0
Thursday 24 Sep 2009 11:25

بلیک واٹر:عالمی سطح پر پیشہ ور قاتلوں کی خوفناک تنظیم

بلیک واٹر:عالمی سطح پر پیشہ ور قاتلوں کی خوفناک تنظیم
کرنل ریٹائرڈ غلام سرور
پاکستان کے قومی حلقوں میں ان دنوں ''بلیک واٹر'' کی مجرمانہ سرگرمیوں کا چرچا عام ہے لیکن ہم میں سے ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے جنہیں اس دہشت گرد تنظیم کے صحیح خدوخال اور اس کے اصل اہداف و مقاصد کا علم ہو۔ اس حوالے سے سابق انسپکٹر جنرل پولیس غلام اصغر خان کا ایک معلوماتی مضمون ایک مقامی اخبار میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر مضمون تحریر کرنے کے عمل میں اسی مضمون سے جہاں تہاں استفادہ کیا گیا ہے۔
''بلیک واٹر'' کا قیام ١٩٩٧ء میں عمل میں آیا تھا اور ایرک پرنس (Erik Prince) اور کلارک (Clark) کے ہاتھوں اس کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ امریکہ کی ریاست نارتھ کیرولینا میں یہ ابتدائی کاروائی سر انجام پائی تھی۔ اغلب خیال یہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی کی یہ سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے نیٹ ورک میں چالیس ہزار سے زائد کرائے کے دہشت گردوں کی تربیت کا عمل شامل ہے۔ان رضا کاروں کا چنائو امریکہ اور دوسرے ملکوں کی افواج اور پولیس کے افراد سے کیا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدر جارج بش کے دور صدارت میں ان کی انتظامیہ نے ''بلیک واٹر'' کے دہشت گردوں کو عراق کی جنگ میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس درندہ صفت مخلوق نے عراقی عوام کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کرنا شروع کر دیا تھا۔ اسی بنا پر ''بلیک واٹر'' کو درندگی اور بربریت کی علامت سمجھا جانے لگا ہے۔
پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی کے روپ میں اس تنظیم کو جارحانہ کاروائیوں کے ساتھ ساتھ مدافعانہ کاروائیوں کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔ اس تنظیم کے متعدد بزنس یونٹس ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں میں قائم ہیں۔ اس تنظیم کی خدمات ضرورت پڑنے پر سی آئی اے کو بھی فراہم کی جاتی ہیں اور ہنگامی حالت میں اس کے جہاز بھی سی آئی اے کیلئے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ ''بلیک واٹر'' کی تنظیم پہلی بار ٢٠٠٣ء میں عوام کی توجہ کا مرکز بنی تھی اور اس موقع پر اسے امریکی انتظامیہ کی جانب سے ٩ ملین ڈالر کا عطیہ دیا گیا تھا اور اس حوالے سے بغداد میں مقیم ایل پال بریمر کی حفاظت کا کام اسے سونپا گیا تھا۔ بغداد میں تعیناتی کے چند ماہ بعد اس تنظیم نے اپنی ظالمانہ سرگرمیوں کی بنا پر اپنے لئے پرلے درجے کی رسوائی اور ذلت مول لے لی تھی اور عراقی عوام کی نگاہوں میں اس تنظیم کا نام ایک گالی بن گیا تھا۔ انسانی حقوق کی پامالی اور عراقی عوام کا بیہمانہ قتل اس تنظیم کی خصوصی پہچان بن گئی تھی۔ اس کی ظالمانہ کاروائیوں کے رد عمل میں ''بلیک واٹر'' کو بھی اپنے کئے کی سزا ملنا شروع ہو گئی تھی اور جوابی کاروائی کے ساتھ کرائے کے ان قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا تھا اور ان کی لاشوں کو سر عام نمائش کیلئے لٹکا دیا گیا تھا تاکہ ظالم لوگ عبرت پکڑیں۔
اخبارات میں شائع شدہ رپورٹوں کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ٢٠٠٤ء سے لے کر اب تک ''بلیک واٹر'' کو اپنی سرگرمیوں کیلئے ٣٢٠ ملین ڈالر سے زائد رقم ادا کی جا چکی ہے۔ اس سلسلے میں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ایک بلین ڈالر بجٹ میں پانچ سالوں کیلئے مختص کرتا ہے تاکہ اس رقم کو استعمال میں لاکر امریکی اور غیر ملکی افراد جو ''وار زون'' میں متعین ہیں ان کی حفاظت کی جا سکے۔ اب کی بار یہ رقم ''بلیک واٹر'' کیلئے اسلئے مختص کی گئی ہے کہ یہ تنظیم بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے اور اس میں مقیم امریکی باشندوں کی حفاظت کر سکے۔اپنے سکیورٹی انتظامات کو یقینی بنانے کیلئے ''بلیک واٹر'' عالمی سطح پر اپنے پیشہ ور قاتلوں کے ذمے یہ کام سونپتی ہے کہ وہ جنگی جرائم کا سلسلہ بطور خاص جاری رکھیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ جنیوا کنوینشن(Geneva Convension) کی عائد کردہ پابندیوں سے مبرا ہوں گے اور ''انٹر نیشنل کریمینل کورٹ''(International Criminal Court) کی جانب سے بھی ان کا محاسبہ نہ ہو سکے گا۔ پینٹاگان اور کمپنی کے دوسرے افراد کی معلومات کے مطابق بیس ہزار اور تیس ہزار کے مابین جدید ترین ہتھیاروں سے لیس سکیورٹی کے افراد عراق میں امریکیوں کی حفاظت کیلئے تعینات ہیں۔ بلیک واٹر کے پیشہ ور قاتلوں کو اس بات کا علم ہے کہ انہیں شدید نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں کوئی فرد منہ لگانے کو تیار دکھائی نہیں دیتا ۔ وہ خود گفتگو میں ہمیشہ جارحانہ انداز اختیار کئے رہتے ہیں اور شائستگی نام کی کسی شے کا ان کے ہاں سے گزر نہیں ہوتا۔ عراق کے عوام کیلئے اس سے بڑھ کر دکھ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ان کے ملک پر دنیا کی واحد سپر پاور نے قاتلوں کی فوج اتار رکھی ہے۔ امریکی افراد کی حفاظت کو یقینی بنانے کی غرض سے بلیک واٹر عراق میں ہتھیار سمگل کر تا رہا ہے۔ ١١/٩ کے واقعہ کے بعد سابق صدر جارج بش نے مسلمانوں کے خلاف لڑائی چھیڑنے کے عمل کو کروسیڈ(Crusede) سے تعبیر کیا تھا۔ اب اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایرک پرنس نے بھی مسلمان ملکوں کے خلاف جنگ میں شرکت کیلئے عراق کے خلاف محاذ آرائی میں شرکت اختیار کی تھی۔
اور آخر میں سر زمین پاکستان میں ''بلیک واٹر'' کا وجود ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے اور یہ اطلاعات مسلسل آ رہی ہیں کہ کرائے کے قاتلوں کے گروہ ''بلیک واٹر'' نے پاکستان میں کئی مقامات پر اپنے دفاتر قائم کر لئے ہیں اور اس کے کارندے سی آئی اے اور ایف بی آئی کے فرنٹ مین کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کی یہ سرگرمیاں شدید خطرے کی علامت ہیں۔ عراق میں ''بلیک واٹر'' نے جس طرح قتل عام کیا اور عراقی خواتین کی عصمت دری کی وہ محض کوئی الزام یا افواہ نہیں بلکہ اس سلسلے میں بلیک واٹر کے سربراہ پر با قاعدہ مقدمہ چل رہا ہے لیکن اس تمام عرصے میں عراق کی حکومت کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اپنا خاموش احتجاج ہی ریکارڈ کرا دے۔ اس طرح پاکستان میں بلیک واٹر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا حکومتی سطح پر کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا جا رہا ہے اور یہ صورت حال بڑی پریشان کن ہے۔ ارباب اختیار کو اس جانب فوری توجہ کرنی چاہیئے۔

خبر کا کوڈ : 12098
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش