1
Saturday 25 May 2024 23:49

اسرائیلی لابیز اور امریکی سیاست دان

اسرائیلی لابیز اور امریکی سیاست دان
تحریر: مرتضی عباس
 
امریکہ کی کانگریس اور سینیٹ کے تمام اراکین جب رکنیت کے آغاز میں حلف اٹھاتے ہیں تو قسم کھاتے ہیں کہ صرف امریکہ اور امریکی عوام سے وفادار رہیں گے، لیکن یوکرین اور غزہ جنگوں سے متعلق امریکہ کی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں اکثر امریکی سیاست دانوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے علاوہ چند دیگر ممالک سے بھی وفادار ہیں۔ امریکی اراکین کانگریس کی جانب سے یوکرین اور اسرائیل کو مالی امداد فراہم کرنے کے مسئلے پر ووٹنگ کی نوعیت، اس ملک کے سیاست دانوں کی "سچی قسم" کا ایک اور پہلو ظاہر کرتی ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے تمام اراکین اور ریپبلکن پارٹی کے 45 فیصد اراکین نے یوکرین کو 60 ارب ڈالر امداد فراہم کرنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ 55 فیصد ریپبلکن اراکین کی نظر میں امریکہ کی جنوبی سرحدوں کی سکیورٹی زیادہ اہم ہے جہاں غیر قانونی تارکین وطن نے یلغار کر رکھی ہے۔
 
لیکن جب اسرائیل کو 14 ارب ڈالر امداد فراہم کرنے کی باری آتی ہے تو ریپبلکن پارٹی کے صرف 10 فیصد اراکین "پہلے امریکہ یا First America" پر مبنی موقف اختیار کرتے ہیں۔ امریکہ میں صیہونیوں کے پاس اس ملک کی داخلہ اور خارجہ سیاست کو اپنی مرضی کے مطابق سمت و سو دینے کیلئے دو انتہائی طاقتور ادارے موجود ہیں۔ ایک AIPAC یا American Israel Public Affairs Committee ہے جبکہ دوسرا Anti Defamation League ہے۔ یہ دو تنظیمیں حتی امریکی صدر کے دفتر سے بھی زیادہ طاقتور ہیں اور سیاسی حالات کا رخ بدلنے میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ایلن ماسک ٹویٹر خریدنے میں مصروف تھا تو اے ڈی ایل ہی وہ تنظیم تھی جس نے اس ارب پتی پر "یہود دشمنی" کا الزام عائد کیا۔ اس اقدام کا مقصد مستقبل میں اس سوشل نیٹ ورک سے صیہونزم کے خلاف یا اس سے ہم آہنگی نہ رکھنے والے مطالب شائع ہونے سے روکنا تھا۔
 
اس وقت اے ڈی ایل اپنی پالیسیاں گوگل، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر لاگو کر چکی ہے، لیکن ٹویٹر اور ٹیلی گرام اور کچھ حد تک ٹک ٹاک بعض اوقات اس تنظیم کے دباو کا مقابلہ کرتے دکھائی دیے ہیں۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے اس ملک میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دیے جانے کی کوششیں کی اصل وجہ بھی یہ ہے کہ ٹک ٹاک غزہ میں جاری صیہونی جرائم کے بارے میں تصاویر اور ویڈیوز شائع کرتا ہے، اور چونکہ ٹک ٹاک صارفین کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے لہذا امریکی یونیورسٹیوں میں اسرائیل مخالف احتجاج اور مظاہروں کی بڑی وجہ بنا ہے۔ آئی پیک بھی امریکی پالیسیاں تشکیل پانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس تنظیم میں ایسے ارب پتی شامل ہیں جو امریکہ میں منعقد ہونے والی انتخابات کا نتیجہ مشخص کرتے ہیں۔ وہ امریکی حکمرانوں کو "اسرائیل سے دوستی" کے نمبر دیتے ہیں اور ایسے سیاست دانوں کی مہم چلاتے ہیں جو ان سے سو نمبر حاصل کر چکے ہوں۔
 
ویب سائٹ Jewish Insider نے اپنی ایک رپورٹ میں بڑے فخر سے بیان کیا ہے: "امریکہ اسرائیل تعلقات عامہ کمیٹی (AIPAC) ٹی وی پر 300 اشتہارات کے باکسز خرید کر ریاست کینٹیکا سے رکن کانگریس تھامس مسی (Thomas Massie) کے خلاف مہم چلانا چاہتی ہے۔" یاد رہے تھامس مسی کو ان دنوں امریکی کانگریس میں صیہونی مفادات کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسے ریپبلکن اراکین کانگریس جو "پہلے امریکہ" کے نعرے پر ڈٹے ہوئے ہیں، دو لحاظ سے آئی پیک اور اے ڈی ایل کے مفادات کیلئے خطرہ تصور کئے جا رہے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بین الاقوامی سطح پر کسی بھی ٹکراو اور جنگ میں امریکہ کی مداخلت کے مخالف ہیں اور دوسرا وہ امریکی معاشرے میں آئی پیک اور اے ڈی ایل جیسی تنظیموں کے اثرورسوخ کے بھی مخالف ہیں۔ تھامس مسی اور میرچری ٹیلر گرین امریکی کانگریس میں اسرائیلی لابیوں کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جاتے ہیں۔
 
مذکورہ بالا ویب سائٹ اس بارے میں مزید لکھتی ہے: "تھامس مسی نے 7 اکتوبر کے بعد ایسے تمام بل اور قراردادوں کے خلاف ووٹ دیا ہے جن میں اسرائیل کی مالی اور سیاسی حمایت، ایران اور حزب اللہ کی مذمت کرنے اور یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے پر زور دیا گیا تھا۔ آئی پیک کے ترجمان نے تھامس مسی کے خلاف مہم چلاتے ہوئے کہا: ہم اسرائیل کے خلاف تھامس مسی کے ظالمانہ رویے کے بارے میں عوام کا شعور بڑھانا چاہتے ہیں۔ شک نہ کریں کہ ہم ریاست کینٹیکا کے تمام ووٹرز کو اسرائیل سے متعلق تھامس مسی کے موقف سے آگاہ کرنے کے درپے ہیں۔" اسرائیل نواز ویب سائٹ نے مزید لکھا: "تھامس مسی، مچ میکانل (سینیٹ میں ریپبلکن اراکین کا سربراہ) کے متبادل اصلی نمائندوں میں سے ایک ہے۔ میکانل عمر رسیدہ ہونے کے باعث 2026ء کے الیکشن میں شرکت نہیں کریں گے۔"
 
آئی پیک نے اعلان کیا ہے کہ اس سال نومبر میں منعقد ہونے والے ملک گیر الیکشن میں وہ نہ صرف اپنے بقول "اسرائیل کے دوست" امیدواروں کی حمایت کرے گا بلکہ فلسطین کے حامی امیدواروں کے خلاف مہم بھی چلائے گا۔ تھامس مسی کے خلاف آئی پیک کی مہم ایسے وقت انجام پا رہی ہے جب اس تنظیم نے ایسی ہی مہم چلا کر جان ہاسٹیٹلر (John Hostettler) کو دوبارہ کانگریس کا رکن بننے نہیں دیا۔ یہ رکن کانگریس بھی اسرائیل کا حامی نہیں تھا اور صیہونیوں سے ہم سو سیاست انجام نہیں دیتا تھا۔ ویب سائٹ جویش انسائڈر اعتراف کرتے ہوئے لکھتی ہے: "اگرچہ آئی پیک امریکی شہریوں پر مشتمل ہے لیکن تھامس مسی نے الیکشن میں بیرون ملک عناصر کی مداخلت کا الزام لگایا ہے اور کچھ لوگ اسے یہود دشمنی کا مصداق قرار دے رہے ہیں۔"
خبر کا کوڈ : 1137581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش