0
Friday 2 Mar 2012 20:10

آزاد قوموں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں

آزاد قوموں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں
تحریر: ثاقب اکبر
وزیراعظم پاکستان نے پاکستان پر اقتصادی پابندیوں کی امریکی دھمکیوں کے جواب میں کہا ہے کہ امریکا ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے، تاکہ عوام میں امریکا مخالف جذبات پیدا نہ ہوں۔ انھوں نے کہا کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور توانائی کے دیگر منصوبوں پر کوئی بیرونی دباﺅ قبول نہیں کریں گے۔ یہ باتیں انھوں نے یکم مارچ کو عوام کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہیں۔ یاد رہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہیلری کلنٹن نے اس سے ایک روز پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے پائپ لائن کی تعمیر کا منصوبہ جاری رکھا تو اسے امریکہ کی طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کروانے کے لیے امریکا ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رہا ہے جبکہ پاکستان اُس کے ساتھ ناپسندیدہ پائپ لائن کی تعمیر میں آگے بڑھ رہا ہے۔ مسز کلنٹن نے یہ باتیں امریکی ایوان نمائندگان کی ایک سب کمیٹی سے 29 فروری 2012ء کو خطاب کرتے ہوئے کیں۔ انھوں نے یاد دلایا کہ پاکستان پہلے ہی اقتصادی مشکلات کا شکار ہے۔ لہٰذا امریکی پابندیاں اس کے لیے مزید خطرناک ہو سکتی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ایک مضبوط اور طاقتور ملک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاک امریکا تعلقات میں کافی اتار چڑھاﺅ آتا رہتا ہے، ہم دوطرفہ تعلقات کو پارٹنرشپ، باہمی اعتماد اور باہمی احترام پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ 

دریں اثنا وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے ایران سے تجارتی تعلقات کے متعلق امریکا کی اقتصادی پابندیوں کی دھمکیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایران کے ساتھ گیس منصوبہ جاری رکھے گا اور فیصلہ اپنے قومی مفاد میں کرے گا۔ پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ گیس منصوبہ بغیر کسی غیر ملکی دباﺅ کے مکمل کریں گے۔ یہ باتیں انھوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملکی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ تمام فیصلے ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر کیے جائیں گے۔ مزید برآں وفاقی وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے سینئر بیوروکریٹ محمد اعجاز چوہدری نے کہا ہے کہ گیس پائپ لائن پاکستان کی انرجی سکیورٹی کے لیے ناگزیر ہے۔
 
پاکستان کے اہم ترین منصب داروں کے ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی مقتدرہ نے ایک حقیقی آزاد مملکت کے طور پر زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی حقیقی آزادی اس روز شروع ہو گی جب پاکستان کے فیصلے پاکستان کے اندر پاکستان کے مفاد میں بغیر کسی احساس خوف کے کیا جانا شروع ہوں گے۔ اگر مندرجہ بالا بیانات کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن آگیا ہے۔ 

پاکستان کی حکومتوں نے بالعموم سابق صدر جنرل ایوب خان کے زمانے سے امریکی مفادات کی روشنی میں فیصلے کیے ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعاون کی کئی دہائیوں پر مبنی گذشتہ تاریخ نے کئی بار یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکا کی دوستی پاکستان کے لیے ہمیشہ ضرر اور رسوائی کا باعث بنی ہے۔ اس دوستی نے آزادی کے بدلے غلامی کا تحفہ دیا ہے۔ امریکا بارہا پاکستان کے ساتھ وعدے کر کے پھر چکا ہے۔ امریکا ماضی میں کئی مرتبہ پاکستان پر طویل اور شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
 
امریکا کی کہہ مکرنیاں ایک رسوا کن تاریخ رکھتی ہیں۔ امریکا کے دہرے معیارات اب دنیا میں زیر حجاب نہیں رہے۔ وہ اپنے قومی مفادات کے نام پر جس قوم کے مفادات پر چاہتا ہے وار کرتا ہے۔ وہ قوموں کو حکم دیتا ہے کہ فلاں ملک سے رابطہ رکھیں اور فلاں سے رابطہ نہ رکھیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ساری قومیں دنیا کو اس کے مفادات کی عینک سے دیکھیں۔ اُس کی خواہش ہے کہ اس کے دوست کو سب اپنا دوست سمجھیں اور جسے وہ اپنا دشمن قرار دے، اسے سب دشمن جانیں۔ اس کی خواہش ہے کہ ساری دنیا اسرائیل کے ساتھ حسن روابط رکھے اور ساری دنیا آج کے ایران کا بائیکاٹ کر دے، بلکہ اگر اسرائیل اور امریکا اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرنا چاہیں تو انھیں اپنی فضا، زمین اور پانی بھی فراہم کریں۔

امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان خطے میں بھارت کی بالادستی قبول کر لے، اس کے ساتھ تجارتی تعلقات معمول پر لے آئے اور کشمیر کے مسئلے پر خاموشی اختیار کرے۔ اس کی طلب ہے کہ پاکستان ان گروہوں کے خلاف فوجی کارروائی کرے جن کی نشاندہی امریکا بہادر کرے، جبکہ امریکا چاہے تو انہی افغان گروہوں سے امن مذاکرات کا ڈول ڈالے جن کے خلاف پاکستان کو کارروائی کا وہ حکم دے رہا ہے۔
 
یہ امریکا ہی ہے جس نے پہلے تو ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان اور بھارت دونوں پر قدغنیں لگائیں اور پھر پاکستان کو نظر انداز کر کے بھارت کے ساتھ سویلین نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے نئے معاہدے کر لیے جبکہ بھارت نے بھی این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے اور اس نے اپنی فوجی ایٹمی تنصیبات عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے معائنہ کاروں کے لیے کھولنے سے انکارکر دیا ہے، لیکن امریکا نے ان تمام حالات کے باوجود بھارت کی فوجی جوہری پیش رفت کو نظرانداز کر کے اس کے ساتھ جوہری توانائی کے معاہدے کر لیے۔ پاکستان کا بالکل یہی سٹیٹس ہے، لیکن پاکستان کو امریکا توانائی کے شدید بحران میں بھی سویلین ایٹمی توانائی فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا کا یہ طرز عمل اُس کے دہرے معیاروں کو سمجھنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔
 
یہ امریکا ہی ہے جس کے تعاون سے آج اسرائیل غیر اعلانیہ طور پر ایک ایٹمی طاقت ہے اور اُس کے پاس مبینہ طور پر ایک سو سے زیادہ ایٹم بم موجود ہیں، جبکہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے خلاف مسلسل جارحیت کی تاریخ رکھتا ہے، لیکن یہی امریکا اُس ایران کے خلاف مسلسل پابندیاں عائد کرنے پر مصر ہے جس نے این پی ٹی پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کے بعد قانونی طور پر ہر ملک کو یہ جواز مل جاتا ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے اپنے جوہری پروگرام کو ترقی دے سکتا ہے اور ابھی تک اس امر کا کوئی ثبوت امریکا یا عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے پاس نہیں ہے کہ ایران فوجی مقاصد کے لیے اپنے جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ امریکا کو صرف یہ اندیشہ ہے کہ ایران پرامن مقاصد کے لیے جاری اپنے جوہری پروگرام کو جب چاہے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
 
جہاں تک پاکستان کے لیے ایران سے گیس اور بجلی کے حصول کی ضرورت کا تعلق ہے تو یہ امریکا سمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن شاید امریکا یہی چاہتا ہے کہ پاکستان دن بدن مشکلات کی دلدل میں دھنستا چلا جائے، تاکہ پھر امریکا جن شرائط پر چاہے پاکستان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے اور شاید یہ مدد کا ہاتھ بھی بڑھنے نہ پائے، کیونکہ ماضی امریکا کے حوالے سے کسی خوش گمانی کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔

ایک کثیر الاشاعت پاکستانی روزنامے نے اپنے ایک اداریے میں اسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستانی عوام وعدہ شکنیوں کی ایک طویل فہرست کے علاوہ بلیک واٹر کی سرگرمیوں، ریمنڈ ڈیوس جیسے جاسوس کی دیدہ دلیری، بستیوں پر ڈرون حملوں، 2مئی کے ایبٹ آباد آپریشن اور 26 نومبر 2011ء کے سلالہ چیک پوسٹ پر حملے جیسے واقعات پر پہلے ہی دل گرفتہ ہیں۔ اب ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ وہ امریکی کانگریس کی کمیٹی میں دیئے گئے (ہیلری کلنٹن کے)مذکورہ بیان کو دوستی، محبت اور خیر خواہی کے کس خانے میں رکھیں۔ 

پاک ایران گیس پائپ لائن پروجیکٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مسز ہیلری کلنٹن نے اس بات کو سمجھ سے بالاتر قرار دیا کہ امریکا ایران پر پابندیاں لگائے اور پاکستان اس سے معاہدہ کر لے۔ سادہ لفظوں میں اس بیان کا اس کے سوال کوئی مفہوم نہیں نکلتا کہ پاکستان کو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ حق بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنے پڑوسی ملک سے تیل یا گیس حاصل کر سکے جبکہ واشنگٹن اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستان کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔
 
ان حالات میں امریکا نے پاکستان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ترکمانستان سے گیس حاصل کرے۔ پاکستان پہلے سے ہی اس حوالے سے اقدامات کر رہا ہے، لیکن اول تو اس کے لیے بہت طویل گیس پائپ لائن تعمیر کرنا پڑے گی، ثانیاً اسے افغانستان سے گزرنا ہے جہاں ابھی حیات کا ماحول سازگار نہیں اور ثالثاً اس کے آتے آتے پاکستان کن مزید مشکلات میں گھر سکتا ہے، اس کا بھی اندازہ نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ایران سے آنے والی گیس پائپ لائن ایرانی حصے میں مکمل کی جا چکی ہے اور ایران پاکستانی حصے میں گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے پاکستان کو 25 کروڑ ڈالر کی امداد دینے پر بھی رضا مند ہے۔
 
اسی صورت احوال کے پیش نظر پاکستان کی حکومت نے نہایت جرات مندی سے امریکی دباﺅ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی جرات مندی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ آزاد قوموں کے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمارے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ جرات کے راستے پر قائم رہیں۔ جرات ہی کا راستہ پاکستان کو معاشی آزادی کی راہ پر ڈال سکتا ہے ورنہ غلامی اور رسوائی ہی نہیں بلکہ شکست و ریخت بھی ہماری راہ دیکھ رہی ہو گی۔ آزاد فیصلے ہی قوموں کے لیے عزت اور افتخار کا سرمایہ لے کر آتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 142233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش