0
Sunday 26 May 2024 07:26

ہمارے گدی نشین اور مشہد کا متولی

ہمارے گدی نشین اور مشہد کا متولی
تحریر: ارشاد حسین ناصر

سوشل میڈیا کے اس زمانے میں خبروں وِ تجزیوں، انٹرویوز، معلوماتی پیکیجز، سوشل ایشوز پہ نایاب و کم یاب معلومات، عالمی حالات و واقعات سے جڑے نامور لوگوں کے خیالات، الغرض مختلف حوالوں کی بہت سی چیزیں ہم تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ بہت سی معلومات جو پہلے زمانوں میں دستیاب نہیں ہوتی تھیں، اب آسانی سے مل جاتی ہیں۔ بہت سے واقعات سے جڑی خبریں، بہت سی شخصیات کے بارے میں معلوماتی پیکیجز، ذاتی و شخصی حالات و واقعات جو پہلے ملنا محال تھے، وہ بھی اب بآسانی مل جاتے ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی جمہوری اسلامی ایران کے محبوب صدر جناب آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبدللٰہیان اور دیگر شہید رفقاء کے بارے بہت سی معلومات سامنے آئیں۔ اس صدمے اور غم کے حالات میں بھی بہت سی چیزیں بلند حوصلوں اور تقویت قلب کا باعث بنیں، ان کا تذکرہ بعد میں کرتے ہیں۔

اس سے پہلے انہی ایام میں سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک خبر اور بعض تصاویر تھیں، جنہوں نے متوجہ کیا۔ یہ تصاویر اور خبر پاکستان کے ایک معروف صوفی بزرگ کے گدی نشینوں میں کے ایک کے فرزند کی تھیں، جس کا انداز و اطوار، شوق، پہناوے، گھڑ سواری، قیمتی گاڑیاں، جیپیں، زمینیں، فارم ہاءوسز، اور نہ جانے کیا کچھ دکھایا گیا تھا۔ یہ فقط ایک گدی نشین کے ایک صاحب زادے کے شوق نہیں، تقریباً ہر گدی نشین کے صاحبزادگان بلکہ ان سے وابستہ اہم افراد کے انداز و اطوار ایسے ہی ہیں۔ عقیدت مند، جنہیں مریدین کہا جاتا ہے، تقدس کے دھوکے میں اپنا سب کچھ ان پر قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں، بلکہ اپنی جان و مال، اولاد سب کچھ نچھاور کر دیتے ہیں، ان کے حالات تو نہیں بدلتے نا ان کی جھونپڑیوں کی صورتحال میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، ہاں شہزادگان کے ناز و نعم و نخرے، انداز و اطوار اور شوق پورے ہوتے رہتے ہیں اور وہ دنیا کی ہر آسائش و سہولت سے فوائد اٹھاتے ہیں۔

ہم نے جس گدی نشین کے صاحبزادے کے شوق کا تذکرہ کیا، ان کا آپسی جھگڑا اعلیٰ عدالتوں تک جا چکا ہے، نہ جانے فقط لاہور میں ان کے کتنے الگ الگ آستانے ہیں، جہاں حاضریاں ہوتی ہیں۔ چند سال قبل انہی گدی نشینوں کے باہمی جھگڑے، جن میں دربار پر اپنے اپنے نذرانہ باکس رکھنے کا ایشو بھی تھا، عدالت نے دربار کے حالات، خانقاہ کے معاملات پر ایک جج مقرر کر دیا تھا، جس نے معمولی سختی کی تو اسے مریدین نے بچوں، بیوی کے سامنے قتل کر دیا تھا، بچے اور بیوی بھی زخمی ہوئے تھے، جس کا مقدمہ ایک گدی نشین سمیت چند مریدین پر درج کیا گیا تھا۔ ہمارا مقصد اس دربار سے متعلق تفصیلات بتانا ہرگز نہیں، ہم تو فقط یہ بناتا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں درباروں کے گدی نشینوں کے انداز و اطوار کسی بادشاہ اور شہزادگان سے کم ہرگز نہیں ہوتے۔

اب آتے ہیں جمہوری اسلامی ایران کے شہید ہونے والے صدر آیۃ اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کی طرف، جو کسی عام دربار یا مزار کے متولی نہیں تھے بلکہ اس مزار مقدس کے متولی تھے، جس کی سلطنت کا سکہ چہار سو عالم میں بولتا ہے۔ آستان قدس رضویہ کی تولیت معمولی بات نہیں، یہ وہ روضہ اقدس ہے، جس کے اثاثے اس قدر زیادہ ہیں کہ ایران جیسی تیل سے مالا مال ریاست بھی ان سے قرض لے سکتی ہے۔ ایک سو دس ایکڑ پر تو فقط مزار محیط ہے، جس میں ہزاروں خدام دنیا بھر کے زائرین کی خدمت کیلئے چوبیس گھنٹے چوکس رہتے ہیں۔ پانچ نمازوں کی نا جانے کتنے مقامات پر جماعت ہوتی ہے، جن میں ہزاروں نمازی شریک رہتے ہیں، جن کے دسترخوان کا کھانا دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلز کے کھانوں سے زیادہ لذیذ اور مزیدار ہوتا ہے۔

صدر آیۃ اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی شہید، ملک کے صدر بننے سے قبل اس روضہ اقدس کے متولی تھے اور ان کا تعلق اسی مشہد مقدس سے تھا۔ اسی شہر میں ان کے والدین رہائش پذیر تھے، وہ روضہ مبارک امام علی ابن موسیٰ الرضاؑ کی تولیت سے قبل ملک کے قاضی القضاۃ، یعنی چیف جسٹس بھی رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ چیف جستس بننے سے پہلے وہ کئی ایک مراحل طے کرکے اس مقام کو پہنچے تھے۔ مشہد مقدس کے موجودہ امام جمعہ آیۃ اللہ علم الھدیٰ ہیں، جن کی دختر خانم جمیلہ شہید صدر رئیسی کی اہلیہ ہیں۔ صدر آیۃ اللہ ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی، رئیس جمہور یعنی صدر ایران منتخب ہونے کے بعد مشہد سے تہران منتقل ہوئے، جو دارالحکومت ہے۔

صدر رئیسی کے والد بچپن میں فوت ہوچکے تھے، ان کی ضعیف والدہ جن کا لوگوں کو ان کی شہادت کے بعد علم ہوا ہے، حتی ان کے اہل محلہ بھی یہی کہتے سنے گئے کہ ہم ایک عرصہ سے رہنے والی صدر مملکت کی والدہ کو نہیں جانتے تھے، ان کی شہادت کے بعد ان کی والدہ کیساتھ ان کے گھر میں بیٹھے ایک تصویر بہت کچھ بتا رہی ہے، گھر کے کمرے کا ماحول، عام سا سامان، عام سا فرش، شہید صدر جمہور کا بااحترام والدہ کے سامنے بیٹھنا، کیا باادب و باشرف شخصیت تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کسی چینل کی ایک صحافی نے دیگر بہت سے ایرانیوں کی طرح ان کی والدہ کے گھر کا دورہ کیا تو ان کی ضعیف و ناتوان والدہ جو بستر پر لیٹی ہوئی تھیں، کہنے لگی کہ ابراہیم جب ملک کے صدر بن گئے تو مجھے کہا کہ میرے پاس تہران آئو، اب ملک کا صدر ہوں، آپ تہران میں میرے ساتھ تشریف لائیں، تاکہ آپ کیساتھ وقت گزار سکوں۔

مگر میں نے جواب دیا کہ بیٹا تم صدر ہو، تم سرکاری چیزیں استعمال کرسکتے ہو، بیت المال پر میرا تصرف جائز نہیں، بیت المال سے میں کیسے استفادہ کرسکتی ہوں، میرے لیے یہی گھر کافی ہے۔ میں امام رضا ؑکی نگری چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ یہ ایک اصلی و نسلی سید کی ماں کا ہم سب کو وادی حیرت میں دھکیل دینے والا مختصر انٹرویو ہے، جس کا اثر کروڑوں انسانوں پر بہت ہی مثبت انداز میں ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس میں صداقت ہے، اس میں سچائی ہے، اس میں بناوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ اس میں تصنع نہیں، یہ بہت ہی فطری انداز سے بیان ہوا ہے، بغیر لگی لپٹی، بغیر مصالحہ لگائے۔

سوچنے کا مقام ہے کہ اتنے بڑے روضہ اقدس کا متولی رہنے والا، ملک کے سب سے بڑے عدالتی منصب پر فائز، تیل کی دولت سے مالا مال ملک کا صدر مملکت ہونے کے باوجود اپنی سب سے قریب ترین رشتہ والدہ کو نہ تو خدمت گذار دے سکا، نہ کسی سکیورٹی کورڈ ایریا میں منتقل کرسکا، نا رہن سہن میں تبدیلی، نامال و متاع، نا دولت ثروت کا اظہار، نا کوٹھی، نا بنگلہ، نا بلٹ پروف گاڑیاں، نا زرق و برق لباس، نا پلازے، نا فارم ہائوسز، نا چاپلوسوں کی فوج ظفر موج، نا سکیورٹی گارڈز کا حصار۔ بس سادہ زیست، سادہ مکان جو  شاید چند گز پر مشتمل ہے، اس میں اتنے بڑے مناصب کی حامل شخصیت کی ضعیف والدہ رہائش پذیر اور اہل محلہ کو بھی اتنے عرصہ تک علم نہیں ہوا۔

ہمارے ہاں تو کاغذی اور لیٹر ہید تنظیموں کے سربراہان کے اہل محلہ ان کے گارڈز اور سکیورٹی بندشوں سے روز جھگڑ رہے ہوتے ہیں، جس ملک میں اس طرح کی مائیں ہوں، وہ بانجھ نہیں رہ سکتا، اس ملک کو ایسی قیادتیں ملتی ہی رہتی ہیں۔ جمہوری اسلامی کی تاریخ اس بات کی شاہد و گواہ ہے کہ اس نے اپنے وجود کے پہلے دن سے لیکر آج تک ایسے فرزندان اس مقدس و پاک دھرتی پر قربان کیے، جن کا وجود باعث برکات، باعث نعمات اور باعث تقویت، باعث تقلید اور باعث افتخار تھا۔ شہید ابراہیم رئیسی اس راہ کے نہ تو پہلے شہید ہیں اور نا ہی آخری، یہ سلسلہ ہے، جو چلتا آرہا ہے، چلتا رہیگا۔

ہمارا ملک اپاہج ہوگیا ہے، ہماری مائیں وہ بیٹے جنم نہیں دے رہیں، جو قائد کی تصویر ہوں، جو اقبال کے شاہین ہوں۔ اسی موقعہ پہ علامہ اقبال یاد آئے۔ علامہ محمد اقبال (رح) نے کیا خوب کہا۔۔
اک فقر سِکھاتا ہے صیّاد کو نخچیری
اک فقر سے کھُلتے ہیں اسرارِ جہاں گیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دِلگیری
اک فقر سے مٹّی میں خاصیّتِ اِکسیری
اک فقر ہے شبیّری، اس فقر میں ہے مِیری
میراثِ مسلمانی، سرمایۂ شبیّری!
خبر کا کوڈ : 1137644
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش