10
0
Sunday 27 Apr 2014 22:36

تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ (1)

تنظیم کی حیثیت پر ایک نگاہ (1)
تحریر: حسن عسکری

ہمارا عقیدہ ہے کہ شریعت مقدس اسلام کہ جو پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہوئی اس کے اندر معاشرے کی تمام اجتماعی، انفرادی، عقیدتی، اخلاقی اور حقوقی ضروریات کا جواب موجود ہے اور یہی اسلام و قرآن مسلمانوں کو ان کی ایک پہچان، شناخت اور تشخص دیتا ہے کہ جس کو امت کہا گیا ہے اور امت و امام کے درمیان موجود رشتے کو امامت کہا جاتا ہے اور امام و امت کے درمیان اس رابطے سے ہٹ کر کسی قسم کا ناطہ جوڑنے کو جاہلیت سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر ایک انسانی معاشرے کے انفرادی اور اجتماعی روابط پر الہی قوانین کارفرما ہوں تو اس سے نظام ِ امام و امت وجود میں آتا ہے۔

دینِ اسلام  شروع سے ہی اپنی حقانیت و عقلانیت کی وجہ سے بڑی تیزی اور عمق سے پھیلا اور جاہلانہ اصولِ روابط پر خط ِبطلان کھینچا اور روابط کی بنیاد امام و امت پر رکھی کہ یہ دشمنانِ اسلام کے لیے بہت اذیت کا باعث بنا تو انہوں نے اسلام کے خلاف ہر قسم کا ہتھکنڈا استعمال کرنے کی ٹھان لی۔ جب ظاہری طور پر کامیابی حاصل نہیں کر سکے تو اسلام و اسلامی مقدسات کے لبادے میں آ کر اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہو گئے اور اسلام بمقابلہ اسلام اور قرآن بمقابلہ قرآن اور مسجد بمقابلہ مسجد کا خطرناک وسیلہ اختیار کیا اور افسوس کہ کچھ سادہ لوح اور بصیرت سے عاری مسلمان بھی ان کے چکر میں آ گئے اور مسلم امہ میں تفرقے کا موجب بنے اور مسجد محمدی اور مسجد ضرار يا قرآن ناطق اور قرآن صامت کے درميان فرق نہ كرسكے اور ايمان  اپنے ہاتھوں سے دھو بیٹھے۔ اسی قسم کے حربے کا سامنا اسلام کے نظام ولایت و امامت کو کرنا پڑا اور صدر اسلام سے لے کر آج تک ولائی نظام کے مقابلے میں مختلف نظاموں کو لایا گیا۔ بنی اسرائیل نے خدا کے مقابلے میں بچھڑا  لایا تھا۔ آج خدائی نظام کے مقابلے میں بچھڑے لائے جا رہے  ہیں۔ زمانہ بدلنے سے صرف ان کی شکلیں بدل گئی ہیں۔ ولایت کے مقابلے میں جمہوریت، خانقاہیت، قبائلیت، قومیت، فرقہ گرائی، تنظیم وغیره  آج کے بچھڑے ہیں۔ الہی نظام وہی ولائی و محمدی نظام ہے۔

لہذا امتِ مسلمہ کو آفات سے بچنا چاہیئے اور دشمن کے ہتھکنڈوں پر گہری نظر رکھنی چاہیئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر محسوس طریقے سے دشمن کے ناپاک افکار ہمارے ذہنوں میں سرایت کر جائیں اور ہم محمدی اسلام و انقلاب کے حقیقی راہ و روش کو گم کربیٹھیں اور امت جیسے قرآنی و الہی سانچے میں ڈھلنے کی بجائے پارٹیوں اور حزبوں میں اپنی نجات ڈھونڈتے پھریں در حالیکہ  دنیوی و اخروی نجات کا ضامن ولائی نظام ہے۔ ان مسلمان اور مومن موتیوں  کو ایک تسبیح میں پرونے کے لیے حبل اللہ کی ضرورت ہے اور وہ نظام ِ امامت ہے۔ حزبی اور پارٹی بنیادوں پر یہ متفرق و منتشر تو ہو سکتے ہیں متحد و یکجا نہیں ہو سکتے۔ قرآن مجید بھی مومنین کو خبردار کرتا ہے  کہ ما انزل اللہ  چیزوں کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی طر ف جانا  طاغوت پرستی کے زمرے آتا ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلىَ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَ مَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلىَ الطَّغُوتِ وَ قَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَ يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَالَا  بَعِيدًا۔ سورہ مبارکہ النساء(60)۔

کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جو گمان  کرتے ہیں کہ وہ  آپ پر اور آپ سے پہلے نازل شدہ  پر ایمان لے آئے  ہیں اور چاہتے ہیں کہ  طاغوتی  حکومت  قبول  کرلیں  حالانکہ ان کو اس (طاغوتی حکومت) کے انکار کا حکم دیا گیا تھا۔ اور (اس طرح ) شیطان ان کو گہری گمراہی  میں لے جانا چاہتا ہے۔ اسی طرح  سورہ مائدہ کی درج ذیل آیات میں ماانزل اللہ کے مطابق  فیصلے نہ کرنے والوں کو کافر، فاسق اور ظالم  کہا گیا ہے۔ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون۔  (مائدہ،44)۔ جو  خدا کے نازل کردہ کے مطابق حکم  و حکومت نہیں کرتے وہی لوگ کافر ہیں۔ و من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون۔ (مائدہ،45۔) جو  خدا کے نازل کردہ کے مطابق حکم  و حکومت نہیں کرتے وہی لوگ ظالم  ہیں۔ و من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون۔ (مائدہ،47۔) جو  خدا کے نازل کردہ کے مطابق حکم  و حکومت نہیں کرتے وہی لوگ فاسق ہیں۔ ما انزل اللہ  یعنی خداوند کا نازل کردہ عوام کے ساتھ رابطے کا نظام  انبیاء  و آئمہ اطہار ؑ معین کرگئے ہیں اور وہ امام و امت کا نظام ہے۔ اسی طرح قرآن مجید نے تمام رسولوں کو امت واحدہ کی عنایت کی خبر دینے کے بعد اسے تنظیموں میں بٹنے سے خبردار کیا ہے۔ و ان ھذہ امتکم امہ واحدہ و انا ربکم فاتقون۔ فتقطعوا امرھم بینھم زبرا کل حزب بما لدیھم فرحون ۔ فذرھم فی غمرتھم حتی حین۔ (مومنون. 52 ،54)۔ 
اور بے شک یہ آپ کی امت “امت واحدہ” ہے اور میں آپ کا رب ہوں پس مجھ سے ڈریں لیکن انبیاء کے پیروان تفرقہ  اور دھڑا بازی  کی طرف چلے گئے  اور ہر دھڑا اور  گروپ  جو اس کے پاس ہے اس پر  خوش ہے۔ 

قرآن مجيد ميں حزب اللہ امت کے معنی ميں بيان ہوا ہے اس کی چھ خصوصيات بيان کی ہيں:
1۔ خدا اور قيامت پر يقين۔
2۔ دشمنان خدا و رسول سے دوستي نہ کرنا چاہے ان کے رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں۔
3۔ محکم ايمان۔
4۔ الہی تاييد۔
5۔ ابدی بہشت۔
6۔ خالق و مخلوق کی دو طرفہ رضایت۔
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا، علماء شيعتنا مرابطون فی ثغر۔
ہمارے شیعوں کے علماء ان کی ہر قسم کی سرحدوں کے  محافظ و  مرابط ہیں۔ (احتجاج طبرسى ج ،2 ص155۔)
یعنی شیعوں کو ہر مسئلے کے حل  کے لیے علماء کے پاس آنا چاہیئے۔ شیعیان کے لیے  مرجعیت و مرکزیت سلسلہ جلیلہ علماء و روحانیت ہے۔ یہ سلسلہ امام ِجماعت کی ابتدائی سطح سے بڑھتے ہوئے  امامِ جمعہ کے عظیم منصب تک پہنچتا ہے اور پھر اس سے بڑی سطح امامت عید فطر و والضحیٰ ہے۔ اسی لیے نماز عید قائم کرانا امام و رہبر اور حاکمِ الہی کا وظیفہ ہے۔ اور امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں۔ “جب بھی عید کا دن آتا ہے ہمارے غم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔”  اس لیے کہ عید پڑھانے کا منصب اور عہدہ امام  و حاکم  کا ہوتا ہے اور اس وقت طاغوت اس عہدے پر پابرجا ہے۔ پس علماء جو آئمہ اطہار ؑ کے نائب ہیں اپنے اسی امامت کے عنوان اور عہدے کے پابند رہیں اور اس کے شرف کا خیال رکھیں اور احساس کمتری کا شکار نہ ہوں کہ اپنے آپ کو ڈاکٹر یا پارٹی لیڈر کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگیں۔  

خطبہ فدک میں سیدہ زہرآء سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں:
طاعتنا نظاما للملۃ و امامتنا امانا من الفرقۃ۔
"ہماری اطاعت امت کے لیے نظام اور ہماری امامت تفرقہ سے نجات ہے"۔ یعنی اگر کوئی ملت اپنے اندر نظم دینا چاہتی ہے اور خود کو ایک معاشرے اور امت میں ڈھالنا چاہتی ہے اور امت کی بقا و استمرار کے لیے تفرقے جیسی دیگر آفات سے محفوظ رہنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ ہمارے نظام امامت و ولایت میں داخل ہو جائے۔

اسی نظام کے بارے میں امام علی رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
امامت انبیاء کا مقام اور اوصیاء کی میراث ہے۔ امامت خدا، رسول، امیرالمومنین اور حسن و حسین کا ورثہ ہے۔ امامت دین کی زمام، مسلمانوں کا نظام اور مومنین کے لیے عزت و سربلندی کا موجب ہے۔ امامت اسلام کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہے۔ (بحار الانوار، ج25، ص 122۔)
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 373721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

برادر عزیز آپکا مقالہ علمی یے ، لیکن یہ بات آپکے علم میں ہوگی کہ شیہد باقرالصدر، رہبر معظم خود ان لوگوں میں سے ہیں جو حزب کے حامی ہیں اور اپیے زمانے میں پارٹی "حزب الدعوہ اور حزب جمہوری" کے بانیوں میں سے تھے۔
Pakistan
Hizbullah lubnan bhi to aik tanzeem hai aor Rehbar e Muazam bhi tanzeem me moujood rahay hain aor tanzeemon k zabardast hami hain.
سلام۔ میرا خیال ہے کہ ایک عالم دین نے پاکستان میں یہ بحث چھیڑی لیکن خود ہی تحریک بیداری امت مصطفی کے پلیٹ فارم سے اپنی سرگرمیاں شروع کیں۔ یعنی ایک الگ گروہ بنانے کی ضرورت انہیں بھی ہوئی۔ یہ بہت سامنے کی بات ہے کہ اسلامی جمہوریت کا آغاز بھی مولا علی علیہ السلام کے دور حکومت سے ہوا۔ امام تو وہ پہلے بھی تھے لیکن جب امت کی واضح اکثریت نے انہیں حکمرانی یعنی خلافت کے لئے چنا تو وہ پہلے عوامی منتخب اسلامی حکمران قرار پائے۔ یہی پاپولر ڈیموکریسی کہلاتی ہے کہ جسے عوام چنیں۔ عوامی رائے کا بھی اپنی جگہ ایک احترام ہے تاوقتیکہ وہ شرع مقدس اسلام سے متصادم نہ ہوجائے۔ یہ عوام ہی ہیں جب وہ ساتھ دیتے ہیں تو قیادت کامیاب ہوتی ہے ورنہ شیر خدا بھی پچیس سال بیدار خاموشی میں گذاردیتے ہیں۔ جب حکومت اسلامی قائم ہوجاتی ہے تو پھر امت کے سرکردہ افراد ترجیحات اور حکمت عملی میں اختلاف نظر کے باعث الگ الگ گروہ بنالیتے ہیں جیسا کہ اسلامی ایران میں ہوتا ہے۔ شہید بہشتی سے زیادہ اسلام جاننے والے جو لوگ پاکستان میں پائے حاتے ہیں وہ دیکھ لیں کہ حزب جمہوری اسلامی میں ایرانی آئین و قانون کی تدوین کے سب سے بڑے کردار بہشتی بھی شامل تھے۔ باقر الصدر کے بعد باقر الحکیم بھی اپنی الگ جماعت رکھتے تھے۔ خمینی کی زندگی کے حاصل، خمینی بت شکن کی نظر میں تنہا شہید بہشتی پوری امت تھے، مان لیجیے کہ ان سے بڑے نہیں ہیں آپ۔
سلام۔ جناب عالی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں بھی اور ان کے بعد بھی شیعان علی ع نامی گروہ موجود تھا۔ اس سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت نوح علیہ السلام کا شیعہ قرار دیا گیا۔ امت کے علاوہ بھی اصطلاحات موجود رہی ہیں۔ خاص طور پر شیعان علی ع۔ یہ اصطلاحات امت کے مقابلے میں نہیں لیکن اگر کوئی ان کو ایسا سمجھے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔
یہ علمی کیا ہوتا ہے؟
برادر محترم، صدر اسلام سے حزب یا آج کی زبان میں تنظیموں کا وجود رہا ہے، اپنے نظریات کے اظہار کے لئے ایک پلیٹ فارم ضروری ہے۔
دوستان سے گزارش ہے کالم نگار کی بات کامل ہوجائے تو حتماً استفاده کریں گے۔
Iran, Islamic Republic of
برادر سمجھنے کی کوشش کریں، یہ جو آپ لکھ رہے ہیں صرف آپ نہیں لکھ رہے بلکہ ایک تنظیم ہے جو دوسری تنظیموں کے وجود کو ختم کرنا چاہتی ہے، وہ لکھوا رہی ہے۔
سلام
میرے خیال میں کالم کی ضرورت نہ تھی، غیر منطقی، مبهم کالم اور عوام میں ابهام پیدا کرنے کے لیے مفید ہے۔
اسلام ٹائمز: معرفت ولایت ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم نے کہا کہ اگر ہم ولایت سے متصل نہ رہے تو ہمارا شمار حزب شیطان سے ہوگا۔ ولایت فقیہ کا انکار کرنیوالوں کو ولایت زرداری و نواز شریف کا تابع فرمان ہی رہنا پڑیگا۔
ہماری پیشکش