0
Friday 6 Nov 2015 22:11

تیسرا انتفاضہ اور بدامن خطے میں پرامن اسرائیل کے سراب کا خاتمہ

تیسرا انتفاضہ اور بدامن خطے میں پرامن اسرائیل کے سراب کا خاتمہ
تحریر: محمد محسن فائضی

یکم اکتوبر کو مقبوضہ فلسطین میں نیا انتفاضہ جنم لینے کا آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ جمعرات کے دن ایک فلسطینی نے نابلس کے علاقے میں غاصب صہیونی فوجیوں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ایک فوجی افسر سمیت کئی اسرائیلی فوجی مارے گئے۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے اس علاقے کا محاصرہ کر لیا اور وہاں فوجی آپریشن شروع کر دیا۔ اس دن سے لے کر آج تک فلسطینیوں اور صہیونی فوج کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے ہمیشہ جنگ اور شدت پسندی کے درمیان اپنی سکیورٹی اور قومی سلامتی پر زور دیا ہے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ وہ شدت پسندی میں گھری ہوئی جمہوریت اور امن و امان کا مظہر ہے۔ لیکن اس کا یہ دعویٰ اب ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ تحریر حاضر میں ہم مقبوضہ فلسطین میں جاری انتفاضہ کی وسعت اور اسرائیل پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں گے۔

اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اکتوبر کے اواسط تک فلسطینیوں اور غاصب صہیونی فورسز کے درمیان 90 سے زائد جھڑپیں واقع ہوئیں۔ اسی طرح رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 جھڑپیں رام اللہ میں رونما ہوئیں، جو محمود عباس کی سربراہی میں فلسطین اتھارٹی کا دارالحکومت ہے۔ 9 جھڑپیں شہر بیت المقدس، 16 جھڑپیں اسرائیلی فورسز کے زیر قبضہ فلسطینی اکثریتی علاقے الخلیل (حبرون) میں واقع ہوئیں اور 14 جھڑپیں 1948ء کی فلسطینی سرزمین میں وقوع پذیر ہوئیں۔ ان جھڑپوں کے مقبوضہ فلسطین کے مختلف حصوں تک پھیل جانے نے اسرائیلی حکام کو پریشان کر ڈالا ہے اور وہ نئے انتفاضہ کے آغاز سے ہی شدید خطرے کا احساس کر رہے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کی وسعت کے پیش نظر اسرائیلی روزنامے یدیعوت احرونوٹ نے تیسرے انتفاضہ کے آغاز کی خبر لگائی۔ انتفاضہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی جائے شہادت کا جائزہ لینے سے اس کی وسعت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ انتفاضہ اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں۔

فلسطینی گروہوں کا ردعمل:
مقبوضہ فلسطین میں تیسرے انتفاضہ کے آغاز کے بعد سب سے پہلا ردعمل اسلامک جہاد کی جانب سے سامنے آیا۔ اسلامک جہاد نے 4 اکتوبر کو فلسطینی جوان مہند حلبی کی جانب سے انجام پانے والے شہادت طلبانہ مشن کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے تیسرے انتفاضہ کا آغاز قرار دیا۔ اس کامیاب شہادت طلبانہ مشن میں دو یہودی خاخام ہلاک ہوگئے۔ اسی دن القدس بریگیڈز نے بھی "رسالہ رقم 1" نامی کلیپ شائع کرکے اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو مزید شہادت طلبانہ مشن انجام پانے کی دھمکی دی۔ مقبوضہ فلسطین میں فلسطینی جوانوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں مزید شدت اور وسعت آ جانے کے بعد حماس نے بھی یوٹیوب پر ایک ویڈیو شائع کی، جس کا عنوان "نحن جنداللہ" تھا اور اس میں تمام غاصب صیہونی شہریوں اور فوجیوں کو موت کی دھمکی دی گئی اور انہیں موت کا مستحق قرار دیا گیا۔ یہ ویڈیو تین دن میں 5 لاکھ بار دیکھی گئی اور آخرکار اسرائیل کے دباو پر یوٹیوب نے اس ویڈیو کو اپنی ویب سائٹ سے ختم کر دیا۔ حماس کے رہنماوں نے جمعہ 9 اکتوبر کو "غضب ڈے" کا اعلان کر دیا اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے خلاف برسرپیکار فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے تیسرے انتفاضہ میں بھرپور کردار ادا کرنے کا عہد کیا۔ غزہ میں سرگرم اسلامی مزاحمت کے گروہوں کی جانب سے فلسطینی انتفاضہ کے بارے میں ردعمل ظاہر کرنا اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو مسلح کرنے اور اسرائیل کے خلاف ایک نئی مسلح تحریک شروع کرنے کا عزم کر چکے ہیں۔

دوسری طرف ماضی کی طرح تیسرے انتفاضہ کی راہ میں درپیش بڑی رکاوٹوں میں سے ایک فلسطین اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس ہیں۔ فلسطین اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان جاری امن مذاکرات اور اوسلو معاہدے کے کئی برس بعد بھی مسئلہ فلسطین کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد فلسطینی عوام میں محمود عباس کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ مغربی کنارے خاص طور پر فلسطین اتھارٹی کے زیر اثر علاقوں میں انتفاضہ کا شعلہ ور ہو جانا محمود عباس کی طاقت میں کمی اور فلسطین پر ان کے سکیورٹی کنٹرول کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔ لہذا محمود عباس کی کوشش ہے کہ وہ انتفاضہ کو کنٹرول کرکے اس مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کریں۔ وہ اس بارے میں اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون میں بھی مصروف ہیں۔ فلسطینی جہادی گروہوں کی جانب سے انتفاضہ کی کمان کونسل کا اعلان کئے جانے کے بعد محمود عباس کی سربراہی میں فتح تحریک نے اپنے بیانئے کے ذریعے اس کونسل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

تیسرے انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کیلئے اسرائیلی حکمت عملی:
اسرائیل نے نئے فلسطینی انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کیلئے دو رکنی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اس پالیسی کا ایک رکن احتجاجی مظاہروں کے خلاف فوجی طاقت کا کھلا استعمال ہے، جبکہ دوسرا رکن یہودی مکینوں کو مسلح کرکے انہیں فلسطینیوں کے مقابلے میں لانا ہے۔ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں مقیم فلسطینیوں کی تعداد تقریباً 24 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں افراد کو فوجی طاقت کے ذریعے کنٹرول کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے، لہذا اسرائیلی حکومت نے فلسطینی شہریوں کے مقابلے میں شدت پسند یہودی مکینوں کو مسلح کرکے ان کے ذریعے فلسطینی احتجاجی تحریک کو دبانے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ دوسری طرف اس حکمت عملی کے نتیجے میں اسرائیل عالمی رائے عامہ میں نئے انتفاضہ کو فلسطینی اور یہودی شہریوں کے درمیان لڑائی کے طور پر ظاہر کر رہا ہے۔ اسرائیلی حکام نے یہودی مکینوں کو اپنے ساتھ اسلحہ رکھنے اور کسی بھی مشکوک فلسطینی کو دیکھتے ہی گولی مار دینے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جو اسرائیلی حکومت کی جانب سے عوام کو عوام کے ذریعے کنٹرول کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ اس پالیسی کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انتفاضہ کا نتیجہ صرف اور صرف قتل و غارت میں اضافے اور تناو میں شدت ہی ہوسکتا ہے۔ نئے فلسطینی انتفاضہ کے ابتدائی دس روز میں ہی اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے 300 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کئے جانا اور 1300 فلسطینیوں کو زخمی کرنے کا مقصد فلسطینی عوام کو یہ پیغام دینا ہے کہ احتجاجی تحریک اور انتفاضہ کا راستہ ان کیلئے بہت مہنگا پڑے گا، لہذا وہ پرامن مذاکرات پر مبنی محمود عباس کے راستے کی حمایت کریں۔

دوسری طرف اسرائیلی حکام نے نئے فلسطینی انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کیلئے فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس پر بھی دباو میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل فلسطین اتھارٹی کی پولیس کے ذریعے نئے انتفاضہ کو دبانا چاہتا ہے، جس طرح غزہ کے خلاف 51 روزہ اسرائیلی جنگ کے بعد شروع ہونے والے عوامی احتجاج کو دبایا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی درخواست پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی جانب سے فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس پر انتفاضہ کو کنٹرول کرنے پر زور دیئے جانا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت فلسطین اتھارٹی اسرائیل کے بازو کے طور پر عمل کرے گی اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی عمل کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا راستہ بھی ہموار کرے گی، تاکہ جہاں تک ممکن ہو اس طرح گذشتہ دس سال کے دوران امن مذاکرات میں ہونے والی ناکامیوں کے نتیجے میں عوام میں کھوئی ہوئی محبوبیت کا ازالہ کرسکے۔ اسرائیلی حکام بھی فلسطین اتھارٹی کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ نئے انتفاضہ کو کنٹرول کرنے کی خاطر فلسطینی مجاہدین کی گرفتاریوں میں فلسطین اتھارٹی کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ فلسطین اتھارٹی کی غداری کے نتیجے میں فلسطینیوں کو فلسطینیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے پر مبنی حکمت عملی کی ممکنہ کامیابی کی صورت میں نہ صرف نئے فلسطینی انتفاضہ کی رفتار میں کمی واقع ہوسکتی ہے بلکہ فلسطینی گروہوں کے درمیان جاری قومی مفاہمتی عمل بھی شدید خطرات سے دوچار ہو جائے گا، جو موجودہ حالات کے تناظر میں فلسطین کی انتہائی اہم ضرورت ہے اور فلسطین کے قومی مفاہمتی عمل کی ناکامی اسرائیل کیلئے ایک بڑی کامیابی تصور کی جائے گی۔

انتفاضہ سے اسرائیل کو درپیش سکیورٹی و سماجی خطرات:
فلسطین اتھارٹی اور محمود عباس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں کمی ہمیشہ سے اسرائیل کیلئے پریشان کن رہی ہے اور وہ اس امر کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتا ہے، کیونکہ پرامن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے طرفدار گروہوں کی پسپائی کا فائدہ اسلامی مزاحمت اور مسلح جدوجہد کے حامی گروہوں کو پہنچتا ہے۔ موجودہ حالات میں فلسطین اتھارٹی کی کمزوری ایک طرف تو اسرائیل کی فلسطینیوں کو فلسطینیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے پر مبنی حکمت عملی کیلئے مشکلات کھڑی کرسکتی ہے اور دوسری طرف مغربی کنارے اور بیت المقدس میں حماس اور اسلامک جہاد جیسے گروہوں کے اثر و رسوخ میں اضافے کا زمینہ فراہم کرسکتی ہے۔ ایک فلسطینی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے انجام پانے والی سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی 51 روزہ جارحیت کے بعد اسرائیل کے خلاف انجام پانے والے مسلحانہ اقدامات دوگنا ہوگئے ہیں۔ اسی طرح فلسطینیوں میں اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے نظریئے کی محبوبیت میں بھی 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف جہادی کارروائیوں کی حمایت کی شرح غزہ جنگ سے پہلے 42 فیصد تھی، جو غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے بعد 80 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ دوسری طرف فلسطینیوں میں محمود عباس کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے اور صرف 20 فیصد رہ گئی ہے جبکہ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو رسمی طور پر قبول کئے جانے سے بھی محمود عباس کی محبوبیت میں اضافہ نہیں ہوسکا۔

محمود عباس کی گرتی ہوئی محبوبیت کا اندازہ بیرزیٹ یونیورسٹی میں منعقد ہونے والے انتخابات سے لگایا جاسکتا ہے۔ ان انتخابات کی اہمیت اس قدر زیادہ تھی کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے ان انتخابات میں کامیابی کو فلسطین کے قومی مفاہمتی عمل میں پہلا قدم قرار دیا ہے۔ بیرزیٹ یونیورسٹی فلسطین کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، جس میں 10 ہزار طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ لہذا اس یونیورسٹی کے طلبہ کو مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے فلسطین کے پڑھے لکھے طبقے کا نمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے اور ان کے نقطہ نظر کو اس طبقے کی غالب نگاہ سمجھا جاسکتا ہے۔ یوں مقبوضہ فلسطین میں شروع ہونے والا جدید انتفاضہ اتنا بھی غیر متوقع نہ تھا اور خود اسرائیلی ماہرین چند ماہ قبل سے ایسے انتفاضہ کے ممکنہ آغاز کی باتیں کر رہے تھے۔ فلسطینی انتفاضہ سے اسرائیل کو درپیش خطرات میں سے ایک خود اسرائیلی معاشرے میں بدامنی کا فروغ اور موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی محبوبیت میں کمی کا امکان ہے۔ اسرائیل ٹیلیویژن کے چینل نمبر 10 کی جانب سے انجام پانے والی سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ 69 فیصد اسرائیلی شہری حالیہ انتفاضہ کے بارے میں موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی پالیسیوں سے راضی نہیں ہیں اور راضی اسرائیلی شہریوں کی تعداد صرف 17 فیصد ہے۔ سکیورٹی بحران میں انتہائی اہم امر ایک معاشرے میں رہنے والے عام افراد کا اپنی حکومت پر اعتماد ہوتا ہے جبکہ اسرائیل کی صورتحال یہ ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو سیاسی جواز اور سماجی محبوبیت کے بحران سے روبرو ہوچکے ہیں۔

نتیجہ:
مقبوضہ فلسطین میں جنم لینے والا حالیہ انتفاضہ درحقیقت غزہ کے خلاف اسرائیل کی 51 روزہ جارحیت کے بعد مغربی کنارے اور بیت المقدس میں غاصب صیہونیوں کے خلاف شروع ہونے والی جہادی کارروائیوں کا تسلسل ہے اور مسجد اقصٰی میں صیہونیوں کے داخلے اور اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسجد اقصٰی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کے اقدام کے بعد ان میں مزید شدت آگئی ہے۔ اسرائیلی حکومت اس انتفاضہ کو یہودی مکینوں اور فلسطین اتھارٹی کے ذریعے کنٹرول کرنے اور دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شہداء کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہونے، چاقو اور چھریوں کے ذریعے شہادت طلب کارروائیاں انجام پانے، جوان لڑکے اور لڑکیوں کا انتفاضہ میں آگے آگے ہونے اور صیہونی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا پورے مغربی کنارے اور حتی 1948ء کی سرزمین تک پھیل جانے اور بنجمن نیتن یاہو اور فلسطین اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی محبوبیت میں شدید کمی اس نئے انتفاضہ کی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہ فلسطینی انتفاضہ غزہ میں اسلامی مزاحمت کی طرح صرف اس صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے، جب خود اعتمادی اور پختہ ایمان کے ساتھ ساتھ فلسطینی مجاہدین کو جدید اسلحہ سے بھی لیس کیا جائے۔ اس طرح 2000ء میں مسجد اقصٰی کے انتفاضہ کی اہم کمزوری سے بھی بچا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 496074
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش