0
Sunday 31 Oct 2010 11:20

صدر اوباما کا دورہ بھارت

صدر اوباما کا دورہ بھارت
تحریر:آغا مسعود حسین
 صدر اوباما 7 سے 10 نومبر تک بھارت کا دورہ کریں گے انہیں اس دورے کی دعوت بھارت کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنے دورے امریکہ کے دوران دی تھی۔صدر اوباما کا کسی بھی بیرون ملک اتنا عرصے قیام نہیں رہا ہے،جتنا بھارت میں ہو گا۔بھارت کے عوام میں ان کے دورے سے خصوصی دلچسپی کا اظہار ہو رہا ہے اور انہیں امید ہے کہ صدر اوباما کے دورے سے بھارت اور امریکہ کے مابین تعلقات میں مزید اضافہ ہو گا۔تاہم بھارتی میڈیا میں اس ضمن میں زیادہ خوشی کا مظاہرہ نہیں ہو رہا ہے،جیسا کہ چار سال قبل امریکی سابق صدر جارج بش کے دورے میں دیکھنے میں آیا تھا،اس وقت جارج بش نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے معاہدے پر دستخط کئے تھے،جس کی وجہ سے بھارت اب جو آسانی سے نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے متعلق تمام جدید ساز و سامان عالمی منڈی سے خرید سکتا ہے۔
صدر اوباما ایک ایسے وقت میں بھارت کا دورہ کر رہے ہیں جب انہیں اپنے ملک میں خاصے بڑے مسائل کا سامنا ہے،جس میں معیشت کی مکمل بحالی اور افغانستان کی جنگ سے عزت کے ساتھ نکل آنا شامل ہے بلکہ بعض امریکی تھنک ٹینک کا یہ خیال ہے کہ اوباما کو 2 نومبر کو ہونے والے درمیانی مدت کے انتخابات میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔امریکہ میں درمیانی مدت کے انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں،صدر اوباما بھارت کا دورہ کر کے کئی اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھارتی قیادت کے ساتھ بات چیت کریں گے۔خصوصیت کے ساتھ وہ بھارت کے رہنماؤں کو افغانستان جنگ سے متعلق اپنی آئندہ کی حکمت عملی کے ضمن میں ہم خیال بنانے کی کوشش کریں گے۔ویسے بھی کیونکہ بھارت نے امریکہ اور کرزئی کی آشیرباد سے افغانستان میں سوا بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے اور اس وقت بھی وہ بعض پروجیکٹوں پر کام کر رہا ہے،جس میں بڑی تعداد میں بھارتی کارکن کام کر رہے ہیں۔
خیال ہے کہ بھارتی قیادت صدر اوباما سے درخواست کرے گی کہ وہ عراق کی طرح افغانستان میں اپنی فوج کا کچھ حصہ رکھے تاکہ طالبان اقتدار پر قبضہ نہ کر سکیں کیونکہ بھارت کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر امریکہ 2011ء میں افغانستان سے چلا جاتا ہے اور اس کے جانے کے بعد طالبان اقتدار میں آ جاتے ہیں تو بھارت کی Investment صفر ہو جائے گی،چنانچہ بھارت کا مفاد اس میں ہے کہ امریکی افواج افغانستان میں رہیں تاکہ طالبان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے مفادات پر بھی کاری ضرب لگائی جا سکے۔صدر اوباما کا بھارت کی اس درخواست پر کیا اثر ہو گا،یہ تو آنے والے حالات ہی بتا سکیں گے لیکن اوباما کی یہی خواہش ہو گی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے ہمسائیگی کے تعلقات قائم ہو جائیں،تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ نہ صرف افغانستان کے مسئلے پر توجہ دیکر اس کا کوئی باعزت حل نکال سکیں،تو دوسری طرف چین کے اس خطے میں تیزی سے بڑھتے ہوئے اور ابھرتے ہوئے اثرات کو بھارت کی مدد سے اگر زائل نہ کر سکیں تو کم ضرور کرسکیں۔ 
امریکہ کو پاکستان کی بھارت کے سلسلے میں پالیسی کا احساس ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے اہم مسئلہ کشمیر کا ہے جس کو حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت کے درمیان اچھے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے ہیں۔غالباً اسی قسم کے خیالات کا اظہار پاکستان کے وفد نے صدر اوباما کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے دوران کیا تھا۔اور بتایا تھا کہ کس طرح بھارت کی چھ لاکھ سے زائد فوج کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہی ہے بلکہ گزشتہ بیس سال سے کشمیریوں پر بھارتی فوج کا ظلم جاری ہے،جس میں اب تک سوا لاکھ سے زائد کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔اس وقت بھی گزشتہ چار ماہ سے نہتے کشمیری بھارتی فوج کے ظلم و جبر کے خلاف برسر پیکار ہیں اور سو سے زائد نوجوان شہید ہو چکے ہیں۔امریکہ نے کشمیری نوجوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار تو کیا ہے لیکن بھارتی فوج کی مذمت نہیں کی اور اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے ثالثی کا کردار ادا کرنے سے بھی معذرت کر لی ہے۔
بھارت صدر اوباما کو یہ باور کرانے کی کوشش کرے گا کہ جنوبی ایشیا میں امن کی راہ میں اور دیگر مسائل کے علاوہ چین اور پاکستان کا گٹھ جوڑ رکاوٹ بنا ہوا ہے بلکہ یہ دونوں ممالک بھارت کے ”اندرونی“ معاملات میں بھی مداخلت کا سبب بن رہے ہیں،تاہم صدر اوباما کو بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات کے سلسلے میں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ اس خطے میں یعنی پاکستان کے ایک حصے میں (مشرقی پاکستان) پر بھارت نے کھلی جارحیت کر کے اس کو علیحدہ کیا تھا،یہ بات اب امریکی تھنک ٹینک بھی کہہ رہے ہیں۔دراصل پاکستان کو تباہ وبرباد کرنا بھارت کے حکمرانوں کی روز اول سے پالیسی رہی ہے،اس کا احساس خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی تھا جنہوں نے امریکہ کے ایک سابق مقبول صدر آنجہانی ٹرومین(Truman)کو ایک خط میں لکھا تھا کہ پاکستان کی فوج کو اس وقت اسلحہ کی اشد ضرورت ہے۔امریکہ یہ اسلحہ پاکستان کو دے سکتا ہے کیونکہ ہمارے اس نوزائیدہ ملک کو (ہندو سامراج)Hindu سے بہت بڑا خطرہ ہے،جو مسلمانوں کے اس ایک آزاد ملک کی خود مختاری کو دل سے تسلیم نہیں کرتا۔“
ان حقائق کے پس منظر میں خصوصیت کے ساتھ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانے سے متعلق امریکہ کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں گی۔پاکستان کو توڑنے میں بھارت کا کردار ساری دنیا میں عیاں ہے اور اس وقت بھی اس کے ایجنٹ بلوچستان اور فاٹا میں تخریب کاری کر کے پاکستان کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔یہ ٹھیک ہے کہ بھارت صدر اوباما کے اس دورے سے ہائی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور امریکی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ اپنی برآمدات میں بھی اضافے کا خواہشمند ہو گا،لیکن جب تک ان مسائل کو حل کرنے کی طرف سنجیدگی سے کوشش نہ کی جائے جن میں کشمیر اور پانی کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔امریکہ ایک سپر پاور ہے اس کو اپنے مفادات کے ساتھ پاکستان کے مفادات کا بھی خیال رکھنا چاہئے،جو اس کا ساٹھ سال سے دوست رہا ہے اور اب بھی اس کا حلیف ہے جبکہ بھارت ماضی میں روس کے ساتھ ملکر امریکہ کے معاشی و سیاسی مفادات پر کاری ضربیں لگا رہا تھا اور اس کو عالمی امن کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے رہا تھا۔آج وہی بھارت جو امریکہ کو عالمی سامراج کہہ کر پکارتا تھا اس کے تلوے چاٹ کر اس خطے میں امن کے لئے خطرے کا باعث بن رہا ہے۔ 

امریکی صدر کا دورہ بھارت
تحریر:عباس مہکری
امریکہ کے صدر بارک اوباما 6 نومبر 2010ء کو بھارت کے چار روزہ دورے پر پہنچ رہے ہیں لیکن اُن کا پاکستان کا دورہ کرنے کا پروگرام نہیں ہے۔امریکہ کو شاید اس بات کا احساس نہ ہو،لیکن پاکستان کے لوگ اس مرحلے پر اس بات کو خاص طور پر محسوس کریں گے کیونکہ امریکہ پاکستان کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر کہتا ہے اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے بھی زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اپنے ناقابل تلافی نقصانات کئے ہیں۔عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ کوئی بھی امریکی صدر جب بھی جنوبی ایشیاء کے دورے پر آتا ہے وہ بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی دورہ کرتا ہے لیکن صدر بارک اوباما نے پاکستان کو اپنے حالیہ دورہ جنوبی ایشیاء میں نظر انداز کر کے اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر پاکستان کی توہین کا تاثر دیا ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو زیادہ اہمیت دینے کا بھی تاثر ملتا ہے۔
 صدر اوباما کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان میں امریکہ کا امیج مسلسل خراب ہو رہا ہے۔پاکستان کے دورے کو اپنے پروگرام میں شامل نہ کر کے اُنہوں نے گرتے ہوئے امریکی امیج کو سنبھالا دینے کا موقع ضائع کر دیا ہے،تاہم اُنہیں دورہ بھارت کے دوران اس طرح کے بیانات سے گریز کرنا چاہئے،جس طرح کے بیانات برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے دورہ بھارت کے دوران دیئے تھے۔ برطانوی وزیراعظم نے بھارتی الزامات کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ڈیوڈ کیمرون کے اس بیان پر پاکستان میں زبردست غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ امریکی صدر نے اپنے دورے میں پاکستان کو نظر انداز کر کے پاکستانی حکام کے لئے بھی مسائل پیدا کرے گا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے وقت سے امریکی کیمپ میں رہا ہے اور بھارت سوویت یونین (روس) کے قریب رہا ہے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ بھارت کو مختلف اسباب کی وجہ سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ایک وجہ تو یہ ہے کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے۔امریکی مصنوعات خصوصاً دفاعی ہتھیار کے لئے بھارت بڑا خریدار ہو سکتا ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ چین کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے بھارت کو خطے میں ایک طاقت بنانا چاہتا ہے۔امریکہ افغانستان میں بھارت کا کردار بڑھانا چاہتا ہے اور بھارتیوں کی بھی یہی خواہش ہے۔اس سے بھارت کا علاقائی طاقت بننے کا خواب نہ صرف پورا ہو گا بلکہ پاکستان کو دیوار سے لگانے کی اُس کی منصوبہ بندی بھی کامیاب ہو گی۔امریکہ کو چاہئے کہ وہ تصویر کا دوسرا رُخ بھی سامنے رکھے مثلاً
1-بھارت کی فوجی تیاریاں اور جوہری توسیع ہمسایہ ملکوں کے لئے خطرہ ہے۔بھارت چاہتا ہے کہ اُس کے جوہری اثاثوں میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو،وہ اپنی فوجی طاقت کو خطے میں بالادستی قائم کرنے کے لئے استعمال کرنے کا عزم رکھتا ہے۔بھارت کی ”پروپیگنڈا مشین“ بڑی چالاکی سے مسلسل یہ تاثر دے رہی ہے کہ اُس کا دفاع جس قدر مضبوط ہو گا،اسی قدر وہ امریکہ اور مغرب کے معاشی مفادات کا تحفظ کر سکے گا۔بھارت دنیا بھر سے روایتی اور جوہری ہتھیار خریدنے کے لئے بڑی رقوم خرچ کر رہا ہے،ایسی صورت حال سے جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک خوف کا شکار ہیں اور اس کے نتیجے میں خطے میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔ایک عالمی لیڈر کی حیثیت سے صدر بارک اوباما کو اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جنوبی ایشیاء میں علاقائی کشیدگی پیدا نہ ہو اور اسلحہ کی دوڑ بھی شروع نہ ہو۔صدر اوباما کے بھارت کے دورے کا بظاہر بنیادی مقصد بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو فروغ اور دفاعی معاہدوں کو حتمی شکل دینا ہے اس دورے سے امریکہ بھارت سے اربوں ڈالر کما سکتا ہے،لیکن بھارت کو جدید ہتھیار فروخت کرنے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ پاکستان اور چین کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور امریکہ خطے میں فوجی عدم تعاون پیدا کر رہا ہے۔اس سے خطے میں امن اور اقتصادی ترقی کا خواب بھی شرمندہٴ تعبیر نہیں ہوسکتا۔یہ بات اس خطے میں خود امریکی مفادات کے لئے بھی ٹھیک نہیں ہو گی۔
2۔جنوبی ایشیاء میں امن قائم نہ ہوا تو امریکہ کے لئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیاء کی دو جوہری طاقتوں بھارت اور پاکستان کے مابین تصادم کے بنیادی سبب کے طور پر ہر وقت موجود ہے۔صدر بارک اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں بار ہا یہ کہا تھا کہ جنوبی ایشیاء میں امریکی مفادات کے بہتر تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے۔کشمیریوں کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے بھارتی افواج کی طرف سے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے دہشت گردی کو پنپنے کے لئے زمین فراہم کر دی ہے۔صدر بارک اوباما ایسی صورت حال کو سمجھتے ہیں۔اُنہیں چاہئے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا اپنا وعدہ پورا کریں۔یہی وقت ہے کہ صدر اوباما اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی قیادت کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے اقدامات کریں۔کشمیر کا مسئلہ پرامن طور پر حل ہونے سے امریکہ کے لئے افغانستان سے فوجی انخلاء کے سازگار حالات پیدا ہوں گے۔صدر اوباما کو اس دورے میں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے،بھارت کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ امریکہ کے لئے ایسے سازگار حالات پیدا ہوں۔
3۔ دورہ بھارت کے دوران صدر بارک اوباما کو تصویر کا یہ رُخ بھی سامنے رکھنا ہو گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف بہت بڑی قربانیاں دی ہیں بلکہ خود دہشت گردوں کا شکار رہا ہے۔یہ ناانصافی ہوگی کہ پاکستان کو نظر انداز کیا جائے۔دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو فوجی اور اقتصادی امدادی کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔صدر اوباما بھارتی قیادت سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان پر دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات نہ لگائے۔اس سے پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔


خبر کا کوڈ : 42315
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش