0
Wednesday 6 Oct 2010 12:59

پاکستان کی سالمیت کیخلاف امریکی ڈرون حملے

پاکستان کی سالمیت کیخلاف امریکی ڈرون حملے
خالد ایچ لودھی
پاکستان دنیا کے نقشے پر وہ واحد ملک ہے جو کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بھی ہے اور پھر امریکی ڈرون حملوں کا شکار بھی ہو رہا ہے۔پاکستان کی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں سے بیگناہ قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں،اب پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر نیٹو افواج کے حملے ہونے کی بھی شنید ہے،جن کو دفاعی مواصلاتی غلطی کی بناء پر رونما ہونے والے واقعات سے تعبیر کیا گیا۔
پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کی اجازت باضابطہ طور پر سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے سابق امریکی صدر جونیئر جارج بش کیساتھ اس ملاقات میں دی تھی جب جنرل پرویز مشرف جون 2003ء میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام پر امریکی صدر جونیئر جارج بش کے ذاتی مہمان کے طور پر وہاں قیام پذیر تھے۔کیمپ ڈیوڈ میں دونوں صدور کے مابین اور کن امور پر بات چیت ہوئی تھی وہ ابھی تک خفیہ راز ہے،مگر پھر بھی بعض امریکی صحافیوں کے مطابق اس ملاقات میں سرزمین پاکستان امریکی مفادات کیلئے استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی تھی اور پھر بلوچستان میں کوئٹہ کے قریب امریکی فوجی اڈہ مکمل طور پر آپریشنل پوزیشن میں قائم کیا گیا اور جو کہ ابھی تک امریکی افواج اور سی آئی اے کی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے۔اسکے بعد مختلف اوقات میں امریکی سی آئی اے کے بعض اہلکاروں کو پاکستان آنے کی غرض سے ویزے بھی جاری کروائے جاتے رہے۔اس ضمن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا اہم کردار بھی رہا ہے۔
امریکی ڈرون حملوں کی سرزمین پاکستان پر اجازت اور ملک کے اندر امریکی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کو خفیہ کارروائیاں کرنے کے معاہدے کی تجویز خود صدر آصف زرداری نے اپنا عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد باضابطہ طور پر دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انہیں پاکستان میں ہونیوالے ڈرون حملوں سے ہونیوالی اتفاقیہ ہلاکتوں اور نقصان سے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں،کیونکہ مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی‘‘۔یہ الفاظ امریکی سینئر صحافی بوب ووڈ ورڈ نے اپنی تازہ کتاب ’’اوباما کی جنگ‘‘ "OBAMA' s WARS" کے صفحہ نمبر 27 پر کوٹ کئے ہیں۔یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ سرزمین پاکستان پر کوئٹہ کے علاوہ دیگر حصوں میں بھی غیر اعلانیہ طور پر امریکی فوجی اڈے کام کر رہے ہیں۔افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی فوجی کارروائیاں انہی اڈوں کے ذریعے عمل میں آتی ہیں۔ان حالات میں کیا پاکستان ایک خودمختار اور آزاد مملکت تصور کیا جا سکتا ہے؟ ملک میں اس وقت جمہوری حکومت برسراقتدار ہے اور عوامی نمائندے عوامی نمائندگی کا دعویٰ بھی کرتے ہیں،لیکن پارلیمنٹ کے کسی بھی فورم پر باضابطہ طور پر امریکی فوجی اڈوں اور سرزمین پاکستان پر امریکی دہشت گردی کے خلاف آواز نہیں اٹھائی جاتی۔
حکومت،اسکی اتحادی جماعتیں اور پھر اپوزیشن کا کردار امریکہ کے بارے میں سخت سردمہری کا شکار ہے۔امریکی پالیسیوں کے سائے تلے پاکستان کی خارجہ پالیسی پوری قوم کیلئے باعث تشویش ہے۔کیوبا کی مثال موجود ہے۔کیا امریکہ اس ملک پر اپنا تسلط قائم کر سکتا ہے۔فیڈرل کاسترو عرصۂ دراز سے امریکی سامراجیت کا مقابلہ کرتے چلے آ رہے ہیں،انہوں نے امریکی امداد ٹھکرا کر اپنا قومی تشخص اور خودمختاری برقرار رکھی ہوئی ہے۔
افغانستان کی سرزمین اب بھارتی خفیہ ایجنسی را کیلئے بھی استعمال ہو رہی ہے،جو کہ صرف اور صرف پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کیلئے ہے۔افغان صدر حامد کرزئی کی بھارت دوستی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،ان تمام عوامل میں امریکی حکمت عملی کا بھی عمل دخل ہے۔
ہمیشہ امریکی انتظامیہ پاکستان،افغانستان اور بھارت سے متعلق اپنی سیاسی حکمت عملی میں مقامی سیاسی قیادتوں کی عوام میں مقبولیت کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیاں اس خطے کیلئے مرتب کرتی ہے،لیکن امریکی سی آئی اے اور دیگر دفاعی ادارے اپنی ترجیحات کسی اور ہی حکمت عملی کے تحت وضع کرتے ہیں۔گذشتہ ادوار میں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اور اب صدر آصف علی زرداری اور جنرل اشفاق پرویز کیانی فی الحال امریکی گڈ بکس میں ہیں اور اسی پالیسی کے تحت سرزمین پاکستان کبھی امریکی ڈرون حملوں اور کبھی نیٹو افواج کے ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ کی زد میں رہتی ہے۔اسکے علاوہ یہ امر بھی اب کوئی پوشیدہ نہیں رہا کہ یہاں پاکستان میں مملکت پاکستان کی مخالف قوتوں کو سی آئی اے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مالی معاونت اور درپردہ سرپرستی بھی حاصل ہے،جس کے تحت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں،ٹارگٹ کلنگ اور اندرون ملک امن عامہ کی روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال،یہ سب منظم منصوبہ بندی ہے،جو کہ ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔چونکہ امریکہ اب اس خطے میں اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے،امریکی پالیسیوں نے پاکستان کی پختون بیلٹ اور ملک کے دیگر حساس علاقوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے،جس کی بڑی واضح مثال شہر کراچی کا امن ہے،جو کہ برباد ہو چکا ہے۔ ان تمام حالات کے تناظر میں پاکستان کے اندر کسی بھی سیاسی قیادت کو قدم جمانے کی مہلت نہیں مل رہی یا پھر اس طرح کا ماحول پیدا کیا جا چکا ہے کہ اب پاکستان میں ہمیشہ ہی غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہے۔امریکہ اپنی ناکام حکمت عملی جو کہ افغانستان میں آزما چکا ہے اس پر دم ڈالنے اور اس خطے میں طویل عرصے تک اپنے قدم جمانے کیلئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔حیران کن امر یہ ہے کہ سرزمین پاکستان پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی قیادتوں نے بھی امریکی خوشنودی کی خاطر امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کو رعایتیں فراہم کر رکھی ہیں اور ان کی سرگرمیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔اب یہ حقیقت بھی بڑی واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ افغانستان میں مکمل طور پر اپنی جنگ ہار چکا ہے اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہاں افغانستان کی سرزمین پر نیٹو افواج کا طویل عرصہ تک ٹھہرنا بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔امریکی اور برطانوی فوجیوں کی ہلاکتیں اب روز کا معمول بن چکی ہیں،ان ممالک میں عوام کی اکثریت افغانستان اور پاکستان کے بارے میں امریکی اور برطانوی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے،خاص طور پر سرزمین پاکستان پر امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت میں ردعمل سامنے آ رہا ہے۔موجودہ حالات میں ونسٹن چرچل Winston Churchcill کے ان الفاظ پر غور کریں جو انہوں نے 1930 ء میں کہے تھے۔
Lets us learn our lessons, Never, never, never believe any war will be smooth and easy,
or that anyone who embarks on that strange voyage can measure the tides and hurricanes he will encounter.
The Statesman who yields to war fever must realize that once the signal is given, he is no longer the master of policy but the slave of unforeseeable and uncontrollable events. Antiquated War Offices, weak, in competent or arrogant Commanders, untrustworthy allies, hostile neutrals, malignant fortune.
ugly surprises, awful miscalculations-all take their seats at the Council Board on the morrow of a declaration of war.
کیا اب بھی وقت نہیں ہے کہ حکومت پاکستان عالم برادری کی توجہ سرزمین پاکستان پر ہونیوالے امریکی ڈرون حملوں کی جانب مبذول کرائے اور اقوام متحدہ میں اس ریاستی دہشتگردی کو ختم کروانے کیلئے اپنا قومی فریضہ ادا کرے؟نیٹو فورسز کے ہاتھوں افواج پاکستان کے جوانوں کی شہادت اب اس امر کا تقاضا کر رہی ہے کہ حکومت بلاتاخیر اپنی داخلی سلامتی اور خارجہ امور کی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔امریکہ اب جس انداز سے دہشتگردی کیخلاف جنگ کو پاکستان کیخلاف جنگ میں تبدیل کر رہا ہے اور امریکی افواج کے کمانڈر جنرل پیٹریاس کے حالیہ بیان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کیخلاف فوجی آپریشن شروع نہ کیا،تو پھر امریکی افواج خود فاٹا میں کارروائی کا آغاز کر سکتی ہیں۔حکمرانوں کو اب ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔اب کشکول توڑ کر پاکستان کو اپنے وسائل کے اندر رہ کر روشن مستقبل اور ذہنی آزادی کے فروغ کیلئے حکمت عملی طے کرتے ہوئے آزاد اور خودمختار پالیسیاں مرتب کرنا ہونگی۔تاریخ گواہ ہے کہ امریکی خوشنودی نے ہمیشہ پاکستان کو تباہ کیا ہے اور اس ضمن میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا کردار سب پر عیاں ہے۔اب یہ طے ہو جانا چاہیے کہ امریکی خوشنودی کی خاطر پاکستان کی سالمیت دائو پر لگانا پوری قوم کے ساتھ غداری ہے۔
خبر کا کوڈ : 39369
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش