0
Sunday 26 May 2024 10:48

بحرین سے تعلقات کی بحالی

بحرین سے تعلقات کی بحالی
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ آل خلیفہ نے جمعرات کو ماسکو میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات میں کہا ہے کہ ہمیں ماضی میں ایران کے ساتھ مسائل تھے، لیکن اب مسائل نہیں ہیں، اس لیے تعلقات معمول پر لانے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس ملاقات میں روس کے صدر نے مختلف بین الاقوامی مسائل پر دونوں ممالک روس اور بحرین کے موقف کی قربت پر زور دیا۔ بحرین کے بادشاہ نے روسی صدر کو مخاطب کرکے مزید کہا ہے کہ ہم عام طور پر اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کا سوچتے ہیں اور بلا شبہ ان کی بھی یہی سوچ ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ہمارے درمیان سفارتی، تجارتی اور ثقافتی تعلقات معمول کے مطابق ہوں اور بلاشبہ یہ آپ کے ذاتی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ بحرین کے عوام اس کا خیر مقدم کریں گے۔

آل خلیفہ نے مزید کہا ہے کہ تمام ممالک کے درمیان تعلقات اچھے ہونے چاہیں۔ ہم ایران اور بحرین کے درمیان مسائل کے حل کے بارے میں بھی جانتے ہیں کہ درحقیقت کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے روسی صدر سے بحرین میں ہونے والی بین الاقوامی علاقائی امن کانفرنس کی حمایت کا مطالبہ کیا اور کہا: روس کی حمایت کے بغیر اس کانفرنس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آل خلیفہ نے اس ملاقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ اس ملاقات کا مقصد دوطرفہ شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانا اسی طرح اس دورے کا ایک اہم ترین مقصد عرب ممالک کے سربراہان کی ملاقات کے نتائج سے روسی صدر کو آگاہ کرنا ہے۔

بحرین کے بادشاہ نے مزید کہا ہے کہ بحرین میں بین الاقوامی امن کانفرنس کے سربراہی اجلاس بلانے پر مکمل اتفاق ہوا ہے اور روس وہ پہلا ملک ہے، جس سے میں نے اس کانفرنس کے لیے حمایت کی درخواست کی ہے، کیونکہ یہ کانفرنس روس کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔ ہمیں امید ہے کہ خدا کی مدد سے ہم اس کانفرنس کو بحرین میں منعقد کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب جب کہ 7 سال کے وقفے کے بعد عراق، قطر، عمان کی ثالثی اور چین کے موثر کردار کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوچکے ہیں، بحرین کی حکومت بھی سعودی عرب کی پیروی کرتے ہوئے خطے میں ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس معاہدے کی اہم بات یہ ہے کہ معاہدے کی شرائط پر عمل کیا جائے اور فریقین کے مفادات کا احترام کیا جائے۔ دونوں ممالک کے درمیان جیو پولیٹیکل فیکٹر اور خطے میں سرکردہ طاقت بننے کی کوشش کے تناظر میں کئی تضادات موجود ہیں۔ اسی طرح عالمی سیاست میں بھی ایران سعودیہ میں اختلافات موجود ہیں، جنہوں نے دونوں ملکوں کو براہ راست تصادم کی سرحد پر دھکیل دیا تھا۔ بہرحال جب تک فریقین کے درمیان ذہنی عدم اعتماد کی وجہ سے پیدا ہونے والا جغرافیائی سیاسی تنازعہ مضبوط رہے گا، اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات اور متعدد تنازعات ماضی کی طرح جاری رہیں گے۔

بلاشبہ جن ممالک کو اس معاہدے سے نقصان ہوا ہے، وہ اپنی تمام تر کوششوں کو بروے کار لائیں گے، تاکہ امن کی راہ پر روڑے اٹکائیں۔ اس تناظر میں ان دونوں ممالک کا تعاون اور دوستانہ تعامل مشرق وسطیٰ میں مشکل ہوجائے گا۔ اس نقطہ نظر سے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ علاقائی تعلقات کی تعمیر نو کے نقطہ نظر کو اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ گذشتہ سال جون میں امریکہ نے بحرین کی ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے امکان کا اعلان کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ کے امور کے لیے امریکی معاون وزیر خارجہ باربرا لیف نے کہا تھا کہ بحرین ممکنہ طور پر جلد ہی ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرے گا۔ بحرین اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات ایک عشرے سے زیادہ سے معطل ہیں۔

لیف کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا، جب اسلامی جمہوریہ کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس میں تہران اور منامہ کے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا "بحرین نے اس سلسلے میں اپنی تیاری کا اعلان کر دیا ہے اور ہم تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔" ایران اور بحرین کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے باوجود بحرین کے وزیر خارجہ (عبداللطیف الزیانی) تعزیت کے لیے تہران آئے، جبکہ دونوں ممالک کے سفارت خانے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں بند ہیں۔ 13 سال بعد بحرینی وزیر خارجہ کا تہران کا یہ پہلا دورہ ہے۔ سفر سے قبل بحرین کے بادشاہ اور ولی عہد نے سفارتی تعلقات میں کمی کے باوجود شہید رئیسی اور حسین امیر عبداللہیان کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا۔

بحرین کے وزیر خارجہ کا سابقہ ​​دورہ ایران، تہران میں ناوابستہ سربراہی اجلاس میں شرکت کے موقع پر ہوا تھا۔ یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے عروج کے موقع پر ہوا، تاہم اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات منقطع نہیں تھے۔ اس سے قبل ایران کی پارلیمنٹ کے ایک وفد نے بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کے لیے منامہ کا سفر کیا۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے باوجود ایران اور بحرین کے حکام نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی مضبوط پوزیشن نہیں لی۔ ایران-سعودی تعلقات کے معمول پر آنے کے بعد، تمام ممالک (سوڈان، جبوتی، مالدیپ اور جمہوریہ قمر/کوموروس) جنہوں نے ریاض کی حمایت میں ایران سے تعلقات منقطع کیے تھے، انہوں نے دوبارہ تعلقات قائم کر لیے ہیں اور صرف بحرین باقی ہے، اگرچہ غیر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران اور منامہ کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ثالثی کی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1137746
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش