14
0
Sunday 3 Feb 2013 21:47

بھائیو! میرے بھائی کو سمجھاو

بھائیو! میرے بھائی کو سمجھاو
 تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com

بھائی کا رشتہ قدرت کا انمول عطیہ ہے۔ محبت، خلوص، یگانگت، ہمدردی اور چاہت کے سارے جذبات اس ایک رشتے میں بطریقِ احسن سما جاتے ہیں۔ دین مبینِ اسلام نے بھی مومنین کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے اور بھائی بھائی بن کر رہنے کی تلقین کی ہے۔ اگر کہیں شیطان کی مداخلت کے باعث دو بھائیوں کے درمیان چپقلش ہوجائے تو دینِ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو فوری طور پر اصلاحِ احوال کرنے کا حکم دیا ہے۔ اتنی محبت اور قرابت کے باوجود قرآن مجید نے بنی نوعِ انسان کو کچھ بھائیوں سے ہوشیار اور خبردار رہنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس ضمن میں حضرت ہابیل اور حضرت یوسف کا قصہ اپنے اندر کئی درس اور پیغامات لئے ہوئے ہے۔ ظہورِ اسلام کے بعد چشمِ فلک نے مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کے کئی مناظر دیکھے۔ خصوصاً ہجرتِ مدینہ کے ایّام میں مومنین کے درمیان جو اخوّت دیکھنے میں آئی، وہ رہتی دنیا تک تاریخ بشریّت کے ماتھے کا جھومر بن کر اقوام عالم کے دلوں کو گرماتی رہے گی۔ اسی طرح ظہورِ اسلام کے بعد مسلمانوں کے درمیان کچھ ایسے قابیل صفت لوگ بھی پیدا ہوئے، جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر مسلمانوں کے درمیان وحدت و اخوت اور بھائی چارے کی جڑیں کاٹیں اور مسلمانوں میں فرقہ واریت اور تفرقہ بازی کے شجر کو پروان چڑھایا۔ 

یوں تو ان قابیل زادوں کی فہرست بہت طویل ہے، لیکن عصرِ حاضر میں ان کی بھرپور نمائندگی "آلِ سعود" نے کی ہے۔ ہم یہاں پر یہ حقیقت بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ بعض احباب آلِ سعود کے چہرے سے نقاب ہٹانے سے اس لئے کتراتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسا کرنے سے شیعہ و سنّی مسلمانوں کے درمیان اختلافات ابھریں گے۔ لہذا ہم ان تمام حضرات کی خدمت میں یہیں پر دو باتیں عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ اولا ً تو وہ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ سعودی حکومت کے کرتوتوں کا فرزندانِ اسلام خصوصاً مکتبِ اہلِسنت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ سعودی حکمران نہ ہی تو اہلِ سنّت سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی اہلِ سنت کے مذہبی پیشوا سعودی حکمرانوں کو اپنے لئے آئیڈیل اور دینی رہبر سمجھتے ہیں۔ لہذا ہمیں شیعہ و سنّی سے بالاتر ہو کر پوری ملت اسلامیہ کے تحفظ کے لئے حقائق کو بیان کرنا چاہیے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ تحقیق کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں، اگر کوئی ہماری پیش کردہ معلومات کی نفی میں ٹھوس دلائل لاتا ہے تو ہم دل و جان سے ان کے دلائل کا استقبال کریں گے۔ ہمیں اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ آلِ سعود کی اسلام دشمنی شیعہ و سنّی سے آگے بڑھ کر دیوبندی مکتب کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اب جیّد دیوبندی اور وہابی علماء کرام بھی آلِ سعود کے اسلام کے ساتھ معاندانہ رویّے کی خلش کو محسوس کرتے ہیں۔ جس پر ہم پھر کسی وقت مفصّل روشنی ڈالیں گے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے سمیت دنیا بھر کے بہت سارے سادہ لوح مسلمان جب سعودی عرب کے پرچم پر لکھا ہوا "کلمہ طیّبہ" دیکھتے ہیں تو دینی بھائی چارے کی بنا پر وہ آنکھیں بند کرکے دل و جان سے سعودی بادشاہوں کو خلیفۃ المسلمین تسلیم کرلیتے ہیں۔ 

مثال کے طور پر آپ پاکستان اور افغانستان کی تباہی کے لئے القاعدہ اور طالبان کی تشکیل کے لئے سعودی اقدامات اور ہمارے عوام کی حمایت کو دیکھ لیں۔ سعودی عرب نے امریکی مفادات کی خاطر طالبان اور دیگر دہشت گرد ٹولوں کی داغ بیل ڈالی تو ہماری سادہ لوح عوام نے بھی ان لشکروں اور سپاہوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہا، اسی طرح جب سعودی حکمرانوں نے افغانستان کے ذریعے امریکی عزائم کو آگے بڑھانے کے لئے "الجہاد الجہاد" کا نعرہ لگایا تو ہماری عوام نے بھی "لبّیک لبیّک" سے جواب دیا۔ ہماری قوم کے بہترین دماغوں کو دہشت گردی کے زہر سے مسموم کیا گیا، بہترین علمی مراکز یعنی دینی مدارس کو مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریّت پھیلانے کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا گیا اور ہماری مسلّح افواج کے مقدس جوانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کیا گیا۔ اگر ہم بروقت اپنی عوام کو سعودی عرب کا اصلی چہرہ دکھاتے تو ہمیں یہ سب مظالم برداشت نہ کرنے پڑتے۔ 

اس وقت پاکستان میں محسود گروپ اور تحریک طالبان وغیرہ کے نام سے جتنے گروپس بھی دہشت گردی میں مصروفِ عمل ہیں، ان سب کو سعودی عرب کی براہِ راست حمایت حاصل ہے اور یہ سب گروپ بھی آلِ سعود کی نمک خواری کا حق ڈنکے کی چوٹ پر ادا کرتے ہیں۔ ہم ان میں سے چیدہ چیدہ گروپوں کا ذکر کئے دیتے ہیں۔ جلال الدین حقانی گروپ، بیت اللہ محسود گروپ، حافظ گل بہادر گروپ، مولوی نذیر گروپ، مولوی فقیر محمد گروپ، عبداللہ محسود گروپ، تحریک طالبان سوات، عصمت اللہ معاویہ گروپ، قاری حسین گروپ، بنگالی گروپ، بدر منصور گروپ، عبدا لجبار گروپ، منگل باغ گروپ، سیف اللہ اختر گروپ، قاری یاسین گروپ، قاری ظفر گروپ، الیاس کشمیری گروپ، رانا افضل عرف نور خان گروپ، کلیم اللہ گروپ، قاری شکیل گروپ، گل حسن احمد خان گروپ، شیخ معراج گروپ، ابو قتادہ گروپ، شیخ فاتح عثمان گروپ، البدر گروپ، ہلال گروپ، کمانڈر طارق گروپ، مولوی رفیق گروپ، تکفیری عرب ازبک گروپ، امجد فاروقی گروپ۔

یہ سارے گروپ سرزمینِ پاکستان کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے قتلِ عام پر کمر باندھے ہوئے ہیں، ان کے مظالم کے باعث کتنے سہاگ اجڑ چکے ہیں، کتنے گھر ویران ہوچکے ہیں، کتنے بچے یتیم ہوچکے ہیں اور کتنے ہی خاندان بے آسرا ہوچکے ہیں، لیکن سعودی عرب کو ہمارے حال پر کوئی رحم نہیں آرہا۔ وہ مسلسل دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی اور مدد کئے جا رہا ہے۔ اپنی پوری تاریخ میں آلِ سعود نے کبھی اسلام یا مسلمانوں کے مفادات کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا، جب بھی کچھ کیا تو مسلمانوں کو باہم دست و گریبان کرنے کے لئے کیا۔ 

یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آپ تحقیق کے جدید ذرائع سے لیس ہوکر پاکستان اور افغانستان سے باہر نکلیں اور اپنے ارد گرد کے اسلامی ممالک کے حالات پر نگاہ ڈالیں۔ آپ کو بحرین کے نہتے مسلمانوں پر ٹینک چڑھاتے ہوئے سعودی فوجی نظر آئیں گے۔ آپ "شام" پر نگاہ ڈالیں آپ کو اسرائیل کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شام کے تہی دست مسلمانوں پر شب خون مارنے میں سعودی حکومت پیش پیش نظر آئے گی۔ پاکستان اور افغانستان کی مانند شام اور بحرین میں بھی جتنے بھی خونخوار لشکر اور ٹولے ہیں، سعودی حکومت ببانگِ دہل ان سب کی مدد و حمایت کر رہی ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں، اب ذرا ایک اور مثال سے سعودی عرب کی نگاہ میں اسلامی برادری کی اوقات کا اندازہ بھی لگائیں۔ 

قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کے حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سعودی عرب کے سامنے مسلسل دم ہلا رہے ہیں، لیکن سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو تنہا چھوڑا ہوا ہے بلکہ اس نے نہایت حساس موقعوں پر بھارت کی حوصلہ افزائی کرکے کروڑوں پاکستانیوں کے دینی جذبات کی بے احترامی بھی کی ہے۔ یہ 1956ء کی بات ہے کہ ابھی مسئلہ کشمیر پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر تھا اور پاکستانی مسلمان کشمیر کی آزادی کے لئے سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے کہ ایسے میں جواہر لال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ خود کو توحید پرست کہنے والی اور توحید کی آڑ میں صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کو منہدم کرنے والی سعودی حکومت نے پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے نہرو کا شاندار استقبال کرنے کے ساتھ ساتھ "مرحبا یا رسول الاسلام" کے نعرے لگائے۔

اس واقعہ کے اگلے روز "روزنامہ ڈان" نے نہرو کو رسول الاسلام کہنے پر سعودی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے اس واقعہ پر اظہار افسوس کیا۔ جس پر سعودی ایمبیسی نے یہ وضاحت کی کہ "رسول الاسلام" سے مراد امن کا پیغمبر ہے، جس کے جواب میں اگلے دن روزنامہ ڈان نے لکھا کہ ملت پاکستان اس جملے کے معانی اچھی طرح جانتی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ دین اسلام کے ظہور کے بعد یہ جملہ پیغامبر اسلام (ص) سے مخصوص ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ ملت پاکستان کو اس بات پر بھی حیرانگی تھی کہ ہزاروں ہندوستانی اور کشمیری مسلمانوں کا قاتل سعودی عرب کے لئے "امن کا پیغمبر" کیسے بن گیا ہے۔ 

اب ذرا سعودی عرب کے پرچم پر لکھے ہوئے کلمہ طیّبہ کا پس منظر بھی جان لیجئے۔ یہ تیرھویں ہجری اور اٹھارہویں صدی عیسوی کی بات ہے کہ جب آل سعود عرب خانہ بدوشوں کی صورت میں زندگی کرتے تھے اور نجد کے نزدیک درعیہ کے مقام پر اس خاندان کی ایک چھوٹی سی حکومت تھی۔ اس دوران ابن تیمیہ کی تعلیمات سے متاثر ایک شخص محمد ابن عبدالوہاب نے درعیہ کے حاکم محمد ابن سعود سے ملاقات کی اور اسے عربستان میں بکھرے ہوئے مختلف قبائل کو اسلام کے نام پر متحد کرنے کا مشورہ دیا۔ محمد ابن سعود نے اس مشورے کو پسند کیا اور دونوں کے درمیان یہ طے پایا کہ اس کے بعد محمد ابن وہاب کے افکار کی ترویج و اشاعت ابن سعود کا اولین فریضہ ہے اور ابن سعود کی حکومت کو اسلامی و دینی حکومت کے طور پر معروف کرانا اور لوگوں کو ابن سعود کے گرد جمع کرنا محمد ابن وہاب کی ذمہ داری ہے۔

محمد ابن سعود کے بعد اس کی آل نے بھی اس معاہدے کی پاسداری کی اور مختلف نشیب و فراز آنے کے باوجود ابن وہاب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیا۔ یوں وہابیت اور آل سعود نے یک جان اور دو قالب بن کر ارتقائی مراحل طے کئے۔ آل سعود کا ایک تاریخی معاہدہ محمد ابن عبدالوہاب کے ساتھ ہے، جس کی رو سے یہ حکومت اپنے آپ کو اسلامی کہلاتی ہے اور دوسرا معاہدہ استعمار کے ساتھ ہے، جس کے باعث سعودی حکومت امریکہ اور برطانیہ کی خدمت کرتی ہے۔ صاحبان علم و شعور کے لئے تحقیق کے دروازے کھلے ہیں، وہ بلاتعصب علمی و فنّی طریقوں سے اس بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جب برطانیہ و فرانس کو تیل کی طاقت کا اندازہ ہوا تو انہوں نے 1919ء میں مشرق وسطٰی کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں عراق، اردن اور سعودی عرب سمیت کچھ ممالک برطانیہ کے جبکہ ایران، ترکی اور شمالی افریقہ، فرانس کے حصّے میں آئے۔ 

استعماری طاقتوں نے سعودی عرب میں آل سعود سے، کویت میں آل صباح سے، قطر میں آل ثانی سے، امارات میں آل نہیان سے اور بحرین میں آل خلیفہ سے اس طرح کے معاہدے کئے کہ اگر انہیں حکومت دی جائے تو وہ خطے میں استعماری مفادات کا تحفظ کریں گئے۔ ان معاہدوں کے باعث مذکورہ خاندانوں کو مذکورہ ریاستوں میں حکومتیں سونپی گئیں اور مذکورہ حکومتوں نے اپنی بقاء اور استحکام کی خاطر ہر دور میں استعمار کی ڈٹ کر حمایت اور مدد کی۔ تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ 1930ء تک سعودی عرب براہ راست برطانوی مفادات کا محافظ تھا۔ 1930ء میں امریکہ نے اپنے ایک کارندے ارنسٹ فیشر کے ذریعے ایک برطانوی جاسوس ”جان فیلبی” خریدا۔ John Fillby . یہ شخص 1917ء میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں ملازم ہوا تھا اور تقریباً 35 سال تک سعودی عرب میں ابن سعود کا مشیر رہا تھا۔ 

اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ نجد میں قدم رکھنے والا یہ پہلا یورپی باشندہ ہے۔ یہ اپنے زمانے کا ایک بہترین لکھاری اور مصنف بھی تھا اور اس کی کئی کتابیں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ اسے مشرق وسطٰی کے بارے میں حکومت برطانیہ کی پالیسیوں سے اختلاف تھا، جب یہ اختلاف شدید ہوگیا تو 1930ء میں اس نے برطانوی سفارت سے استعفٰی دے دیا۔ اس کے استعفٰی دیتے ہی اس کی تاک میں بیٹھے امریکی کارندے نے اس گلے لگا لیا۔ اس نے ابتدائی طور پر تیل نکالنے والی ایک امریکی کمپنی میں مشاور کی حیثیت سے کام شروع کیا اور خاندان سعود سے دیرینہ تعلقات کی بنا پر سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تیل نکالنے کا ایک بڑا منصوبہ منظور کروایا، جس سے برطانیہ کی بالادستی کو دھچکا لگا اور خطّے میں امریکی استعمار کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ و سعودی عرب دونوں اپنے تعلقات کے سلسلے میں جان فیلبی کی خدمات کے معترف ہیں۔ 

اس وقت سعودی حکومت دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے استعماری مفادات کے دفاع کے لئے اپنے “آن دی ریکارڈ ” معاہدوں کو پورا کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس وقت سعودی عرب کی جیلوں میں تقریباً تیس ہزار سیاسی رہنما اور کارکن پابندِ سلاسل ہیں۔ مصر کے سیاسی رہنما محسن بہشتی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں قیدیوں کے حقوق کی اس حد تک خلاف ورزی ہوتی ہے کہ اس ملک کی جیلیں دنیا کی خوفناک ترین جیلیں شمار ہوتی ہیں۔ کچھ دن پہلے یمن کی قومی انسانی حقوق کی انجمن نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی جیلوں میں ایک سو یمنی باشندوں کو تشدد کرکے قتل کیا جاچکا ہے، جن کی لاشیں سرحدی شہر "الخوبہ" کے ایک اسپتال میں پڑی ہیں۔ 

انجمن نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ سعودی سیکورٹی ادارے نے یمنی باشندوں کو تفتیش کے بہانے گرفتار اور نجران سمیت کئی سرحدی علاقوں کی جیلوں میں منتقل کیا ہے، جبکہ اکثر اسیروں کی عمریں پندرہ سال سے کم ہیں، جو کام کی تلاش میں سعودی عرب میں داخل ہوئے تھے اور انہیں بغیر کسی جرم کے قید و بند اور تشدد اور قتل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انجمن نے کہا ہے کہ سعودی حکام نے ابھی تک ہزاروں یمنی عوام کو حبس بےجا میں رکھا ہے اور وہ ان کی گرفتاری کی وجہ بیان کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں عدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
 
اس وقت شام کی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔ سعودی عرب، اسرائیل کے مقابلے میں شام کو سرنگوں کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ پر جب بھی اسرائیل نے حملہ کیا، سعودی عرب نے اپنے مخصوص انداز میں اسرائیل کا بھرپور ساتھ دیا۔ موجودہ ناقابلِ تردید شواہد کی روشنی میں ایک اہم ذمہ داری ہم سب کے کاندھوں پر آپڑی ہے اور وہ یہ کہ ہم سب، بلکہ پورا عالمِ اسلام، خصوصاً وہ گروہ اور دھڑے جن کے سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ اور مضبوط تعلقات ہیں۔ انہیں چاہیے کہ سعودی حکمرانوں کو ان کے منفی کردار سے روکیں، اپنی عوام کو بتائیں کہ سعودی حکمران، اسلام کے رول ماڈل نہیں ہیں۔ وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنّی، حتّیٰ کہ دیوبندی اور وہابی مکتبِ فکر کے باشعور علماء بھی ان کی حرکات سے نالاں ہیں۔ 

اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا آلِ سعود سے محبت کا دم بھرنے والے اتنے گروہوں میں سے کوئی ایک بھی ہے، جو اس نازک وقت میں ملتِ اسلامیہ کے کام آئے۔ جو آلِ سعود کو نفرتوں کے الاو سے نکال کر محبت، اخوّت اور بھائی چارے کی وادی کی طرف لانے کی سعی اور جدوجہد کرنے کا علم اٹھائے۔ اگر ملّت اسلامیہ کا باشعور طبقہ تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر سعودی حکمرانوں کو عصرِ حاضر کے شیطان امریکہ کا آلہ کار بننے کے بجائے امت مسلمہ کے ساتھ بھائی بھائی بن کر آگے بڑھنے پر مجبور کرے، تو آج بھی دنیاء اسلام کا نقشہ تبدیل ہوسکتا ہے، فرقہ واریّت کا ناسور ختم ہوسکتا ہے اور مسلمان اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکتے ہیں۔

سعودی عرب ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، اسے "عصرِ حاضر کے شیطان امریکہ" کے چنگل سے نکالنا پورے عالمِ اسلام کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ہمیں آلِ سعود کے غلط اقدامات کی اندھی حمایت کرنے کے بجائے انہیں شفاف انداز میں حقائق سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہر صورت اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر کہیں شیطان کی مداخلت کے باعث دو بھائیوں کے درمیان چپقلش ہوجائے تو دینِ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو فوری طور پر اصلاحِ احوال کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیز اتنی محبت اور قرابت کے باوجود قرآن مجید نے بنی نوعِ انسان کو کچھ بھائیوں سے ہوشیار اور خبردار رہنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 236828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
جناب یہ بھائی بہت بدمعاش ہے۔ اسے جوتے مارے بغیر یہ ٹھیک ہونے والا نہیں۔
Iran, Islamic Republic of
سعودی عرب کے پرچم پر لکھے ہوئے کلمہ طیّبہ کا پس منظر بھی جان لیجئے۔good point
خدا آپ کو سلامت رکھے، نہایت ہی عمدہ مقالہ ہے
United Kingdom
An eye opening Column. Should be spread as much as possible
United States
great
United States
it was most _important topic, very very good sir, spread it
.
Iran, Islamic Republic of
خدا کے لئےاس تحریر کو ہینڈبل کی صورت میں پورے پاکستان میں پھیلایا جائے۔
Iran, Islamic Republic of
This Cat is already out of bag

We refuse to see it.It is one of the best Columns of Nazar Haffi bhai

Must be propagated as much as possible

The said Article by Nazar Bhai is very Good combination of facts and feelings that are both aimed at bringing a Positive change in the views of our people who just focus on the label Rather Than the Content!
بھئی کیا کہنے!
Iran, Islamic Republic of
Must be propagated as much as possible اس تحریر کو بار بار چھاپیے، تقسیم کیجئے، لوگوں تک پہچائیے۔ یہ تحریر ہمارا بہترین میڈیاہ ے۔ ہم اس طرح کی پرکشش تحریروں کے ذریعے دشمن کے محاذ کو باآسانی فتح کرسکتے ہیں۔ انہیں ضائع ہونے سے بچاہیے۔ ان سے فائدہ اٹھائیے۔
This Cat is already out of bag

We refuse to see it.It is one of the best Columns of Nazar Haffi bhai
Iran, Islamic Republic of
it was most __important topicAn eye opening Column. Should be spread as much as possibleMust be propagated as much as possible a Good combination of facts and feelings...we must play our role to spresd this written.,
Australia
بہت خوب، آل سعود كے مظالم اور جنايات بشمار ہيں ، جيسے عراق كے حالات اور كئى، اميد ہے كه مستقبل ميں آپ اور زياده روشنى ڈالينگے. اور اگر ہو سكے تو كتاب کا حوالہ دیں، جس ميں مزيد وضاحت اور مكمل تفصيل ہو ، شكريہ
United States
آل سعود کی اندھی تقلید کرنے والوں کے لیے یہ ایک روشن پیغام ہے۔
Iran, Islamic Republic of
ہم نے تو بہت سمجھایا ہے لیکن یہ بھائی امریکہ کی گود سے نکلتا ہی نہیں۔ بہت مکار بھائی ہے یہ۔
ہماری پیشکش