0
Tuesday 23 Aug 2011 18:58

مصری عوام کی پیش رفت اور یوم القدس

مصری عوام کی پیش رفت اور یوم القدس
تحریر:طاہر یٰسین طاہر
صفحہء وقت پر تحریر ہو چکا ہے کہ عرب حکمران آئندہ پالیسیاں اپنے عوام کی خواہشات کے مطابق ترتیب دیں گے۔ مصر میں اس کی جھلک نمایاں ہے۔ اگرچہ دیگر عرب ممالک اپنے عوام کو فریب دینے کے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں مگر تا بہ کے؟ مضبوط و مستحکم سمجھے جانے والے عرب حکمرانوں کے محلات میں بھی عوامی انقلاب کی گونج محسوس کی جا رہی ہے۔ وہ بھی خوفزدہ ہیں۔ فرعون مصر حسنی مبارک کی اسرائیل نواز پالیسیاں اسے لے ڈوبیں۔ مصری عوام کو بڑا رنج تھا کہ حسنی مبارک نے غزہ کے محصورین کیلئے زمینی راستہ نہ دے کر یزید وقت کا ساتھ دیا۔ حسنی مبارک کی شرمناک اور عبرت ناک رخصتی کے بعد سامراج مصری انقلاب کو نقصان پہنچانے میں لگا ہوا ہے۔ مگر گزشتہ دنوں جو ہوا وہ دنیا کی توقعات سے بڑھ کر ہے۔ 
جمعرات کو اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کرکے پانچ مصری پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا۔ اس پر مصر نے حکومتی سطح پر احتجاج کیا، مصر نے کہا کہ یہ حملہ دونوں ممالک کے درمیان 1979ء میں ہونے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ مصری پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد قاہرہ میں ہزاروں افراد نے پانچ مصری اہلکاروں کی ہلاکت کے خلاف اسرائیلی سفارتخانے کے باہر مظاہرے کیے۔ یہ مظاہرے اتنے شدید تھے کہ قاہرہ میں ایک نوجوان نے اسرائیلی سفارتخانے کی چھت پر چڑھ کر اسرائیلی پرچم کی جگہ مصر کا پرچم لہرا دیا۔ مصر میں یہ مظاہرے اسرائیلی معذرت کے باوجود بھی جاری ہیں۔ مصر نے اسرائیلی ردعمل کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلا لیا ہے۔ مصر کی جانب سے اپنے سفارت کار کو واپس بلانے کے اقدام کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے غزہ کی سرحد کے قریب مصر کے پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔ نیز اسرائیل سے مصری سفیر کی واپسی اور قاہرہ میں اسرائیل مخالف مظاہروں کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک نے کہا کہ انہوں نے اس واقعہ کی مصر کی فوج کے ساتھ مشترکہ تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ایہود بارک نے کہا کہ پہلے اسرائیل اپنے طور پر خود اس واقعے کی تحقیقات کرے گا اور پھر مشترکہ تحقیقات کے ذریعے مناسب نتائج اخذ کیے جائیں گے۔ گزشتہ دس سالوں میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ مصر نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو احتجاجاً بلا لیا ہو۔
مصری پولیس اہلکاروں کی ہلاکت پر جو ردعمل قاہرہ کی طرف سے سامنے آیا کیا وہ مصر کی سرکاری پالیسی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ اس بات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ یہ مصر کی حکومتی پالیسی نہیں بلکہ قاہرہ پر شدید عوامی دباﺅ ہے جو مصری حکومت کو اسرائیل کے سامنے لے آیا۔ مصری عوام دل و جان سے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حکمران بھی قومی حمیت و غیرت کا مظاہرہ کریں اور حسنی مبارک کی اسرائیل نواز پالیسیوں کو خیر باد کہہ دیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مصری عوام حسنی مبارک کی رخصتی کے بعد مطمئن ہو گئے تو اس کی بھول ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ فرعون وقت کی رخصتی ان کا پہلا ہدف تھا۔ اب مصری عوام موجودہ حکومت کو سیاسی اصلاحات لانے کے ساتھ ساتھ گزشتہ دور کی خارجہ پالیسی بھی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ 
قاہرہ میں اسرائیلی سفارتخانے پر مظاہرین کا حملہ اور پھر اسرائیلی پرچم کی جگہ مصر کے پرچم کا لہرانا بڑا دلکش منظر ہو گا۔ اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کی جانب سے مصری پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور اس واقع کی مشترکہ تحقیقات کرنے کے اعلان کے باوجود، عوامی ردعمل بڑھتا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ ہم توقع کر سکتے ہیں ایک دن مصر کی حکومت اسرائیلی سفیر کو ملک بدر بھی کرے گی مگر اس کیلئے ایسے ہی مسلسل عوامی دباﺅ کی ضرورت ہے۔ 
یہاں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اسرائیل کے دونوں بازو، امریکہ و برطانیہ معاشرتی و معاشی تنگی کا شکار ہیں۔ اس لیے قاہرہ میں اسرائیل مخالف مظاہروں پر ان کا کوئی ایسا ردعمل سامنے نہیں آیا جس کی اسرائیل کو ہمیشہ توقع رہتی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے ہنگاموں نے برطانوی انتظامیہ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اسے اب عالمی سطح پر امریکہ کے ساتھ مل کر جنگوں کو رواج دینے کے بجائے اپنے عوام کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ اسی طرح امریکہ اپنے معاشی بحران کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایسے وقت میں قاہرہ کے اندر اسرائیل مخالف مظاہرے اور پھر مصر کی جانب سے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لینا غیر معمولی واقعہ ہے۔
 اپنے راستے کی پہلی رکاوٹ مصری عوام عبور کر چکے ہیں۔ ان کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں اور ان کی منزل تھوڑے فاصلے پر ہے۔ وہ اب پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ سامراج اگرچہ اپنے ہتھکنڈوں سے مصری عوام کو فریب دینے کی کوشش ضرور کرے گا مگر وہ اس بار کسی فریب میں نہیں آئیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مصری عوام نہ صرف اپنے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں بلکہ وہ مصر کی خارجہ پالیسی سے بھی مطمئن نہیں۔ انہیں قاہرہ کا اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اور اسلامی مفادات کے برخلاف امن معاہدے کرنا بھی قطعاً گوارہ نہیں۔ وہ اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے، اس کے انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
 اگر آج دیگر عرب ممالک کے عوام بھی مصری عوام کے ہمنوا بن کر اپنے حکمرانوں پر دباﺅ بڑھائیں تو عرب اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ زمینی حالات بھی عرب عوام کے حق میں ہیں، بس انہیں مصری عوام کی طرح کمر ہمت باندھنا ہو گی۔ عرب آمریتوں اور بادشاہتوں کیلئے برا وقت شروع ہو چکا ہے۔ عوامی طاقت کو سرکاری فتوﺅں کے ذریعے نہیں دبایا جا سکے گا۔ یہ طے ہے کہ اب عرب حکومتیں اپنی خارجہ پالیسیوں میں اپنے عوام کی خواہشات کاخاص خیال رکھیں گی۔
ان حالات میں اسلامی دنیا عالمی یوم القدس منا رہی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پوری دنیا میں عام طور پر اور فلسطین و مصر میں خاص طور پر یہ دن یوم النکبہ کی طرح بہت مختلف ہو گا۔ قومیں جب خوف کا جوا اتار کر میدان میں نکل آئیں تو عزت کی زندگی کی منزل دو گام باقی رہ جاتی ہے۔ لگتا ہے کہ عرب دنیا کسی بڑے معجزے کے انتظار میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 94038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش