1
0
Wednesday 22 May 2024 10:34

بانی آئی ایس او علی رضا نقوی کا انٹرویو

بانی آئی ایس او علی رضا نقوی کا انٹرویو
انٹرویو: سید نثار علی ترمذی

سوال: آئی ایس او کے قیام کا خیال کیوں پیدا ہوا۔؟
جواب:
بنیادی خیال یوں پیدا ہوا کہ 1965ء تک شیعہ معاشرے اور علماء کی تقاریر (تعلیمات آل محمد) میں بھرپور تضاد محسوس کرتا تھا۔ تضاد سے مراد یہ ہے نہ کہ اگر علماء کہتے تھے کہ نماز پڑھنا چاہیئے تو خصوصاً نوجوان نماز کو نہ پڑھنا رواج کے طور پر قبول کرچکے تھے، حتیٰ کہ بعض مقررین، علمائے کرام اور لیڈران کے قول و فعل میں بھی واضح تضاد کی ایک فضا تھی۔ میں سوچتا تھا کہ جب ہم اسلامی معاشرے کی بات کرتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ویسا اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پا رہا۔ جب ہم اپنے ہر لمحے کو گناہ یا ثواب میں سے کوئی ایک چیز تصور کرتے ہیں اور جواب دہ ہیں تو پھر ہمارا ہر لمحہ اسلامی تعلیمات کے مطابق کیوں نہیں۔ ان مسائل پر سوچ سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا، کیوں نہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کو دعوت فکر دوں۔

سوال: کیا آئی ایس او کسی دوسری طلباء تنظیم سے متاثر ہو کر بنائی گئی؟
جواب:
بالکل نہیں، اس کا جواب کسی قدر پہلے جواب میں موجود ہے۔ آئی ایس او کی طرز پر کام کرنے والی کوئی اور تنظیم پاکستان میں موجود نہیں تھی اور نہ اب ہے۔

سوال: کیا جمعیت اس طرز کے دائرہ کار میں آتی ہے۔؟
جواب:
اگرچہ جمعیت اپنا وجود رکھتی تھی اور ہے، لیکن جمعیت کے کارکنوں کے قول و فعل میں بھی واضح تضاد موجود تھا، جبکہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اسلامی اور جمہوری اصولوں کے تحت معرض وجود میں آئی۔

سوال: اسکا پہلا اجلاس کب، کہاں اور کس طرح منعقد ہوا۔؟
جواب:
پہلا اجلاس 22 مئی 1972ء چار بجے کیفے ٹیریا مین بلاک، انجینرنگ یونیورسٹی لاہور میں منعقد ہوا۔ 1972ء میں مجھے ایس ایس اے ( شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن) کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ یونیورسٹی میں ایک بھائی نیاز حسین نقوی سے میں نے تفصیلاً بات چیت کی۔ لاہور کے تمام کالجز اور یونیورسٹی کے شعیہ طلباء اور انجمنوں کو دعوت دی، کیوں نہ ہم نوجوانوں کی قوت کو مجتمع کرکے ملت کی تقدیر کو بدلنے کی کوشش کریں۔

سوال: تو کیا اس قومی سطح کے مقصد میں کامیابی کا عمل شروع ہوا۔؟
جواب:
پہلے اجلاس میں شیعہ طلباء کے نمائندوں نے ایک متحدہ پلیٹ فارم بنانے کے خیال کو سراہا اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے اپنی اپنی ذات سے ابتداء کرنے کا عہد کیا۔ 11 جون 1972ء کو میئو ہسپتال میں ڈاکٹر ماجد نوروز کی رہایش گاہ پر آئی ایس او کا اجلاس ہوا، جس میں اس تحریک کا نام  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تجویز ہوا اور باقاعدہ ایک دستور اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا۔

سوال: بنیاد رکھنے کے بعد طلباء و طالبات نے اس میں ذاتی دلچسپی کا کس قدر مظاہرہ کیا۔؟
جواب: 
بنیادی مقصد کے حصول کے لیے مختلف کالجز اور یونیورسٹی میں ہفتہ وار درس کا اجرا ہوا۔ اگرچہ بعض جگہوں پر پہلے بھی درس کا سلسلہ جاری تھا۔

سوال: آپ اس تنظیم کے بانیوں میں سے ایک ہیں، آپکو شروع میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔؟
جواب:
اپنے مسائل کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک وسائل کے اعتبار سے اور دوسرا تنظیمی اعتبار سے۔ وسائل کے لحاظ ہم طلبہ مالی طور پر خاصے کمزور تھے، کیونکہ ہم اپنے تعلیمی اخراجات ایک روپیہ ماہوار فی طالب علم آئی ایس او کے لئے وقف کرتے تھے۔ جس کسی میں زیادہ استعداد ہوتی، وہ آئی ایس او کی مدد کرتا تھا۔ جب ہم اس وقت کے شیعہ لیڈروں اور رہنماؤں کے پاس جاتے تو ہماری نہ صرف مالی بلکہ دفتری و دیگر سہولیات بھی مہیا کرتے تھے، لیکن شرط یہ پیش کرتے تھے کہ ہم ان کے احکامات پر عمل کریں۔ اس طرح کی بہت سی پیشکش ہوئیں۔ تنظیمی طور  ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ بعض کہتے کہ یہ اصل میں کیمونسٹ نظریات کے پرچار کے لیے بںی ہے اور مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ہمارے علماء اور بزرگ یہ باور کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھے کہ نوجوان خود سے بھی سوچ سکتے ہیں اور سوچ کر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔

سوال: تنظیم کی ابتداء کے بعد کے حالات کیسے تھے۔؟
جواب:
تنظیم کسی بھی شیعہ رہنماء یا لیڈر جو صرف اپنے ذاتی مفاد اور نام و نمود کے لیے شیعہ قومی مفادات کو داؤ پر لگائے ہوئے ہوتے تھے۔ ہم اپنی تنظیم کو اس منافقت سے بچاتے، اصولوں کے مطابق قوم مذہب کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ایک ابتدائی واقعہ بتاؤں کہ جس سے آپ میرے ان دو جملوں پر توجہ دیں گے۔ ان دنوں الگ شیعہ دینیات کا مطالبہ زیر بحث تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے باقاعدہ شیعہ مطالبات کمیٹی سرگرم عمل تھی اور کئی ایک محاذ لگا چکی تھی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے اس مطالبہ کو طلباء کے مطابق ہونے کی وجہ سے اپنے مقاصد کا ایک جزو قرار دیا۔ اتفاق سے اگست 1972ء میں شیعہ زعماء، علماء اور رہنماؤں کی ایک ملاقات وزیر تعلیم حفیظ پیرزادہ کے ساتھ تھی۔

آئی ایس او کی عبوری کابینہ نے میٹنگ میں بغیر دعوت کے وفد میں شرکت کی۔ وہاں پر پچاس کے قریب ہمارے علماء اور وزعماء اجلاس کے کمرے میں موجود تھے۔ آئی ایس او کی جانب سے میں نے بحیثیت جوائنٹ سیکرٹری اور شیخ نوازش علی نے بطور جنرل سیکرٹری اس اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں اپنی حالت پر بڑا دکھ ہوا کہ نو بجے اجلاس کا وقت تھا، لیکن گیارہ بجے تک انتظامیہ کی طرف سے کوئی متعلقہ افسر موجود نہ تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے کے قریب سیکرٹری تعلیم تشریف لائے اور انہوں نے بتایا کی وزیر تعلیم قومی اسمبلی اجلاس میں مصروفِ ہیں، یہ اجلاس کسی اور دن منعقد ہوگا، اپنے تاثرات بسلسلہ مطالبہ لکھوا دیں۔ تمام افراد نے اپنے اپنے خیالات لکھوائے۔

اس بے بسی اور مایوسی کو دیکھتے ہوئے ہمارا خون کھول اٹھا اور میں نے جنرل سیکرٹری سے اجازت لے کر سیکرٹری تعلیم کو مخاطب کیا کہ یہ تمام افراد ملت جعفریہ کے نمائندے ہیں۔ ہمارے قومی اور ملی وقار اور عزت نفس کے منافی ہے کہ تین گھنٹے کے بعد آپ نے توجہ کے قابل سمجھا اور پھر وزیر تعلیم کی مصروفیات کا مژدہ سنایا۔ میں آپ کو شیعہ طلباء کی طرف سے واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر آج  وزیر صاحب تشریف نہ لائے تو ہم دوبارہ ایسا اجلاس منعقد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور قومی اسمبلی کا گھیراؤ کریں گے۔ اس پر سیکرٹری نے پوچھا کہ آپ کتنے طلباء کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں نے کہا ایک ہزار اور آدھے گھنٹے کے بعد وزیر صاحب تشریف لائے۔ شام تک متعلقہ امور پر تفصیلی بات ہوئی۔ اجلاس کے بعد بعض علماء اور زعماء نے ہماری آؤ بھگت کی اور شفقت سے پیش آئے۔ اس واقعہ سے آپ میری کہی ہوئی باتوں اور آئی ایس او کے ابتدائی حالات کا اندازہ کرسکتے ہیں۔
  کھوج، سید نثار علی ترمذی
  ہفت روزہ رضا کار، 24 دسمبر 1985ء
خبر کا کوڈ : 1136720
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ڈاکٹر سید حسین جان پاراچنار
South Africa
برادر نے بار بار (میں) کا لفظ استعمال کیا ہے۔ لیکن قائد شھید سید عارف حسین الحسینی تقریباً ہر تقریر میں ہم کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ دوسری بات لاہور یا پنجاب کی حد تک تو موصوف کی بات درست ہوگی۔ لیکن میرے خیال میں ملکی لیول پر زیادہ کام ڈاکٹر ناصر نقوی آف ڈی آئی خان نے کیا تھا۔ نیز آئی ایس او سے بہت پہلے پشاور میں ہم نے شیعہ سٹوڈینٹس آرگنائزیشن بنائی تھی۔
جس کو ہم نے ناصر نقوی مرحوم کی تجاویز پر ISO میں ضم کیا تھا۔ بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ناصر نقوی کی وفات پر مجھ سمیت کسی بھی ISO والے کا تعزیتی پیغام بھی نہیں آیا اور اب میں (نہایت معذرت کے ساتھ) اس سوال کی جراءت کرتا ہوں کہ کیا وہ پرانی اور اصلی ISO اب بھی موجود ہے۔؟
ہماری پیشکش