0
Monday 24 Sep 2012 22:43

سنی اور شیعہ عالم اسلام کے دو بازو ہیں، علامہ آفتاب حیدر جعفری

سنی اور شیعہ عالم اسلام کے دو بازو ہیں، علامہ آفتاب حیدر جعفری
خطیب آل محمد علامہ آفتاب حیدر جعفری کا تعلق کراچی سے ہے۔ ملت جعفریہ کے حقوق کے لئے ہر محاذ پر آپ پیش پیش نظر آتے ہیں۔ آپ کا شمار پاکستان کے نامور مقررین میں ہوتا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے تحت وفاقی دار الحکومت میں منعقدہ آل پاکستان شیعہ پارٹیز کانفرنس کے موقع پر علامہ آفتاب حیدر جعفری نے اسلام ٹائمز کو ملک بھر میں جاری شیعہ نسل کشی اور حالات حاضرہ کے حوالے سے انٹرویو دیا ہے جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: اہلِ تشیع جو اِس وقت اپنے داخلی اختلافات کے باعث انتشار و افتراق کی کیفیت میں ہیں، انہیں ایک مرکز پر یکجا کرنے کے لیے آپ کون سے اقدامات تجویز کریں گے۔؟

علامہ آفتاب حیدر جعفری: ایسے عالم میں جہاں ہر طرف ایک انتشار کی سی کیفیت ہے، ان دشواریوں میں کوشش کی جارہی ہے کہ ملت کے لئے کوئی ایسا پلیٹ فارم، جہاں گلگت، بلتستان، کوئٹہ اور دیگر جگہوں پر ہونے والے سانحات پر گفتگو کی جائے۔ تاکہ ان مسائل کے حوالے سے مل جل کر کوئی راستہ نکالا جاسکے۔ جہاں تک کلی اتحاد کی بات ہے، تو یہ بات ہمیں سامنے رکھنی چاہیئے کہ خود مولائے متقیان (ع) اور دیگر آئمہ (ع) کے زمانے میں بھی انتشار کی کیفیت رہی اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین پہنچایا لیکن جس نے ہدایت حاصل کرلی وہ تو روشنی پا گیا لیکن ابوجہل، ابوجہل رہا، ابولہب، ابولہب رہا۔

لہذا یہ توقع رکھنا کہ اتحاد کے حوالے سے سو فیصد نتیجہ مل جائے گا، اس بات کے حوالے سے امکانات بہت مشکل ہوتے ہیں کیونکہ انسان کا نفس بھی اپنا رنگ دکھاتا ہے، لیکن ایسے عالم میں کہ جن کے اپنے ذاتی تحفظات نہیں ہیں، جو شیعہ کاز کو سمجھتے ہیں اور اس کا دردرکھتے ہیں اور ملت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، جو اتحاد کی خواہش رکھتے ہیں، اُنہیں پھر سے فعال کرنے کے لیے یہ پلیٹ فارم ایک سہارا اور مقناطیسی حیثیت کا حامل ادارہ بن کر سامنے آ سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ ووٹ بینک پر تمام سیاسی پارٹیاں نظریں جمائے ہوئے ہیں، اِس سلسلے میں آنے والے الیکشن کے حوالے سے کیا لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔؟
علامہ آفتاب حیدر جعفری: آج مختلف پارٹیوں کی طرف سے اِتحاد بین المسلمین کی بات کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اتحاد اچانک کیوں ان سب کو یاد آ گیا ہے؟ انقلابِ ایران کے بعد اور 1982-83 میں کراچی میں جو قیامت برپا ہوئی، لیاقت باغ کا جلسہ اور اس کے بعد چاروں طرف ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے ہوتے رہے لیکن کسی پارٹی کو اس پر آواز بلند کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

25 مارچ کو نشتر پارک کے جلسے میں MWM نے واضح طور پر اعلان کیا کہ کسی بھی شیعہ کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اب شیعہ ووٹ دیکھ پرکھ کے اُس اُمیدوار کو دیں گے جو تشیع کے اجتماعی مفاد سے ہمدردی رکھتا ہو گا اور ہمارے مسائل پر بول سکتا ہو، ہماری آواز اربابِ اختیار تک مؤثر اور نتیجہ خیز طریقے سے پہنچائے۔  جب ہماری اس سوچ کا دیگر پارٹیوں کو احساس ہوا تو وہ اتحاد بین المسلمین کا راگ الاپنے لگیں لیکن یہ بات ملت جعفریہ کے لئے سمجھنا ضروری ہے اور آقا مولا علی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ دشمن سے جنگ لڑنا اتنا اہم نہیں ہوتا، جتنا اس کی سازش سے باخبر ہونا۔

جب انہوں نے اس بات کو محسوس کرلیا کہ اس قوم (شیعہ ) پر مسلسل مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن اب ان کا مزاج بدل رہا ہے، یہ مصیبتیں اٹھا اٹھا کے فولاد کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں تو اتحاد بین المسلمین کے نعروں سے ہماری وحدت کو دبانے اور ہمیں منتشر کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں لیکن اب شیعہ کسی کے کھوکھلے نعروں میں نہیں آئیں گے۔ ماضی میں انہوں نے بہت دکھ جھیلے ہیں۔ ہر ایک کا کردار پارلیمنٹ، عدالت، سیاسی پارٹیوں اور لوگوں دیکھا جائے تو اس تناظر میں شیعہ آنے والے انتخابات میں یقیناً اپنے شعور کا ثبوت پیش کریں گے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں جو گستاخانہ فلم بنائی گئی ہے ، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
علامہ آفتاب حیدر جعفری: یہ دانستہ طور پر غلطی کی گئی ہے، جبکہ ماضی میں جب خاکے بنائے گئے تو اس وقت بھی پوری دنیا کے مسلمانوں کا جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ لیکن اس وقت پاکستان میں جو صورت حال قتل و غارت اور بم دھماکوں اور بحرین کے واقعات کے حوالے سے ہے اور جو کچھ عرب ممالک میں تختے الٹے گئے تو یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے کہ آیا مسلمانوں میں کچھ غیرت اور حمیت ہے۔ کیا یہ کفر کے مقابل اٹھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔؟

الحمدللہ دنیا کے بہت سے ممالک کے مسلمانوں نے ثابت کردیا کہ سب باتیں برداشت ہو سکتی ہیں لیکن جب بات شعائر اللہ اور حرمت رسول (ص) اور دین اسلام پر آجائے گی تو لوگ ہورے جوش و جذبے سے، کسی انجام کی پروا کئے بغیر نکل آئے۔ انہوں نے سفارتخانوں کو آگ بھی لگائی، پاکستان کے اندر بھی ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام مظاہرہ ہوا۔ لال مسجد میں جب کہ ایم ڈبلیو ایم کے افراد گزر رہے تھے تو انہوں نے جب دیکھا کہ معاملہ حرمت رسول (ص) کا ہے تو لال مسجد بھی اس مظاہرے میں شریک ہوگئے۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ مظاہرہ کرنے والے کافر نہیں ہیں، یہ مسلمان ہیں، لہذا وہ مظاہرے میں شامل ہوئے۔ چنانچہ وقت بدل رہا ہے۔ مسلمان باشعور ہوتے جارہے ہیں اور انشاءاللہ وہ وقت آئے گا کہ پوری دنیا کے مسلمان، تمام عالم اسلام اپنے مشترکہ دشمن کا پہچان لے گا۔

اسلام ٹائمز: ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اتحاد نے امریکہ پر پریشر بلڈ اپ کیا، تو کیا اس اتحاد بین المسلمین کی فضا کا برقرار رکھا جا سکتا ہے۔؟

علامہ آفتاب حیدر جعفری: 1979ء جب ایران میں انقلاب آیا تو اس وقت امام خمینی (رہ) نے ایک نعرہ قرآن و سنت کی روشنی میں دیا اور وہ تھا اتحاد بین المسلمین۔ انہوں نے فرمایا کہ شیعہ اور سنی میں اختلاف کے بیج بونے والے نہ شیعہ ہیں نہ سنی۔ تو اس بات کو وہ اسلام دشمن قوتیں سمجھتی ہیں کہ اتنی قوت ایٹم بم کے ناگا ساکی اور ہیروشیما کے گرانے سے نہیں ہوئی، جتنا تباہ کن مسلمانوں کے آپس میں متحد ہو جانے سے ہمارے لئے ہو سکتا ہے۔

تو اس لئے انہوں نے مسلمان کو مسلمان سے لڑانے کی کوشش پاکستان اور دیگر ممالک میں کی۔ افغانستان، عراق اور پاکستان میں اس کی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں انہوں نے شیعہ اور سنی کی تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے بچپن میں ہمیں قائدہ پڑھایا جاتا تھا کہ ا ب ت ث ج ح خ د ذ ر ز س ش گویا عالم اسلام کے دو بازو ہیں سنی اور شیعہ ۔ یہ بات امام خمینی (رہ)، رہبر معظم اور شیعہ علماء کی طرف سے کہی جاتی رہی، منظر بدل رہا ہے، مسلمانوں کا خون بہنے اور اتنی قربانیاں دینے کے بعد انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں جب عالم اسلام میں وحدت اسلامی نظر آئے گی۔

اسلام ٹائمز: آل پاکستان شیعہ پارٹیز کے اجلاس میں کیا تجاویز پیش کی گئیں ۔؟

علامہ آفتاب حیدر جعفری: آج کے اجلاس میں بلوچستان میں ہونے والی قتل و غارت پر فوکس کیا گیا تو ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بلوچستان میں آزادی کا نعرہ لگ رہا ہے اور ہمارے ہاتھ سے بلوچستان نکلتا جا رہا ہے۔ تو خدانخواستہ بلوچستان اگر ہمارے ہاتھ سے چلا گیا تو پاکستان کے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ آج قتل و غارت وہاں کس لئے ہے اور ایک ہی طبقے کا قتل عام کیوں کیا جارہا ہے؟

اگر غور کریں تو نیو ورلڈ آرڈر کے تحت ایران مخالف قوتیں، عراق اور افغانستان کی طرح ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہیں، وہ جانتی ہیں کہ بلوچستان میں ایک قوت کو وقت سے پہلے ختم کردیا جائے تو ہمارا مقصد آسان ہو جائے گا۔ شیعہ مسلک کے وابستگان کی قتل و غارت گری اس پلان کا حصہ ہے۔ اب بلوچستان کے لوگوں میں شعور بیدار ہو رہا ہے۔ جیسے کہ پشتون مزدور مارے گئے ہیں تو وہاں کے لوگوں کا مزاج کروٹ بدل رہا ہے۔

بلوچستان کے یہ لوگ اگرمنتشر رہے تو بلوچستان پارہ پارہ ہو جائے گا۔ آج کے اس اجلاس میں فوکس کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس ہو، جتنے بھی ادارے ملکی سطح پر کام کرر ہے ہیں، اس ضمن میں اپنی کوششوں کو تیز کردیں، وہاں کی مظلومیت کو ہائی لائٹ کیا جائے، جن لوگوں کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور اس جانب سے غافل یا بےخبر ہیں، ان تک یہ بات پہنچانے کا عمل شروع کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 198120
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش