0
Thursday 30 Jan 2014 13:55

طالبان کا داخلی انتشار (حصہ دوم)

طالبان کا داخلی انتشار (حصہ دوم)
تحریر: زاہد مرتضی
(آخری قسط)
مئی 2013ء میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے تحریک طالبان کے نائب امیر ولی الرحمن محسود اور ٹی ٹی پی کے امیر حکیم اللہ محسود کے وفاداروں میں پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی میں بھتے کی وصولی کے لئے ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔ اس سے بھی پہلے 2009ء میں بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے موقع پر بھی ان دونوں شدت پسند رہنماؤں کے درمیان ٹی ٹی پی کی سربراہی کے انتخاب سے ہی کشیدگی چلی آرہی تھی، ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ حکیم اللہ محسود کے حامیوں نے ولی الرحمن محسود کے ٹھکانے سے متعلق نشاندہی کی تھی، حتی حکیم اللہ محسود بھی تحریک طالبان سے وابستہ گروپ روشن وزیر کی طرف سے فراہم کی گئی انٹیلی جنس اطلاعات کی بنیاد پر ہٹ ہوا۔ 20 نومبر 2013ء کو شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان کے ایک باغی دھڑے سے تعلق رکھنے والے خودکش بمبار نے میر علی میں دھماکہ کرکے 7 طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا، ان ہلاک ہونیوالے طالبان جنگجوؤں میں سیف الدین بھی شامل تھا جو کہ ولی الرحمن محسود کے جانشین خان سید سجناں کا انتہائی قریبی اور وفادار تھا، قبل ازیں دونوں گروپوں میں اختلافات اس وقت واضح طور پر سامنے آچکے تھے جب خان سید سجناں کو ولی الرحمن محسود کی ہلاکت کے بعد اسکا جانشین نامزد کر دیا گیا تھا۔ اس نامزدگی کیلئے گروپ نے حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں قائم طالبان شوریٰ سے اجازت بھی نہیں لی تھی۔ مزید برآں یہ اختلافات اس وقت مزید وسعت اختیار کرتے چلے گئے جب غیر محسود فضل اللہ کو خان سید سجناں پر فوقیت دیتے ہوئے تحریک طالبان کا نیا امیر منتخب کر لیا گیا۔

حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور ملا فضل اللہ کے تحریک طالبان پاکستان کا امیر بننے کیساتھ ہی تنظیم کے کلیدی عہدوں اور مالی وسائل کے نیٹ ورک پر قبضہ کی جو جنگ شروع ہوئی تھی، اب وہ اپنے انجام کو پہنچنے کو ہے، چند دن قبل کراچی میں ایس ایس پی آپریشن چوہدری اسلم کی خودکش حملے میں شہادت بھی ٹی ٹی پی میں داخلی کشمکش کا شاخسانہ بتایا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی ابھی تک کراچی میں تخریبی سرگرمیوں میں شدت لانے سے محض اسلئے احتراز کرتی رہی کہ شہر پر ایم کیو ایم کی مضبوط گرفت ہے اور وہ اسوقت براہ راست ایم کیو ایم سے ٹکراؤ نہیں چاہتی تھی، اس پالیسی کا بنیادی سبب یہ تھا کہ ٹی ٹی پی کی مرکزی قیادت محسود قبیلے کے پاس تھی، جو نہ صرف کراچی کی تجارتی سرگرمیوں کا ایک بڑا شراکت دار ہے بلکہ شہر کے امن سے اسکے معاشی مفادات بھی وابستہ ہیں، علاوہ ازیں شہر کی گنجان پشتون آبادیاں ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرتی ہیں، جہاں اسکے لوگ کچھ وقت کیلئے سستاتے ہیں اور پھر واپس قبائلی علاقوں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
 
کراچی ٹی ٹی پی کیلئے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی بھی ہے، تنظیم کو ملنے والے مالی وسائل کا ایک معتدبہ حصہ اسی شہر سے آتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کراچی سمیت پورے سندھ میں ہونیوالے فسادات میں کراچی میں بالخصوص محسود تاجروں کا بہت زیادہ معاشی نقصان ہوا کیونکہ پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن کے قتل کا الزام بیت اللہ محسود پر لگایا گیا تھا، لہذا فطری طور پر مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں پشتونوں کے کاروبار کو زیادہ نقصان پہنچایا گیا، کراچی میں مقیم پشتونوں نے اس معاشی نقصان کا ذمہ دار تحریک طالبان کو ذمہ دار قرار دیا اور اس کی در پردہ حمایت میں کمی کر دی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب بیت اللہ محسود نے وعدہ کیا کہ آئندہ کوئی ایسی کارروائی نہیں کرینگے جس کے ردعمل میں کراچی میں محسود قبائل کے کاروبار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، بیت اللہ محسود اپنی زندگی میں اس وعدے پر قائم رہا جبکہ حکیم اللہ نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ کراچی میں ایس ایس پی چوہدری اسلم کے قتل کی ذمہ داری تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کی تھی، احسان اللہ احسان کا تعلق ٹی ٹی پی مہمند گروپ سے ہے، اس نے اس کارروائی کو مہمند طالبان کی براہ راست کارروائی قرار دیا، پاکستانی طالبان کا یہ گروپ حکومت سے مذاکرات کا مخالف اور فضل اللہ کا حمایتی تصور کیا جاتا ہے، چوہدری اسلم کا قتل پاکستان حکومت اور سکیورٹی اداروں کو یہ واضح پیغام تھا کہ فضل اللہ گروپ جنگ کا دائرہ کار کراچی تک پھیلا رہا ہے، علاوہ ازیں کراچی میں محسود قبائل کو بھی یہ پیغام دیا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی قیادت کے سامنے سرتسلیم خم کر لیں، کراچی میں جاری حالیہ دنوں میں یہ کشمکش اس بات کا بین ثبوت ہے کہ طالبان کے درمیان انتشار کا سلسلہ قبائلی علاقوں تک محدود نہیں بلکہ اسکا پھیلاؤ میں کافی وسعت اختیار کرچکا ہے۔ 

حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد جب ٹی ٹی پی کے نئے امیر کا انتخاب عمل میں آیا تو فضل اللہ کی حکومت کیساتھ نہ صرف مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ سکی بلکہ کراچی میں محسودوں کی ٹی ٹی پی پر تنظیمی بالادستی کو بھی چیلنج کر دیا گیا، سبھی جانتے ہیں کہ سوات کے رہائشی ملا فضل اللہ پچھلے چار سال سے افغانستان کے علاقے کنڑ میں افغان انٹیلی جنس کے زیر سایہ رہائش پذیر تھا۔ ٹی ٹی پی کے نئے امیر کی شخصیت کا یہ پہلو ولی الرحمن گروپ کے وفادار، طالبان جنگجوؤں اور درمیانے درجے کے کمانڈرز کے درمیان کافی ناراضگی کیساتھ زیر بحث رہتا ہے۔ تحریک طالبان کے نئے امیر نے اپنے نائب کیلئے شیخ خالد حقانی جو صوابی کا رہنے والا نان محسود ہے، کو تنظیم کی عبوری شوریٰ کا سربراہ نامزد کر دیا، شیخ خالد حقانی کو اس عہدے پر قاری عصمت اللہ کے متبادل کے طور پر سامنے لایا گیا ہے۔

قاری عصمت اللہ تحریک طالبان پنجاب کا امیر تھا، جس نے نواز حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا خیرمقدم کیا تو اس پاداش میں ٹی ٹی پی کے امیر حکیم اللہ محسود نے اسے اسکے عہدے سے سبکدوش کر دیا تھا، قاری عصمت اللہ نے ٹی ٹی پی قیادت کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جو تقریباً تمام پرنٹ میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا۔ یہ صورتحال ٹی ٹی پی کے اندر موجود ایک بہت بڑے اختلاف اور تنظیمی بحران کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس اختلافات کے سامنے آنے کے بعد قاری عصمت اللہ تو مزید زیر زمین چلا گیا اور آج تک اسکی طرف سے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی، لیکن اس قضیئے کے جنم لینے کے بعد تحریک طالبان پنجاب بھی نئے امیر کیلئے نامزدگی نہیں کرسکی ہے۔
 
بہرحال قاری عصمت اللہ معاویہ کی طرف سے مذاکرات کی حکومتی پیشکش کا مثبت جواب دینا جہاں ٹی ٹی پی میں اختلاف کا عندیہ دے گیا وہاں کئی ایک سوال بھی اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے، یہ تاثر بڑا واضح ہوگیا ہے کہ تحریک طالبان میں کئی ایک گروپ ہیں جو اپنے کنٹرول اینڈ کمانڈر سسٹم وضع کئے ہوئے ہیں، مثلاً تحریک طالبان پنجاب، تحریک طالبان مہمند ایجنسی، تحریک طالبان اورکزئی ایجنسی، تحریک طالبان کرم ایجنسی، تحریک طالبان شمالی و جنوبی وزیرستان، تحریک طالبان کراچی و دیگر شامل ہیں، ان میں کتنے گروپ حکومت سے مذاکرات کے حامی شمار کئے جاتے ہیں، اس بات کے آشکار ہونے میں اگرچہ کچھ وقت درکار ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ دن قریب ہیں جب طالبان کے اندر کی توڑ پھوڑ پوری طرح واضح ہو جائے گی۔

جب راقم یہ سطور تحریر کر رہا تھا تو حکومت اور طالبان کے درمیان آپریشن یا مذاکرات پر پورے ملک میں ایک بحث زور و شور سے جاری ہے، مذاکرات حساس شکل اختیار کرگئے اس معاملے پر قوم کو آپریشن کے حامی اور مذاکرات کے حامی دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، خود حکومت اور سکیورٹی ادارے بھی کنفیوژن کا شکار نظر آ رہے ہیں، قوم و ملک کو اس مشکل سے باہر نکالنے کیلئے کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہو رہی، کیونکہ حکمرانوں کی اس معاملے پر پیشرفت اتنی سست اور رفتار اتنی دھیمی ہے کہ اس نے برسر اقتدار اس طبقے کے دہشتگردی کیخلاف لڑنے کے عزم پر بڑے سوالیہ نشان ثبت کر دیئے ہیں، حالانکہ پچھلے دنوں طالبان کی طرف سے فورسز اور معصوم شہریوں پر کئے گئے وحشتناک حملوں کے بعد عوامی رائے عامہ کو بہت آسانی کیساتھ طالبان کیخلاف استوار کیا جاسکتا تھا، ملک کا ہر محب وطن شہری اس بات کا شدید خواہشمند تھا کہ اب بہت ہوچکا، طالبان کیخلاف آپریشن کو آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کا مرحلہ آن پہنچا، لہذا حکومت یہ کڑوا گھونٹ بھر ہی لے، لیکن حکمرانوں کے کیا کہنے کہ گذشتہ روز ہی چھ ماہ کے بعد پارلیمنٹ میں قدم رنجہ فرمانے والے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے پالیسی خطاب کے دوران امن کو آخری موقع قرار دیتے ہوئے طالبان سے مذاکرات کے آپشن کو بطور ہتھیار آزمانے کا اعلان کر دیا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ایک چار رکنی کمیٹی قائم کر دی جس میں دو روز قبل نامزد کئے گئے ان کے وفاقی مشیر عرفان صدیقی، سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی، سابق سفارتکار رستم شاہ مہمند اور میجر (ر) عامر شامل ہیں۔

حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ اس انتہائی حساس ایشو کے حل کیلئے بنائی گئی کمیٹی کے ایک رکن رستم شاہ مہمند نے اپنا نام کمیٹی کے ایک رکن کی حیثیت سے سامنے آنے کے فوری بعد ایک چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ابھی تک حکومت نے ان سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ سب جانتے ہیں کہ جہاں حکومت کے سرخیل کی تیاری کا یہ عالم ہو تو نتائج کی عملی تصویر کے تمام رنگ واضح ہونے کے بارے میں رائے قائم کرنا کتنا محال ہوسکتا ہے، حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہے ہی نہیں۔ آخری اطلاعات آنے تک جب نواز شریف نے طالبان سے مذاکرات کو راہ حل قرار دینے کا اعلان کیا تو ایک بار پھر تحریک طالبان پنجاب کے امیر قاری عصمت اللہ معاویہ نے وزیراعظم کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے بیان دیا کہ ہم تحریک طالبان کا حصہ ہیں لیکن اپنے فیصلے خود کرتے ہیں، کیا پنجابی طالبان کے اس واضح اظہار سے یہ تصور کیا جائے کہ حکومت تحریک طالبان میں نقب لگانے میں کامیاب ہوچکی ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 346523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش