0
Saturday 25 May 2024 17:44

بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم

بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم
تحریر: سید رضا میر طاہر

ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف، اقوام متحدہ کے اعلیٰ ترین عدالتی ادارے نے جمعہ 24 مئی کو اپنے فیصلہ میں رفح میں صیہونی حکومت کی فوجی کارروائیوں کو فوری طور پر روکنے کا اور غزہ کی پٹی میں داخلے کے لیے انسانی امداد کے لیے رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلے کے حق میں 13 اور مخالفت میں 2 ووٹ پڑے۔ مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے غاصب صیہونی حکومت کے خلاف ہیگ کی عالمی عدالت کے اس فیصلے اور رفح پر حملہ فوراً بند کرنے کے حکم کا استقبال کیا ہے۔ در این اثناء رفح میں صیہونی حکومت کی فوجی کارروائیاں روکنے اور رفح گذرگاہ کھولنے کے لئے عالمی عدالت انصاف کے حکم پر بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آيا ہے۔ مختلف ممالک اور عالمی و علاقائی اداروں اور تنظیموں نے رفح پر غاصب صیہونی حکومت کے حملے روکنے، غزہ پٹی تک انسان دوستانہ امداد پہنچنے میں مدد کے لئے رفح پاس کھولنے، نسل کشی سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کے غزہ میں داخل ہونے کی ضمانت دینے اور ایک مہینے کے اندر تحقیقات کی رپورٹ پیش کرنے کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔

ہالینڈ کے شہر ہیگ میں واقع انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بھاری اتفاق رائے سے رفح میں صیہونی حکومت کی فوجی کارروائياں فوراً بند کرنے اور غزہ پٹی تک انسان دوستانہ امداد کی ترسیل کے لئے رفح پاس کھولنے کا حکم دیا ہے۔ در ایں اثناء اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آنتونیو گوترش نے جمعے کو تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ رفح میں فوجی کارروائیاں رکوانے کے لئے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ لازم العمل ہے اور تمام فریقوں کے لئے اس کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ گوترش نے زور دے کر کہا کہ عالمی عدالت کا فیصلہ لازم العمل ہے اور مجھے یقین ہے کہ فریقین، عدالت کے حکم پر عمل کریں گے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنے بیان کے دوسرے حصے میں کہا کہ عالمی عدالت کے آئین کے مطابق ہم اس فیصلے کو فوراً اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کریں گے۔

پاکستان کے وزیراعظم نے بھی عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہيں کہ صیہونیوں کو جوابدہ بنانے اور فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے لئے عالمی عدالت انصاف کے حکم پر عمل درآمد کرانے کے لئے فوراً اقدام کرے۔ اسلام آباد میں پاکستانی وزیراعظم کے دفتر نے ایک بیان جاری کرکے غزہ میں جنگ روکنے کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ عراقی وزیراعظم نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ رفح میں ہمارے باشندوں کے خلاف فوراً جنگ بند کرنے کی ضرورت پر مبنی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں اب بھی زندہ ضمیر موجود ہيں۔

مصر نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ قاہرہ، تل ابیب سے اپیل کرتا ہے کہ وہ نسل کشی اور جرائم کی روک تھام سے متعلق کنونشنوں پر عمل کرے۔ مصری وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قانونی لحاظ سے اسرائیل، غزہ پٹی میں انسانی صورتحال کا پوری طرح ذمہ دار ہے، کیونکہ اس علاقے میں وہ واحد فریق ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سعودی حکومت اس فیصلے کی قدرداں ہے کہ جو فلسطینی عوام کے قانونی اور اخلاقی حق کے بحالی کے سلسلے میں ایک مثبت قدم شمار ہوتا ہے۔ عمان نے بھی آج صبح ایک بیان میں رفح پر اسرائیلی حملے فوراً روکنے کے سلسلے میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

عمان کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں عالمی برادری بالخصوص سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے اور فلسطینی زمینوں پر حملہ فوراً روکنے سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے حکم کی پیروی کرے۔ قطر نے بھی رفح پر صیہونی حکومت کے حملے فوراً روکنے سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے حکم کا خیرمقدم کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ یہ اقدام، غزہ پٹی میں فوری، جامع اور دائمی جنگ بندی کے لئے مقدمہ ثابت ہوگا۔ قطر نے صیہونی حکومت سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تمام پہلؤوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا اور تاکید کے ساتھ کہا کہ عالمی برادری کو غزہ پٹی میں عام شہریوں کی مکمل حمایت کی ذمہ داری پر عمل کرنا چاہیئے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بورل نے بھی عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کو عالمی اداروں کی حمایت اور اسرائیل کی حمایت میں سے کسی ایک چیز کو چننا چاہیئے۔

اسلامی استقامتی تحریک حماس نے رفح پر صیہونی حکومت کے فوجیوں کے حملے فوراً روکنے کے سلسلے میں عالمی عدالت انصاف کے حکم کا خیرمقدم کیا، لیکن اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ توقع یہ تھی کہ عالمی عدالت انصاف پورے غزہ میں فوراً جنگ بند کرنے کا فیصلہ صادر کرے گی۔ تحریک حماس کے رہنماء اسامہ حمدان نے زور دے کر کہا کہ ہم اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہيں اور اس پر فوراً عمل درامد کرانے کے لئے صیہونی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہيں۔ انھوں نے کہا کہ عالمی عزم کے بغیر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے اور احکامات کا کوئي نتیجہ نہيں نکلے گا۔ اسامہ حمدان نے کہا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی مخالفت کی صورت میں اس حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات پر بھروسہ نہيں کیا جا سکتا۔

جنوبی افریقہ کے صدر سیریل رامافوزا نے رفح پر صیہونی حکومت کے حملے فوراً بند کرنے کے لئے عالمی عدالت انصاف کے نئے حکم کا خیرمقدم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے عوام کی پریشانیاں کم کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی تشویشناک ہے۔ رامافوزا نے ایک بیان میں کہا کہ یہ کیس فلسطین کے عام شہریوں کے بارے میں ہے، یعنی ان لوگوں کے بارے میں جو ایسے کام کی سزا بھگت رہے ہیں، جس کے سلسلے میں ان پر کوئي ذمہ داری عائد نہيں ہوتی۔ جنوبی افریقہ کے صدر نے تشویش ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو غزہ کے عوام کی پریشانیوں اور مسائل کم کرنے میں کوئي کامیابی نہيں ملی ہے۔ دوسری جانب جنوبی افریقہ کے بین الاقوامی تعاون و تعلقات کے شعبے کے سربراہ زین ڈینگور نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بارے میں ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ غزہ میں ہر جگہ اسرائیل کے فوجی اقدام کو روکنے کا کھلا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ، غزہ میں تحقیقاتی ٹیم کے پہنچنے کی ضرورت پر مبنی عالمی عدالت کے فیصلے کو پیش کرے گی۔

یہ امر بہت اہم ہے کہ اسرائیل کے اسٹریٹیجک اتحادی کے طور پر امریکہ نے نہ صرف بین الاقوامی عدالتی اداروں کو دھمکیاں دی ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے خلاف کسی بھی فیصلے کی صورت میں ان کے اہلکاروں پر پابندی لگانے کا بھی کہا ہے۔ تاہم اس کے باوجود، ان عدالتی اداروں کے حالیہ اقدامات بشمول بین الاقوامی فوجداری عدالت کی طرف سے صیہونی حکومت کے رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ واشنگٹن کو اپنی دھمکیوں پر عمل درآمد میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے، کیونکہ اس سے امریکہ کے خلاف عالمی سطح پر مخالفت بڑھے گی اور اسے سیاسی تنہائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1137530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش