0
Monday 27 May 2024 14:34

امریکہ اور مغرب میں اہل فلسطین کا لہو بول رہا ہے

امریکہ اور مغرب میں اہل فلسطین کا لہو بول رہا ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر انتخابی مہم پر ہیں اور مختلف ریاستوں میں خطابات کر رہے ہیں۔ ہر جگہ فلسطینی خون ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ بھرے ہال میں نوجوان باری باری کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے مستقبل کی پرواہ کیے بغیر نعرے لگاتے ہیں کہ بائیڈن تمہیں جنگ بندی کے لیے اور کتنا خون چاہیئے؟ اس نشل کشی کو روکو، کہیں اسے غزہ کا قصاب کہا جاتا ہے، کہیں سے شیم آن یو کی آوازیں آرہی ہیں۔ ایک بچی ہاتھ میں پلے کارڈ لہراتی ہے، جس پر لکھتا تھا غزہ جنگ بند کرو۔ امریکی وزیر خارجہ پریس کانفرنس کر رہا ہے، ایسے میں ایک آواز بلند ہوتی ہے، بلنکن تمہیں غزہ کے قصاب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اسے ہال سے نکالا جاتا ہے۔

جب دوسری بار پریس کانفرنس شروع کی تو ایک خاتون بول اٹھیں، یہ جنگی مجرم ہے، چالیس ہزار بے گناہ انسانوں کا خون اس کے ہاتھوں پر ہے۔ اسے نکالا جاتا ہے تو تیسری بار ایک نوجوان بچی اٹھتی ہے اور کہتی ہے، فلسطینی ہسپتالوں کے باہر سات اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں، تم جنگی مجرم ہو، تمہیں شرم آنی چاہیئے۔ ایک عورت EU کمیشن کی صدر ارسلا کی پریس کانفرنس کے شروع ہوتے ہی نعرے لگانے شروع کر دیتی ہے کہ تم لوگ چالیس ہزار فلسطینیوں کے قاتل ہو، تم جنگی مجرم ہو، تم پروپیگنڈا کرتے ہو، تم جمہوریت اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہو؟!! جنگی بندی کراو، ابھی جنگ بندی کراو۔

یہ معمولی واقعات نہیں ہیں، انسان ایک حد تک پروپیگنڈے کا شکار ہوسکتا ہے، آہستہ آہستہ پروپیگنڈے کا سحر ٹوٹنا ہے تو حقیقت کو قبول کرکے اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے ہزاروں طالب علم ایک سٹیڈیم میں جمع ہیں۔ وہاں اجتماعی نعرہ لگ رہا ہے بلکہ سوال پوچھا جا رہا ہے، ایسا سوال جو خبر بھی ہے، طنز بھی ہے۔ How many kids you killed today؟؟؟ کولمبیا یونیورسٹی کی بچیوں نے تو کمال کر دیا، جب ان کا نام ڈگری کے لیے پکارا جاتا ہے تو وہ فلسطین کا جھنڈا لیے سٹیج پر جاتی ہیں اور اسے لہرا دیتی ہیں۔ کچھ بچیاں فلسطینوں کی مظلومانہ تصاویر کو دنیا کے سامنے پیش کر دیتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس سلیقے اور وقار سے ہوتا ہے کہ ہزاروں طالب علم فلسطینیوں کی حمایت میں نعرے لگا رہے ہیں۔

ٹیکساس یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے سٹیج پر آتے ہی فلسطینی پرچم نکالا اور اسے لے کر کھڑا ہوگیا۔ پورا ہال اہل فلسطین کی حمایت پر مبنی نعروں سے گونجتا رہا۔ یونیورسٹی آف کیلوفورنیا کی سیاہ فام پروفیسر کو پولیس توہین کرتے ہوئے گرفتار کرتی ہے اور وہ چیخ رہی ہے کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے۔ ہماری یونیورسٹی کا برا سربراہ ہے، جو اسرائیل کو اربوں ڈالر دے رہا ہے۔ ہم جمہوریت میں نسل کشی پر مبنی پالیسی کے خلاف ہیں۔ آئرلینڈ کے نئے آنے والے وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بند کرو، کوئی آئرش قحط کو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ جاری رہنے سے انسانیت ختم ہو جائے گا۔ بدلے کی آگ امن نہیں آنے دے گی۔ ہمیں دو ریاستی حل کو لانا ہے اور ہم فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرتے ہیں۔ ہزاروں لوگ تالیاں بجاتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے ان کا درینہ مطالبہ ریاست تسلیم کر لیا گیا ہو۔

ایسا نہیں ہے کہ اہل فلسطین کے حق میں صرف  مسلمان بول رہے ہوں، طالبعلموں کی اکثریت کا تعلق غیر مسلم کمیونٹی سے ہے۔ آپ کے لیے شائد حیرانگی کا باعث ہو، گرینڈ سنٹرل سٹیشن پر ہزاروں یہودی جمع ہوتے ہیں اور وہ سب مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگ بندی کی جائے۔ ایک یہودی خاتون جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اور فلسطینیوں کی  مشکلات کو بیان کرتے ہوئے رو پڑتی ہے۔ فٹ بال کے میدان اہل فلسطین کی حمایت میں نعروں سے گونج رہے ہیں۔ پولیس اور ریاستی اداروں کے لوگ چودہ پندرہ سال کی بچیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور وہ فلسطین کا جھنڈا بلند کیے پورے سٹیڈیم کا چکر لگا رہے ہیں۔

ناروے کے وزیراعظم یوناس (یونس) Jonas Gahr Støre نے گذشتہ روز وزیر خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس میں "فلسطینی ریاست" تسلیم کرنے کے حکومتی فیصلہ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا "حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ناروے فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ جنگ کے درمیان میں، ہزاروں کی تعداد میں ہلاک اور زخمی ہونے کے ساتھ، ہمیں صرف وہی چیز زندہ رکھ سکتی ہے، جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے ایک محفوظ گھر فراہم کرسکتی ہے، دو ریاستیں جو ایک دوسرے کے ساتھ امن کے ساتھ رہ سکتی ہیں۔ یہ اعلان 28 مئی تک متوقع ہے، نیز ناروے کے علاوہ اسپین اور آئرش حکومتوں نے بھی فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

یہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے، اس نے امریکی اور یورپی ریاستی بیانیے کو دفن کر دیا ہے۔ اب کانووکیشن میں باقاعدہ سکیورٹی اداروں کے افراد کھڑے ہیں، مگر کچھ کر نہین سکتے۔ ٹی وی پر ڈیبیٹس ہو رہی ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ پریس ٹی وی اور اب کئی جگہوں پر الجزیرہ پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پھر بھی حقائق لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔ صیہونی لابی کا ایک نمائندہ کہہ رہا تھا کہ کالجز اور یونیورسٹیز ہمارے مخالفین سے بھر گئی ہیں، صیہونی مخالف بیانیہ بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ طالب علم بڑے منظم اور مرتب انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔

اسرائیلی افواج انسانیت سے نکل چکی ہیں، رات کی اسرائیلی بمباری میں بھی دسیوں فلسطینیوں بچے اور خواتین شہید ہوگئی ہیں۔ یہ خواتین اور بچے اسرائیل کی طرف سے محفوظ قرار دیئے گئے علاقے میں اقوام متحدہ کے دیئے گئے خیموں میں رہ رہے تھے۔ یہ اسرائیل کی شکست خوردگی ہے۔ کل ہی فلسطینی مجاہدین نے تل ابیت پر کامیاب راکٹ حملے کیے ہیں۔ اسرائیلی عوام پوچھ رہے ہیں کہ اتنے قتل عام اور دنیا میں بدنامی کے بعد بھی اگر حماس حملے کر رہی ہے تو پھر ہماری فوج نے کیا کیا ہے۔؟ کل ہی کئی  اسرائیلی فوجیوں کے مرنے اور کئی کے گرفتار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

رات کے رفع پر اسرائیلی حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب بین الاقوامی عدالت انصاف نے اسرائیل پر پابندی عائد کی ہے کہ وہ رفحہ پر حملے بند کر دے۔ اسرائیل نے دسیوں حملے کرکے بین الاقوامی عدالت انصاف کو بتایا ہے کہ ہم دنیا کے کسی قاعدے قانون کو نہیں مانتے۔ اسرائیل کو بھی نطر آرہا ہے کہ اس کی حمایت کے اصل مرکز یعنی امریکی اور یورپ میں نوجوان نسل اس کے خلاف ہوچکی ہے اور یہ شہداء کے لہو کی برکت سے ہی ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1137869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش