0
Friday 24 May 2024 12:44

اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت ایک علامتی فتح

اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت ایک علامتی فتح
تحریر: سید اسد عباس

اقوام متحدہ کے 193 میں سے اب تک 140 ممالک فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والوں میں 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ، 57 ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور 120 ممالک پر مشتمل نان الائنڈ موومنٹ بھی شامل ہے۔ حالیہ دنوں میں آسٹریلیا نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کے عمل کو تیز کرنے کے لیے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرسکتا ہے۔آئرلینڈ، ناروے اور سپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 28 مئی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے، جس کے ردعمل میں اسرائیل نے آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں جبکہ سپین سے بھی وہ اپنا سفیر واپس بلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اس وقت اقوام متحدہ میں فلسطین کی حیثیت ایک غیر رُکنی مشاہدہ کار کی ہے۔ 2011ء میں فلسطین نے اقوام متحدہ کا مستقل رُکن بننے کے لیے قرارداد جمع کروائی تھی، لیکن ان کی اس درخواست کو سلامتی کونسل میں حمایت حاصل نہ ہوسکی، تاہم فلسطین اب بھی اقوام متحدہ میں ہونے والے بحث و مباحثوں میں حصہ لے سکتا ہے۔ اسے قراردادوں پر ووٹ دینے کی اجازت نہیں۔ 2012ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو بطور غیر رکنی مشاہدہ کار ریاست قبول کیا تھا اور غزہ اور غربِ اردن میں اس فیصلے کو سراہا بھی گیا تھا۔ تاہم اسرائیل اور امریکہ اقوام متحدہ کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے نظر آئے تھے۔ اقوام متحدہ کے اس فیصلے کے بعد فلسطین کو متعدد بین الاقوامی تنظیموں کا رُکن بننے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولا 1937ء میں پیل کمیشن نے پیش کیا۔ جسے 1947ء میں دوبارہ اقوام متحدہ کے تقسیم پلین کے عنوان سے پیش کیا گیا۔ اس حل کو قرارداد نمبر 181 کے تحت قبول کیا گیا۔ اس قرارداد کے مطابق طے کیا گیا کہ اس خطے میں دو آزاد ریاستیں تشکیل دی جائیں گی، جو معاشی طور پر منسلک ہوں گی۔ عرب ریاست کو گیارہ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ حاصل ہوگا اور یہودی ریاست کو چودہ ہزار ایک سو مربع کلومیٹر کا علاقہ حاصل ہوگا۔ جس میں بیت المقدس اور بیت اللحم کو عالمی زون کے طور پر رکھا جائے گا۔ اس پلین پر اقوام متحدہ میں 29 نومبر 1947ء میں ووٹنگ ہوئی، جس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 33 ووٹوں سے اس منصوبے کو منظور کیا۔

قرارداد نمبر 181 کی بنیاد پر 1988ء میں پی ایل او نے آزاد فلسطینی ریاست کا اعلان کر دیا، جس میں کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی یہ قرارداد فلسطینیوں کے آزادی اور خود مختاری کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ پی ایل او نے دو ریاستی حل کو 1970ء میں قبول کیا، حماس نے 2017ء میں 1967ء کے بارڈرز کے مطابق دو ریاستی حل کو قبول کیا، فقط اس میں یہ کہا گیا کہ ہم یہودی ریاست کو نہیں بلکہ صہیونی اکائی کو تسلیم کریں گے۔ اقوام عالم کا دہرا معیار اس پورے قضیے میں عیاں ہے۔ ایک جانب 1947ء میں دو ریاستی حل کو پوری دنیا بالخصوص مغربی ممالک اکثریت سے قبول کرتے ہیں، تاہم اس کے نفاذ کے لیے کبھی بھی کوئی عملی اقدام نہیں کیا جاتا۔ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ اپنے قدموں کو خطے میں جما لے۔ مخالفین کا خاتمہ کر دیا جائے، ساتھ ساتھ دو ریاستی حل کا راگ الاپا جاتا ہے۔

صہیونیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اقوام متحدہ سے دو ریاستی حل کو قبول کروایا جبکہ عرب اور بعض دیگر ریاستیں اس حل کو قبول نہیں کرتی تھیں، جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ ستر برس سے زائد کا عرصہ بیتنے کے بعد فلسطین کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی باتیں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ یہ قرارداد پیش کرنے والوں سے پہلا سوال تو یہ کیا جانا چاہیئے، کیا 1947ء کے تقسیم کے فارمولے کے مطابق فلسطینی علاقے میں عرب ریاست قائم کی جاچکی ہے، جس کو آپ اقوام متحدہ میں رکنیت دینے کے لیے ووٹنگ کر رہے ہیں۔ اگر ایک آزاد اور خود مختار ریاست کا وجود ہی نہیں ہے تو ایک کاغذی ریاست قائم کرکے اس کو اقوام متحدہ میں ووٹنگ کا حق دے کر فلسطینیوں کو کیا تسلی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دو ریاستی حل اور فلسطین کی اقوام متحدہ میں مستقل رکنیت کے حوالے سے بعض یورپی ممالک کے بیانات کے جواب میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے کہا کہ "میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک واضح پیغام دے رہا ہوں کہ اسرائیل ان لوگوں کے خلاف پیچھے نہیں ہٹے گا، جو اس کی خود مختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اگر سپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کو تبدیل نہ کیا تو اس کے خلاف بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جائے گا۔" ہسپانوی وزیراعظم پیڈرو سانشیز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نتن یاہو ابھی تک کان نہیں دھر رہے ہیں۔ وہ اب بھی ہسپتالوں اور سکولوں پر بمباری کر رہے ہیں اور خواتین اور بچوں کو بھوک اور سردی میں رکھ کر سزا دے رہے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل خطرے میں ہے، جو کبھی موجود ہی نہ تھا۔ پیڈرو سانشیز نے کہا کہ ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں، جیسے ہم نے یوکرائن کے معاملے پر اٹھائے اور دہُرا معیار نہ اپنائیں۔ ہسپانوی وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں انسانی امداد بھیجنے کی ضرورت ہے اور پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے، جو ہم پہلے ہی کر رہے ہیں، لیکن مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ کل یہی صہیونی پوری دنیا سے دو ریاستی حل منوانے کی بات کرتے تھے اور آج دو ریاستی حل کو صہیونی ریاست کی خود مختاری کے خلاف اقدام کہا جار ہا ہے۔ امریکی صدر یروشلم کو صہیونی ریاست کا دارالخلافہ کہتا ہے۔ ستر سے زائد برسوں سے اسرائیل اقوام متحدہ کا مستقل رکن ہے۔

میرے خیال میں اقوام متحدہ میں یہ قرارداد پیش ہونی چاہیئے کہ جب تک دو ریاستی حل کے مطابق دو آزاد اور خود مختار ریاستیں نہیں بن جاتی ہیں، اس وقت تک اسرائیل کی مستقل رکنیت کا بھی خاتمہ کیا جائے اور اسے بھی فلسطینیوں کی مانند بحیثیت مبصر اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے کسی بھی خطے کے انسان کو کسی دوسرے خطے کے انسان کے مستقبل کے حوالے سے اس کی مرضی کے بغیر فیصلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ اگر فلسطینی صہیونیوں کو غاصب کہتے ہیں اور تاریخ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے تو اقوام عالم کو مظلوم کا حامی ہونا چاہیئے اور غاصب کو لگام ڈالنی چاہیئے۔

تاہم جو دنیا غاصب کو ریاست کا حق دلوانے کے لیے جمع ہوچکی ہو، اس سے مزید کسی انصاف کی کیسے توقع رکھی جا سکتی ہے۔ واشنگٹن میں مِڈل ایسٹ انسٹٹیوٹ سے منسلک تجزیہ کار خالد الجندی کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا مستقل رُکن بننے کی صورت میں فلسطینیوں کی سفارتی طاقت بڑھ جائے گی اور وہ وہاں قرادادیں پیش کرنے اور ان پر ووٹ دینے کے بھی قابل ہو جائیں گے، لیکن ان تمام چیزوں سے بھی فلسطین اور اسرائیل کے معاملے کا دو ریاستی حل نہیں نکلے گا، یہ حل صرف اسرائیل کا قبضہ ختم کروانے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ لندن میں سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز سے منسلک پروفیسر گلبرٹ اچکار کہتے ہیں کہ فلسطینی انتظامیہ کو اقوامِ متحدہ کی مستقل رُکنیت حاصل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ صرف ایک علامتی فتح ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1137234
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش