0
Wednesday 5 Dec 2012 20:03

مصر کے صدر مرسی کے امتحان

مصر کے صدر مرسی کے امتحان
تحریر: ثاقب اکبر 

مصر کے صدر مرسی پے در پے امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ بعض کی رائے ہے کہ وہ بڑی کامیابی سے ان امتحانات کی منزلوں کو عبور کر رہے ہیں، البتہ بعض کے نزدیک ابھی مصر کا مطلع زیادہ صاف نہیں ہے، اس لیے ابھی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ ڈاکٹر صدر محمد مرسی جو اخوان المسلمین کے سیاسی شعبے کے سربراہ کے طور پر مصر میں برسراقتدار آئے ہیں، نے بعض نہایت جرات مندانہ اور دوررس نتائج کے حامل فیصلے کیے ہیں۔ انھوں نے فوج کے اعلٰی درجے کے جرنیلوں کو برخواست کر دیا۔ اس سے پہلے آئین ساز اسمبلی جسے فوجی جنتا نے آئینی عدالت کے فیصلے کا سہارا لے کر کالعدم کر دیا تھا، کو بحال کر دیا۔ اب انھیں خطرہ تھا کہ آئینی عدالت آئین ساز اسمبلی کو پھر کالعدم نہ کر دے، تو انھوں نے یکم دسمبر کو نیا آئینی حکم جاری کرکے اسمبلی کی تحلیل کا اختیار اس سے واپس لے لیا اور 15 دسمبر 2012 کو مجلس آئین ساز کے منظور کردہ آئین پر عوامی ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ 

صدر مرسی کے نئے حکم نامے کے خلاف ڈاکٹر البرادعی اور امر موسٰی کی پارٹیوں نے احتجاج کی کال دی اور توقع کے عین مطابق آئینی عدالت کے کئی ایک ججوں نے بھی اس کی مخالفت کی۔ اس آئینی عدالت کو گزشتہ دور کے باقیات میں سے سمجھا جاتا ہے۔ صدر کے حامی بھی سڑکوں پر آگئے، اس طرح مصر میں تشدد کی فضا کا خطرہ پیدا ہوگیا۔ مجلس آئین ساز نے عبوری آئین کی تیز رفتاری سے تمام تر خواندگی مکمل کرکے اور اس کی منظوری دے کر 15 دسمبر کے ریفرنڈم کے لیے اسے پیش کر دیا ہے۔ عدلیہ کے بعض اراکین نے ریفرنڈم کی نگرانی سے انکار کر دیا ہے جبکہ ججوں کے ایک دوسرے گروپ نے اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کی ہیں اور صدر مرسی کے اقدامات کی تائید کی ہے۔ 

مصر کے نئے مجوزہ آئین میں ملکی قانون سازی کا ماخذ شریعت اسلامی کو قرار دیا گیا ہے۔ آئین کے اس ڈرافٹ کو عوام کی تائید حاصل ہوگئی تو 60 دن کے اندر نئی پارلیمنٹ کے لیے ووٹنگ ہوگی۔ اس کے مطابق صدر کو چار سال کے لیے دو مرتبہ منتخب کیا جاسکے گا۔ آئینی مسودے میں فوج کو منتخب حکومت کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ صدر مرسی نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ اعلامیہ خارجی اور داخلی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ یہ آئینی حکم عارضی ہے۔ صدر کے مخالفین کا کہنا ہے کہ وہ آمرانہ اختیارات حاصل کر رہے ہیں جو جمہوریت کی روح کے مخالف ہے۔ بعض نے اسے عدلیہ کے خلاف جارحیت قرار دیا ہے۔ آئین ساز اسمبلی کے بعض مخالف اراکین نے اس سے استعفٰی دے دیا، جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ قانون سازی کا ماخذ شریعت اسلامی کو قرار دینے سے مصری صدر کو اسلام پسند جماعتوں اور مراکز کی تائید بھی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں خاص طور پر حزب النور، حزب الوسط اور الازہر قابل ذکر ہیں، جبکہ اخوان المسلمین تو صدر مرسی کی اپنی جماعت ہے، جس کی انھیں مکمل حمایت حاصل ہے۔ 

مغربی دنیا میں صدر مرسی کے بعض اقدامات کی اگرچہ تائید کی جاتی رہی ہے، تاہم شریعت کو قانون سازی کا ماخذ قرار دینے کے فیصلے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی کروانے میں صدر مرسی نے امریکہ کے ساتھ نتیجہ خیز تعاون کیا ہے، جس کی وجہ سے امریکی میڈیا نے انھیں ایک معتدل مزاج شخص قرار دیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حماس جس کا غزہ میں اثر و رسوخ ہے، کو فلسطین میں اخوان المسلمین ہی کی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے۔ صدر مرسی نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کے موقع پر دنیا کے کئی ایک راہنماؤں کو رفح کے راستے غزہ میں داخلے کی سہولت فراہم کی تھی، جن میں تیونس کے وزیر خارجہ بھی شامل ہیں، لیکن ایرانی وزیر خارجہ کی درخواست اس سلسلے میں مسترد کردی تھی۔
 
شام کے مسئلہ پر بھی ان کا نقطہ نظر مغرب سے ہم آہنگ ہے، جس کا اظہار خاص طور پر تہران میں منعقدہ غیر جانبدار ممالک کی کانفرنس کے موقع پر صدر مرسی کے خطاب سے ہوا۔ ایسے اقدامات یقینی طور پر مغربی دنیا میں صدر مرسی کا ایک قابل قبول چہرہ پیش کرنے میں مفید رہے ہیں، لیکن اس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں امریکہ اور اسرائیل کا وہ اعتماد حاصل نہیں کر سکتے جو حسنی مبارک کو حاصل تھا، کیونکہ بہرحال ان کا تعلق ایک اسلامی تنظیم سے ہے، جو بنیادی طور پر صہیونیت کے مخالف موقف رکھتی ہے اور صدر مرسی ایک ایسے عوامی انقلاب کے ذریعے برسراقتدار آئے ہیں، جسے برپا کرنے والے عوام اسرائیل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، جس کا اظہار وہ مختلف مواقع پر کرچکے ہیں۔ صدر مرسی کو بہرحال کسی نہ کسی طرح سے عوام کو مطمئن رکھنا ہے۔ آئین میں شریعت اسلامی کو قانون کا ماخذ قرار دینے کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ 

دوسری طرف امریکہ نے موجودہ مصری حکومت سے یہ اطمینان حاصل کیا ہے کہ وہ سابقہ دور میں اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی پاسداری کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ صدر مرسی نے اسرائیل کے لیے اپنے نئے سفیر کو نامزد کرتے ہوئے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے نام جو خط لکھا اس میں انھیں اپنا صمیمی اور وفادار دوست کہہ کر خطاب کیا۔ ایسے خطوط عام طور پر مخفی ہوتے ہیں اور اس میں استعمال کی گئی زبان کو ڈپلومیٹک زبان کہا جاتا ہے، لیکن اسرائیل نے اسے آشکار کر دیا، جس کی وجہ سے صدر مرسی کو اپنے ملک میں خاصی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر اس حوالے سے تنقید کرنے والوں میں ان کی اپنی جماعت کے بھی بعض اراکین شامل ہیں۔ 

صدر مرسی نے اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر کاربند رہنے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔ داخلی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے انھیں خطے کی رجعت پسند امریکہ نواز حکومتوں کی مدد بھی درکار ہے۔ امریکہ ہر سال مصر کی جو اقتصادی مدد کرتا ہے، صدر نے اسے حاصل کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔ مصر کو آئی ایم ایف کی مدد بھی درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مبصرین صدر مرسی کے بعض اقدامات کی توجیہ کرتے ہیں اور انھیں ان کی مجبوری قرار دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ مجبوری ان سے کیسے کیسے کام کرواتی ہے۔
 
تاہم ان کے حالیہ فیصلوں کی وجہ سے مغربی میڈیا نے ان پر تنقید بھی کی ہے۔ امریکہ کے معروف اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ انقلاب کے بعد مصر میں امریکی اثرونفوذ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ مصر میں محمد مرسی اور آئینی عدالت کے مابین موجودہ تنازع امریکہ کے لیے مصر میں ایک سیکولر نظام کے قیام کے لیے مفید موقع ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اوباما حکومت کو چاہیے کہ مصر پر واضح کر دے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اس کا تعاون کافی نہیں ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ مصری اپوزیشن کے حقوق کی پامالی پر اسے خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے یہ بھی لکھا ہے کہ مصری صدر کے حالیہ اچانک فیصلے سے امریکی انتظامیہ کی قبل از وقت بے خبری سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشرق وسطی میں امریکی اثرونفوذ میں کمی آئی ہے۔
 
ان تبصروں اور امریکی صدر کے مختلف سمتوں میں کیے گئے مذکورہ اقدامات و اظہارات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ مصری صدر امتحانات سے گزر رہے ہیں۔ وہ مصر کے انقلابیوں کو مطمئن بھی کرنا چاہتے ہیں اور اسرائیل و امریکہ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔ کیا یہ دونوں مرحلے ساتھ ساتھ طے کیے جاسکتے ہیں؟ یہ سوال مصری صدر ہی کے لیے نہیں بلکہ اخوان المسلمین کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ مصر کے جن عوام نے قاہرہ میں اسرائیلی سفارتخانے پر قبضہ کرکے اس پر سے اسرائیلی پرچم اتار کر مصری پرچم لہرایا تھا، وہ اس ساری صورت حال سے کب تک اور کیونکر چشم پوشی اختیار کریں گے۔؟
خبر کا کوڈ : 218272
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش