش خطرات میں اضافہ قرار دیا اور "متحدہ دفاع" کیلئے خلیجی عرب ریاستوں پر امریکہ سے تعاون کرنے پر زور دیا ہے۔ یاد رہے اسلامی جمہوریہ ایران نے 13 اپریل کے دن شام میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیل کے میزائل حملے کے جواب میں کاروائی کرتے ہوئے اسرائیل کے اہم مراکز کو سینکڑوں ڈرون طیاروں اور بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق جب کسی ملک کے سفارتی مرکز کو جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو اسے جائز دفاع کا حق حاصل ہو جاتا ہے اور وہ قانونی طور پر جوابی کاروائی انجام دے سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی شام میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیل کے میزائل حملے کے بعد اپنے اس جائز حق پر زور دیا تھا اور جوابی کاروائی انجام دی تھی۔
 
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے خطے کے ممالک کے درمیان اتحاد اور باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس بات کی جانب اشارہ کیا کہ وہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک سے ایک متحدہ فضائی اور میزائل دفاعی نظام تشکیل دینے اور سمندری سکیورٹی بڑھانے کے بارے میں بات چیت کریں گے۔ اگرچہ انٹونی بلینکن گذشتہ چند ماہ کے دوران سات مرتبہ مغربی ایشیا کا دورہ کر چکے ہیں لیکن ان کا حالیہ دورہ ریاض اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ وہ وعدہ صادق آپریشن انجام پانے کے بعد ان کا مغربی ایشیا کے کسی ملک کا پہلا دورہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے کا مقصد ڈیوس اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ انہوں نے اسی طرح ریاض میں منعقدہ خلیج تعاون کونسل اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک مشاورتی نشست میں بھی شرکت کی۔
 
انٹونی بلینکن نے خلیج تعاون کونسل اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک مشاورتی نشست میں ہی وہ بیان دیا جسے ہم نے کالم کے آغاز میں ذکر کیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان مغربی ایشیا اور خلیج فارس سے متعلق امریکہ کی آئندہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ انٹونی بلینکن کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں امریکہ کے اتحادی ممالک کو وعدہ صادق آپریشن کے بعد والے دورانیہ کیلئے تیار ہونا پڑے گا اور اس نئے دورانیے میں انہیں ایک نیا اتحاد تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کی مراد عرب ممالک اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے درمیان اتحاد تشکیل پانا ہے۔ لہذا ان کا یہ بیان درحقیقت خطے کے عرب ممالک کو اسرائیل سے دوستانہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی ہدایت ہے۔
 
اصل میں جب امریکہ نے یہ دیکھا کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایران کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے سے قاصر ہے تو اس نے خلیجی ریاستوں سمیت خطے کے ممالک کو اسرائیل کیلئے دفاعی ڈھال بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وعدہ صادق آپریشن کے دوران سوائے اردن کے کوئی بھی عرب ملک ایران کے فائر کردہ ڈرون طیاروں اور میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کیلئے امریکہ سے تعاون کرنے پر تیار نہیں ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب ممالک بخوبی جانتے تھے کہ اول تو ایران خطے میں تناو اور عدم استحکام کے درپے نہیں ہے اور وہ شام میں اپنے قونصل خانے پر اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایسا ردعمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ خطے کے مسلمان ممالک کا حساب اسرائیل سے جدا ہے جو مسلسل ایران کی قومی سلامتی کے خلاف اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔
 
لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ حالات میں، جب اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کے غیض و غضب کا نشانہ بن چکی ہے اور امریکہ خطے کے عرب ممالک کو اسرائیل کیلئے درپیش مشکلات اور مصیبتوں کے سامنے ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کیلئے سرگرم عمل ہو چکا ہے، امریکی حکمرانوں نے اس مقصد کے حصول کیلئے "خطے کے ممالک میں اتحاد اور ہم آہنگی" جیسا خوبصورت نعرہ لگایا ہے۔ امریکہ درحقیقت ایک طرح سے عرب نیٹو نامی منصوبے کے احیاء کی کوشش کر رہا ہے جو گذشتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ اس منصوبے کے تحت خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک، مصر، اردن اور غاصب صیہونی رژیم پر مشتمل ایک سیاسی، فوجی اور سکیورٹی اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی گئی تھی۔
 
عرب نیٹو نامی اتحاد تشکیل دینے پر مبنی منصوبے کا مقصد مغربی ایشیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کم کرنے کا زمینہ فراہم کرنا تھا تاکہ اس طرح امریکہ اپنی پوری توجہ اور فوجی طاقت بحیرہ چین میں مرکوز کر سکے۔ لیکن حالیہ زمانے میں اس منصوبے کیلئے انجام پانے والی کوششیں ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں انجام پانے والی کوششوں سے مختلف ہیں۔ ٹرمپ کے زمانے میں اسرائیل کی ظاہری طاقت برقرار تھی اور عرب ممالک اس سے تعلقات استوار کرنے کے خواہاں تھے۔ لیکن آج اسرائیل کی طاقت کا کھوکھلا پن پوری دنیا پر واضح ہو چکا ہے اور شیر کی کھال اتر کر اندر سے بکری باہر آ چکی ہے۔ لہذا عرب ممالک بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آج امریکہ اور اسرائیل ان کا محتاج ہے اور جو اپنی حفاظت نہیں کر سکتا وہ ان کی حفاظت کیسے کرے گا۔ وعدہ صادق آپریشن کے بعد ایران کی مخالفت میں اسرائیل کا ساتھ دینا کسی صورت نفع بخش فیصلہ نہیں رہا۔
خبر کا کوڈ : 1137030
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش