1
0
Wednesday 16 Nov 2011 14:26

اہلِ پاکستان کے سینوں میں تبدیلی کی اُمنگ

اہلِ پاکستان کے سینوں میں تبدیلی کی اُمنگ
تحریر:ہما مرتضٰی

دنیا میں تبدیلی کی رو چل پڑی ہے۔ انقلاب کی امنگ سینوں سے نکل کر شاہراہوں پر آ رہی ہے۔ 1979ء میں ایران میں آنے والے انقلاب کی موجیں پہلے سے موجود تھیں۔ لاطینی امریکہ میں بھی استعماری اقتدار کو ٹھکرا دینے والا طوفان کئی ریاستوں میں اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر گذشتہ برس شمالی افریقہ اور مشرق وسطٰی کے عوام نے انگڑائی لی اور موجودہ برس میں قاہرہ کا میدانِ تحریر واشنگٹن کے فریڈم اسکوئر سے ملحق ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی تبدیلی کی آرزو مجسم ہونے کو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں بسنے والے انسان چاہتے کیا ہیں، وہ کس سے نالاں ہیں اور کیسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ بعض قوتوں کی آرزو ہے کہ انقلاب کے تمنائی لوگوں کو زبان اپنی دے دیں، لیکن آج لوگ طویل تجربے کے بعد واضح آرزوﺅں کے ساتھ باہر نکلے ہیں۔ وہ کیا چاہتے خود بیان کر رہے ہیں۔
 
پاکستان کے لوگوں میں بھی تبدیلی اور انقلاب کی ایک اُمنگ جاگی ہے لیکن عوام آخر کیسی تبدیلی چاہتے ہیں؟ کسی بھی ملک میں انقلاب برپا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی انقلابی قیادت موجود ہو، جو عوام میں زندگی کی نئی روح پھونک دے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اس کی بہترین مثال ہے۔ امام خمینی رہ جیسے لیڈر کی قیادت میں وہاں ایک عظیم انقلاب آیا۔ ایسے ہی لیڈر اور انقلاب کی پاکستان کے عوام کو بھی ضرورت ہے۔ ایک کے بعد ایک سیاستدان کی تبدیلی یا اب پاکستانی نظام میں تبدیلیاں۔؟ یہ ہے بنیادی سوال۔ دراصل ہمارے ملک میں ذرا مختلف قسم کے انقلابات کی روایت رہی ہے۔ ہر دفعہ ایک فوجی آمر ایک انقلاب لاتا ہے اور پھر یہ انقلاب اسی آمریت کے قدموں تلے دم توڑ دیتا ہے۔
 
پاکستانی سیاست میں شروع دن سے ہی ہر پانچ، دس سال کے بعد ایک نیا سیاسی لیڈر آ کر عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلتا ہے، اُن کے مسائل کے نام پر اُن کی دکھتی رَگ پر ہاتھ رکھتا ہے، اُن کی بے کسی اور مجبوری کی حالت میں اُن کے مسیحا ہونے کا دعویٰ کر کے ان کا ووٹ بینک اپنے نام کروا لیتا ہے۔ معصوم عوام اسے اپنا ناخدا سمجھ لیتے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ اگر ہمارا سرپرست بنتا ہے تو ہمارے مسائل کا سدباب ہو جائے گا اور کسی دوسرے ملک میں روشن مستقبل کی جگہ ہمارے اپنے ملک میں ہمارے لیے ترقی کی راہیں کھول دے گا لیکن

ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

جب نیا لیڈر آتا ہے تو مسند اقتدار پر بیٹھ کر اپنے وعدوں کو بھول جاتا ہے۔ اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ عوام کا منتخب کردہ خود کو فرعون اور نمرود کی طرح ریاست کا خدا سمجھ لیتا ہے اور عوام جو نظام میں تبدیلی اور اپنے مسائل کے حل کے لیے اُس کو مسیحا سمجھنے لگے تھے، پھر سے مایوس ہو کر ایک نئے انقلاب کی آس میں نئے مداریوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتے ہیں۔ ماضی میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کو عوام نے اپنا مسیحا سمجھا تھا یا جنھوں نے مسیحا ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور اب عمران خان کی شکل میں عوام کو امید کے دَیئے کی ایک جلتی لو پھر سے دکھائی دی ہے۔انھیں توقع ہونے لگی ہے کہ عمران خان ان کی مشکلات کو حل کر دے گا۔ عوام کو کسی پارٹی یا شخص سے کوئی مطلب نہیں۔ عوام اب ایسے حکمرانوں سے تنگ آ چکے ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد بس اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور عوام سے کیے گئے وعدے بھول جاتے ہیں اور عوام کو مایوسیوں کے طوفان میں دھکیل دیتے ہیں۔
 
آج پاکستان کی حالت یہ ہے کہ قتل و غارت، خودکش حملے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب در عذاب ہے، ریلوے اور پی آئی اے جیسے قومی ادارے خسارے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آئے دن کے ڈرون حملوں سے عوام خوف و ہراس کی کیفیت میں ہیں اور پھر دہشتگردی کی جنگ میں امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی ہونے کی وجہ سے آج خود ارض پاکستان دہشت گردوں کی جائے پناہ بن چکی ہے اور جن کا ہم نے ساتھ دیا ہے انہی کے ایما پر دنیا کے نقشے میں واحد دہشتگرد ملک کے طور پر پاکستان کو متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر حیرت انگیز امر تو یہ ہے کہ امریکہ نوازی میں ہمارے سیاستدان اتنے آگے جا چکے ہیں کہ کسی اور ملک سے ہمارے مثالی تعلقات نہیں رہے۔ 

یہاں تک کہ جو ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں وہ بھی تذبذب میں ہیں۔ خود امریکہ نے عالمی میڈیا کے سامنے پاکستان کو تنہا کرنے کے دھمکی آمیز بیانات دینا شروع کیے تو چین نے پوری دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ چین ہر مرحلے میں پاکستان کے ساتھ ایک چٹان بن کر کھڑا ہے۔ چین کے ساتھ ساتھ ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جس نے صاف اور واضح الفاظ میں امریکہ کو بتا دیا ہے کہ پاکستان پر امریکہ کا حملہ ایران پرحملہ تصور ہو گا۔ آج ضرورت ہے کہ پاکستان اپنی ناکام خارجہ پالیسی پر نظرثانی کر کے ان ممالک سے دوستی کرے، جو حقیقت میں اس کے دوست ہیں۔ امریکہ کی دوستی سے اس کی دشمنی ہی اچھی، پاکستانی قوم اس ذلت آمیز دوستی سے تنگ آ چکی ہے۔ اس کی دوستی پر تو غالب کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے

ع ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

عوام واقعی تبدیلی چاہتے ہیں یعنی نظام کی تبدیلی اور خارجہ پالیسی میں تبدیلی۔ مفاد پرست سیاستدانوں سے لوگ تنگ آ چکے ہیں جن کو ملک اور عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اسی تبدیلی کی آرزو کا اظہار عمران خان کو حاصل ہونے والی نئی حمایت سے ہوتا ہے۔ اس کا خاص پہلو اُن لوگوں کا گھروں سے نکل آنا ہے جو ایک عرصے سے کسی سیاسی اجتماع کا حصہ نہیں بنے۔ مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والے تحریک انصاف کے جلسے کے بارے میں ایک مبصر کا کہنا ہے کہ ہر دفعہ دنیا کے دانشور ہماری سیاسی قیادت کے بارے میں ہی کیوں لکھتے ہیں کیونکہ صرف ہمارے قائدین سیاسی اور غیر سیاسی مفادات کی تلاش میں رہتے ہیں، آپس میں ان کا تعلق اندر سے بہت گہرا ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مالی مفادات اور انھیں اگلی دفعہ کے مفادات پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور اب جبکہ لوگ ن لیگ، ق لیگ، پیپلز پارٹی سب کو اپنا ووٹ دے کر آزما کر مایوسی میں گھرے ہوئے تھے ایسے میں امید کا سورج لاہور کے منٹو پارک میں طلوع ہوا، جب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے جلسہ میں دیکھتے ہی دیکھتے کم وقت کی کال پر عوام کے جوش و جذبات سے بھرپور جم غفیر امنڈ آیا اور عمران خان تیزی کے ساتھ مقبول ہونے والے انقلابی راہنما کے طور پر ابھرے اور ان کے جلسے کی کامیابی نے ثابت کر دیا کہ وہ بھی ایک بہت بڑی سیاسی قوت ہیں۔
 
بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق مینار پاکستان کے کھلے گراﺅنڈ میں ہوئے اس جلسے میں شرکاء کی تعداد دو روز قبل ہونے والے مسلم لیگ نون کے جلسے سے زیادہ تھی۔ تحریک انصاف کے جلسے کے شرکاء میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی، جو عمران خان کے حق میں نعرے بلند کر رہے تھے۔ جلسے میں اپنے 45منٹ کے خطاب میں انھوں نے بھی عوام سے کچھ عہد و پیمان باندھے، خاص طور پر بلوچستان کی حالت زار پر بھی ان کو رحم آیا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد بلوچستان میں فوجی آپریشن ختم کر دیں گے اور بلوچستان میں لاشیں رکھوانے کا سلسلہ رکوائیں گے، اگر وہ واقعاً اقتدار میں آنے کے بعد اس قول کو فعل میں بدل دیتے ہیں تو پاکستان کا نقشہ ہی اور ہو جائے گا۔
 
ہمیں پاکستان کے عوام کی طرح کسی نام اور چہرے سے غرض نہیں، ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ کون عوام کی آرزوﺅں کا ترجمان بنتا ہے اور کون تبدیلی کی خواہش کا حقیقی نقیب بن کر اٹھتا ہے۔ پاکستان کو علامہ اقبال کے وژن اور قائداعظم کے مقاصد کی راہ پر ڈالنے کے لیے جو بھی عزمِ ہمت باندھے، وہی اٹھارہ کروڑ عوام کا مسیحا ہو گا۔ ایک آزاد اسلامی ملک، ایک عادلانہ حکومت اور ترقی و کمال کا گہوارہ وطن ہر پاکستان کی آرزو ہے۔ اے کاش اب کے آنے والا قائد عوامی اعتماد کو دھوکا نہ دے۔ البتہ اس کے لیے عوام کو بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔
خبر کا کوڈ : 114339
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
RULE OF LAW IS OUR DESTINY
ہماری پیشکش