1
3
Thursday 23 May 2024 13:43

ایران کا اندرونی سسٹم

ایران کا اندرونی سسٹم
تحریر: نذر حافی

ہم نے تو ایران کے بارے میں کچھ اور ہی سن رکھا تھا۔ ہماری اکثریت کے نزدیک جہاں سخت گیر مُلا حکومت، خواتین کا حجاب، مہنگائی اور بیروزگاری، یہ سب اکٹھا ہو جائے، اُسے ایران کہتے ہیں۔ شہید قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ کے مناظر تو آپ کو یاد ہونگے۔ ابھی شہید رئیسی کی نماز جنازہ کی ویڈیوز بھی دیکھ لیجئے۔ شہید رئیسی کی نمازِ جنازہ کے مناظر نے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ویڈیوز وائرل کرنے والوں کو لاجواب کر دیا ہے۔ شہید رئیسی اور ان کے ساتھیوں کی نماز جنازہ کی تصاویر دیکھنے کے بعد ایک چھوٹا سا سوال تو مغربی و عربی میڈیا سے پوچھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح امریکی و اسرائیلی پروپیگنڈے سے متاثر نام نہاد دانشوروں سے بھی یہ بات کی جا سکتی ہے اور سُنی سُنائی باتوں پر اپنی رائے قائم کرنے والوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ آپ تو کہتے تھے کہ ایران کے لوگ اپنی سخت گیر مُلا حکومت سے تنگ ہیں، آپ کے بقول ایران میں لوگ بے حجابی اور فحاشی چاہتے ہیں، آپ تو کہتے تھے کہ ایران میں عوام شراب نوشی اور جوئے کے اڈے کھولنا چاہتے ہیں، آپ کے بقول تو ایرانی صدر شہید رئیسی، ایک خشک مزاج، عوام دشمن اور سخت گیر مُلا تھے۔۔۔ پھر ایران میں لاکھوں کی تعداد میں شہید رئیسی کی نماز جنازہ میں اپنے محبوب حکمران سے عشق و عقیدت کا اظہار کرنے والے یہ لوگ کون ہیں؟ کیا یہی ایرانی عوام ہیں یا یہ کسی دوسرے ملک یا کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں۔؟

امریکی، اسرائیلی، عربی اور مغربی میڈیا مہسا امینی جیسے واقعات پر اربوں روپے کے کلپس بنا کر تو شیئر کرتا ہے، لیکن ایران میں اپنی حکومت اور سیاستدانوں کے ساتھ والہانہ لگاو کے ساتھ عشق کے اظہار کے طور پر جو مظاہرے ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی یہ میڈیا نہیں دکھاتا۔ بہرحال ایرانیوں کا ایک خاص اندرونی سسٹم ہے، جس کی وجہ سے اُنہیں دنیا کی کوئی بھی قوم شکست نہیں دے سکتی۔ ہمیں اُس سسٹم کو سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا سسٹم ہے، جسے پولیٹیکل سائنس میں  "اندرونی محرک" کہتے ہیں۔ خدا نے انسان کے اندر ایک اندرونی محرک کو فعال کر رکھا ہے۔ جب تک انسان کی حرکت کا محرک اندرونی ہوتا ہے، اُس وقت تک اُس کی حرکت میں توقف نہیں آتا۔

جب آپ کسی کو زیر کرنا چاہیں اور اُسے شکست دینا چاہیں تو سب سے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اُس کے اندرونی محرک کو غیر فعال کرکے اُسے بیرونی محرک کے ساتھ جوڑ دیں۔ اس کے بعد بھی وہ شخص حرکت کرے گا، لیکن اب اُس کا محرک بیرونی ہوگا۔ اُس کے بعد اُس کی حرکت عارضی ہوگی، جیسے ہی بیرونی عامل رُکے گا، اُس کی حرکت بھی رُک جائے گی۔ مثال کے طور پر کپڑے دھونے والی مشین کے اندر حرکت کا ایک فعال سسٹم ہے۔ اگر آپ اندر کے سسٹم کا بٹن آف کر دیں گے اور باہر سے اپنے ہاتھ ڈال کر کپڑے دھوئیں گے تو  جیسے ہی آپ دھونا چھوڑیں گے تو مشین خود سے کپڑے نہیں دھوئے گی۔ وجہ یہ ہے کہ آپ نے مشین کے اندرونی سسٹم کو غیر فعال کر دیا ہے۔

اس کی دوسری مثال آپ انسانی زندگی سے لے لیں۔ انسان کے اندر خوف اور امید کا ایک سسٹم ہے، جو انسان کے اندرونی محرک کو فعال رکھتا ہے۔ خوف کی وجہ سے انسان ہاتھ پاوں مارتا ہے، محنت کرتا ہے، علم و ہنر سیکھتا ہے اور امید کی وجہ سے انسان اپنی محنت کو ترک نہیں کرتا۔ جب تک انسان کے اندر یہ سسٹم فعال رہتا ہے، وہ ارتقاء کرتا رہتا ہے۔ اس پر متعدد تجربات ہوچکے ہیں اور آپ خود بھی یہ تجربہ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر ایک طالب علم کو مستقبل کا خوف اور کامیابی کی امید ہے تو وہ علم و ہنر سیکھنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرے گا۔ وہ اپنی جیب کاٹ کر مفید علوم سیکھے گا اور اپنی استراحت سے وقت نکال کر ہنر سیکھنے کیلئے جائے گا۔

اسی طالب علم کا اگر آپ اندرونی فعال سسٹم غیر فعال کر دیں، مثلا اُسے آپ سیکھنے و کھانے کے بجائے مانگ تانگ کر کمانے اور کھانے نیز ڈنگ ٹپانے کے گُر سکھا دیں تو جلد ہی اُس کے اندر سے سابقہ خوف اور امید کا سسٹم غیر فعال ہو جائے گا۔ وہ اپنی پڑھائی، لکھائی چھوڑ کر غم کے دنوں میں کرائے اور لنگر کے پیسے جبکہ خوشی کے دنوں میں کیک اور مٹھائی کا چندہ جمع کرنے میں لگ جائے گا۔ یہ بیرونی محرک اُس کے اندرونی محرک کو غیر فعال کر دے گا۔ اب وہ پڑھنے لکھنے کے بجائے چندے مانگنے کیلئے فعال ہو جائے گا۔ یہ فعالیت اُس کے اندرونی محرک کی وجہ سے نہیں بلکہ بیرونی محرک کی وجہ سے ہے۔ یہ اندر سے خوف اور امید کا جذبہ نہیں بلکہ باہر سے پیسے کی کشش ہے، جو اُسے فعال رکھے ہوئے ہے۔

باہر کے محرک سے متحرک اور  فعال ہونے کا نتیجہ ہمارے ملک پاکستان میں دیکھ لیجئے۔ ہمیں پیسے دے کر کوئی بھی کچھ بھی ہم سے کروا سکتا ہے۔جہادِ افغانستان سے لے کر دہشت گروں کی انڈسٹری اور ٹی وی ڈراموں سے لے کر فلم انڈسٹری تک یہ سب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جب ہم نے اندرونی محرک کے بجائے بیرونی محرک کی بدولت فعالیت شروع کی تو بیرونی دنیا نے ہمارے بارے میں یہ فیصلہ سُنا دیا کہ "پاکستانی ڈالروں کے لئے اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں۔" ہمارے برعکس ایرانی قیادت نے اپنی قوم کے اندرونی محرک کو فعال رکھا ہوا ہے۔ دین و سائنس دونوں شعبوں میں ایرانی سیاستدانوں و دانشوروں نے بیرونی محرکات کو خاطر میں نہیں لایا۔ اہلِ ایران نے اپنے ملک کی  ترقی و خدمت کو اپنا قومی و دینی فریضہ سمجھ رکھا ہے۔

انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے، محنت پر یقین رکھتے ہیں اور میرٹ کی پابندی کرتے ہیں۔ باہر سے انسانی حقوق کے نعرے ہوں یا ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے وعدے ہوں، ایرانی قوم آج تک ان بیرونی محرکات کے سحر میں مبتلا نہیں ہوئی۔ ایک حقیقی رہبر کا کام قوم کے اندرونی محرک کو فعال رکھنا ہوتا ہے۔ ایران کے سُپریم لیڈر کے اِن الفاظ پر توجہ دیجئے: مطمئن رہیں! یہ حادثے جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ بلکل طبیعی ہیں۔ (حوادث کا یہ سلسلہ) پہاڑ کی چوٹی پر جانے والے ایک دشوار راستے کی مانند ہے۔ اس راستے میں ہمیں آسانی کی توقع ہرگز نہیں رکھنی چاہیئے۔ اگر ہم "توچال یا دماوند" کی چوٹیوں کو سر کرنا چاہیں تو راستے میں گڑھا نہ ہو، پتھر نہ ہو، ہوا نہ ہو، دھواں نہ ہو، گیس نہ ہو۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔

ہم (ترقی اور پیشرفت کے راستے پر) حالِ حرکت میں ہیں، مسلسل حرکت میں ہیں، حرکت میں ہیں، قابلِ توجہ ہمارا حرکت کرنا ہے۔ حادثے ہوتے رہتے ہیں، اس راستے میں اگر یہ حوادث نہ ہوں تو ہمیں ضرور تعجب کرنا چاہیئے۔ میں مطمئن ہوں، میں حالِ حرکت میں ہوں اور میں اس حرکت (ارتقا کے سفر) کو دیکھ رہا ہوں، میرے لئے واضح ہے کہ (ارتقا کے اس سفر میں) ملک میں کیا اتفاقات پیش آرہے ہیں۔ یاد رکھئے! ایسی گفتگو فقط وہی رہبر کرسکتا ہے کہ جس کی حرکت کا انحصار کسی بیرونی محرک پر نہ ہو اور ایسی گفتگو کو سمجھ بھی صرف وہی قوم سکتی ہے کہ جس کا اندرونی محرک فعال ہو۔ جو قوم  دوسروں کی بیساکھیوں کا سہارا لینے کے بجائے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سیکھ چکی ہو، جو مانگ کر خیرات کرنے کے بجائے کما کر سخاوت کی مثالیں قائم کرنے کے راستے پر چل رہی ہو، صرف وہی قوم ان باتوں کا ادراک کرسکتی ہے۔

ایرانیوں کا اندرونی سسٹم اتنا فعال ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد آج تک کبھی الیکشن میں تاخیر نہیں ہوئی اور اب بھی صدر رئیسی کی شہادت کے بعد بالکل عادی طریقے سے آئینی مدّت کے اندر انتخابات ہونگے۔ آج محترم شہید رئیسی کی نمازِ جنازہ کے مناظر ہم سب کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ قوموں کو حالات نہیں بلکہ محرکات سنوارتے یا بگاڑتے ہیں۔ جس قوم کا اندرونی محرک فعال ہو، اُسے ساری دنیا کی مخالفت اور پابندیاں زیر نہیں کرسکتیں اور جس قوم کا اندرونی محرک غیر فعال ہو، وہ ایٹم بم بھی بنا لے تو ایک انچ زمین  بھی فتح نہیں کرسکتی۔
خبر کا کوڈ : 1137034
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
اب اس کے بعد بندہ کیا کہے، یہ بات تو صحیح ہے لیکن یہ محرک اب ہم سب کے ساتھ لگا ہوا ہے۔
ہمیں پیسے دے کر کوئی بھی کچھ بھی ہم سے کروا سکتا ہے۔ جہادِ افغانستان سے لے کر دہشت گروں کی انڈسٹری اور ٹی وی ڈراموں سے لے کر فلم انڈسٹری تک یہ سب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جب ہم نے اندرونی محرک کے بجائے بیرونی محرک کی بدولت فعالیت شروع کی تو بیرونی دنیا نے ہمارے بارے میں یہ فیصلہ سُنا دیا کہ "پاکستانی ڈالروں کے لئے اپنی ماں تک بیچ دیتے ہیں۔"
ہماری پیشکش