0
Wednesday 16 Oct 2013 01:47

ایل او سی ہمارے جسموں و روحوں پر کھینچی گئی ایک خونی لکیر ہے، انجینئر عبدالرشید

ایل او سی ہمارے جسموں و روحوں پر کھینچی گئی ایک خونی لکیر ہے، انجینئر عبدالرشید
انجینئر عبدالرشید جموں و کشمیر کے سرحدی علاقے کپوارہ سے تعلق رکھتے ہیں، تقریباً 16 سال تک بحثیت انجینئر سرکاری ملازمت کرتے رہے، 2008ء میں سرکاری نوکری سے استعفیٰ دیکر حلقہ انتخاب لنگیٹ سے بحثیت آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لیا اور ریاستی اسمبلی کے لئے بطور ’’ایم ایل اے‘‘ منتخب ہوئے، انجینئر عبدالرشید جموں و کشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے صدر بھی ہیں، انجینئر عبدالرشید تقریباً پچھلے 12 سال سے جموں و کشمیر کے مختلف زبانوں میں شائع ہونے والے روزناموں کے لئے مسلسل لکھتے چلے آرہے ہیں، ایم ایل اے انجینئر رشید اول روز سے ہی مسئلہ کشمیر کے علاوہ دوسرے اہم مسائل کے حل کے لئے برسر جدوجہد ہیں، انجینئر عبدالرشید جوائنٹ اِفیٹ ٹرسٹ (جیٹ) نامی فلاحی ادارے کے سربراہ بھی ہیں، آپ بھارت کی سیاست میں رہ کر مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے قائل ہیں اور آپ نے ایک منفرد انداز اپنایا ہوا ہے جس سے اسمبلی کے اندر آپ کشمیری قوم کی ترجمانی کرتے ہیں، اسلام ٹائمز نے انجینئر عبدالرشید سے ایک نشست کے دوران مسئلہ کشمیر، بھارتی حکومت، ہند و پاک مذاکرات اور حد متارکہ پر فوجی خلاف ورزی کے سلسلے میں ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی سیاست میں رہ کر حق کی بات کہنا اور کشمیر کے مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی ممکن ہے۔؟
انجینئر عبدالرشید: دنیا جانتی ہے کہ 23 سال میں کشمیری قوم نے ایک لاکھ سے زائد جانیں گنوائیں جس کی وجہ سے بھارتی حکومت و دنیا کے دیگر بااثر ممالک نے کشمیر کی تحریک آزادی کو جہادی عناصر کی کارستانی قرار دیا اور نتیجہ کے طور پر اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی پیشرفت نہ ہوئی، دوسری طرف بھارتی حکومت نے امن و امان کے نام مصلح جدوجہد کو دبانے کے لئے بےگناہ انسانوں کا خون بہانا شروع کیا اور یہاں قتل و غارتگری کا بازار گرم کیا، اب چونکہ ہم جانتے ہیں کہ پچھلی 7 دہائیوں پر مربوط پُرتشدد ماحول نے نہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی مدد کی اور نہ یہاں کے لوگوں خاص طور پر یہاں کے مسلمانوں کی کوئی پریشانی دور ہوئی، اس لئے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم جمہوری طریقے سے اور عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے پوری دنیا خاص طور بھارت (جو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے) کے سامنے اپنے جائز مطالبات رکھیں تو اب دنیا کو ہماری بات ماننی پڑے گی، پھر ہمیں جہادی عناصر کہہ کر ہمارے حقوق سلب نہیں کئے جائیں گے، مجھے امید ہے کہ جس طرح لوگوں نے مجھے منتخب کرکے اپنی ترجمانی کرنے کے لئے ریاستی اسمبلی میں کھڑا کیا اسی طرح میرے دوسرے ساتھی بھی منتخب ہوکر اور عوامی مینڈیٹ حاصل کرکے دنیا و خاص طور پر بھارت سے اپنے حقوق کی بازیابی کی بات کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ جس جمہوری طریقہ کی بات کر رہے ہیں پہلے بھی سید علی شاہ گیلانی اور سید صلاح الدین نے ایسی کوششیں کی ہیں مگر بھارت نے ان کے ساتھ غداری کی، کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ سب آپ کے ساتھ نہیں ہوگا جو انکے ساتھ ہوا تھا۔؟
انجینئر عبدالرشید: یہاں میں یہ بات واضح کردوں کہ سید علی گیلانی صاحب نے جتنے بھی الیکشن لڑے یا سید صلاح الدین نے الیکشن میں حصہ لیا تب انہوں نے آزادی کے نام پر لوگوں سے ووٹ نہیں مانگا، اگر وہ اس وقت اقوام متحدہ کی قراردادوں کے اطلاق کے نام پر ووٹ مانگتے، آزادی کے نام پر ووٹ مانگتے، لوگوں کے جائز حقوق کے نام پر ووٹ مانگتے تو انہیں کامیابی مل گئی ہوتی، ریاستی اسمبلی گواہ ہے کہ جتنا میں نے جموں و کشمیر کے سلسلے میں اسمبلی کے اندر بولا ہے اتنا سید علی گیلانی صاحب نے اپنی پوری زندگی میں نہیں بولا ہوگا، اگر دنیا آج مسئلہ کشمیر سے واقف ہے تو محض مسلح جدوجہد کی وجہ سے اور لاکھوں لوگوں کی جانی و مالی قربانیوں سے، پھر حالات نے کروٹ بدلی اور ہمار مسلح تحریک کو القاعدہ و طالبان جیسی تنظیموں سے جوڑا گیا، دہشت گردی کے ساتھ جوڑا گیا یہاں کے لوگوں نے جمہوری طریقے سے اپنے سلب کئے گئے حقوق کی بازیابی کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں اور 2008ء 2009ء اور 2010ء کی عوامی تحریک نے دنیا پر واضح کیا کہ ہمیں اب بھی جمہوری طریقے پر پورا اعتماد ہے، اب بھارت کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ اس بھروسے کا بھرم رکھیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کا ماننا ہے کہ یہاں کے آزادی پسند لیڈران کو مین اسٹریم جماعتوں کی طرح الیکشن میں حصہ لینا چاہیئے۔؟

انجینئر عبدالرشید: دیکھئے ہم جنہیں ’’مین اسٹریم‘‘ جماعتیں کہتے ہیں وہ اصل میں بھارت نواز جماعتیں ہیں، دراصل یہاں کی جو آزادی پسند پارٹیاں ہیں وہی ’’مین اسٹریم‘‘ جماعتیں ہیں، یہاں کے لوگ ہی مین اسٹریم ہیں اور ان کی طاقت ہی اصل ہے، رہا سوال الیکشن میں حصہ لینے کا تو آپ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ہر ایک مسئلہ چاہے وہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، کتنا ہی وقت طلب کیوں نہ ہو، آخرکار مذاکرات کے میز پر ہی طے پایا ہے، اسی طرح سے یہاں کے آزادی پسند لوگوں کو مذاکرات کی میز پر آنا چاہیئے اور مذاکرات کے لئے انہیں پہلے عوامی مینڈیٹ حاصل کرنا ہوگا جو صرف انتخابات میں حصہ لے کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، اگر اپنی بات کروں تو میں سیاست میں رہنا اپنی سعادت سمجھتا ہوں لیکن حق پر مبنی بات کہنے پر مجھے مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے، میں اپنے لوگوں کی مشکلات کی طرف جب دیکھتا ہوں تو اپنی ذاتی مشکلات بھول جاتا ہوں، میری قوم نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جتنے ستم اٹھائے ہیں جتنی قربانیاں دیں ہیں ان کے مقابلے میری مشکلات بہت چھوٹی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ ایک قلمکار بھی ہیں، کیا ایک سیاست داں یا پھر قلمکار اپنی آواز کو زیادہ موثر بناکر لوگوں کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔؟

انجینئر عبدالرشید: لکھنا میرا حق ہے، میرا مذہب ہے، چاہے بحثیت ایک سیاست داں لکھوں یا بحثیت ایک عام انسان، میں سجھتا ہوں کہ قلم کے ذریعے جتنی تبدیلی لائی جا سکتی ہے، تحاریک کو مثبت سمت دی جا سکتی ہے، اتنا ایک سیاست داں نہیں کرسکتا، جب میں ایک قلمکار کی حییثیت سے لکھتا ہوں تو عوامی حلقوں میں زیادہ اثر دیکھنے کو ملتا ہے بہ نسبت ایک سیاست داں کے۔ سیاست میں آنے سے پہلے جب بھی میں لکھتا تھا تو لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور میرے قلم کے شیدائی تھے مگر جب سے میں نے سیاست میں قدم رکھا ہے اور کسی مسئلہ کی طرف قلم کے ذریعے لوگوں کا رجحان مائل کرنا چاہتا ہوں تو بہت سارے حلقوں کی طرف سے منفی ردعمل سامنے آتا ہے، میرا ایمان ہے کہ سچا قلمکار معاشرتی تبدیلی لانے میں ایک منفرد رول ادا کرسکتا ہے جبکہ ایک سیاست داں کو ہر موڑ پر نئی نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ بھارت کی سیاست میں اپنے آپ کو مناسب محسوس کر رہے ہیں۔؟
انجینئر عبدالرشید: دیکھیے اصل بات ضمیر کا زندہ ہونا ہے، اگر انسان کا ضمیر زندہ ہو تو وہ کسی بھی میدان میں رہ کر، کسی بھی پیشے سے وابستہ رہ کر حق کی بات کرسکتا ہے، اگر میں اس سیاست میں نہ آتا تو میں وہ باتیں نہیں کرسکتا تھا جو میں اسمبلی کے اندر کر رہا ہوں، آپ اس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں کہ ریاستی اسمبلی میں آپ جو بات کہتے ہیں وہ اپنا ایک خاص اثر رکھتی ہے اگر وہی باتیں انسان اسمبلی کے باہر اور سیاست میں نہ رہ کر کریں تو ان کا کوئی اثر یا اتنا نہیں ہوتا، اگر اسمبلی کے ممبران اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرلیں تو آئین میں ہر بات کی گنجائش رکھی گئی ہے، میں مانتا ہوں کہ مسئلہ کشمیر ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو اکیلے ریاستی اسمبلی حل نہیں کر سکتی مگر جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا تب تک ہم اپنے لوگوں کو بنیادی ضروریات ریاستی اسمبلی کے ذریعے ہی مہیا کرسکتے ہیں، اور جائز حقوق کی لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیوں یہاں کے بھارت نواز سیاستدان افضل گورو کے جسد خاکی کو واپس لانے میں ناکام ہو گئے۔؟
انجینئر عبدالرشید: یہاں کے بھارت نواز سیاستدان کشمیر کے لئے کب سنجیدہ تھے، اور بھارتی سیاست دانوں کو کشمیری سیاست داں کہنا ایک بہت بڑی حماقت ہوگی، وہ کشمیری سیاستداں نہیں بلکہ دہلی کے اور فوج کے پیڈ ایجنٹ ( paid agents) ہیں اگر وہ ایسی باتیں کریں گے تو دہلی میں بیٹھے انکے آقا ان سے ناراض ہو جائیں گے اور ان کا سیاسی مستقبل مخدوش ہو جائے گا، یہاں کے سیاست دانوں کا ضمیر مرچکا ہے، وہ صرف دہلی کے اشاروں پر چلتے ہیں ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، یہ پوری ریاست جموں و کشمیر کے لئے بدقسمتی کی بات ہے کہ 87 اسمبلی ممبران میں سے صرف میں نے افضل گورو کو پھانسی سے بچانے کے لئے قرارداد سامنے لائی اور عمر عبداللہ و مفتی سعید کے پاس جا کر اس قرارداد کی حمایت کرنے کے لئے التجا کی مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح اس قرارداد کی بےحرمتی کی گئی اور افضل گورو کو پھانسی پر لٹکانے کے لئے راستہ ہموار کیا، جو لوگ افضل گورو کو بچانے کے لئے ایک قرارداد پاس نہیں کرسکتے ہیں وہ اس کے جسد خاکی کی واپسی کی کیا بات کریں گے، جب تک ہم اپنے روئیے میں تبدیلی نہیں لاتے اور جب تک ہم اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک نہیں کریں گے تب تک ہمارے مسائل حل نہیں ہونگے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی مسلمانوں کو گجرات فسادات میں ملوث نریندر مودی کو اپنا وزیراعظم منتخب کرلینا چاہیئے۔؟
انجینئر عبدالرشید: پہلی بات بھارت ایک جمہوری ملک ہے یہاں ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا حق ہونا چاہیئے اور یہ بات ہمیں بھارت کے مسلمانوں پر چھوڑنی چاہیئے کہ وہ کس کو اپنا وزیراعظم منتخب کرلیتے ہیں، دوسری اہم بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے سیکولرزم چہرہ لگا کر ہمیشہ مسلمانوں کا استحصال کیا ہے، انہیں ووٹ بینک کے طور استعمال کیا ہے، بھارت میں جتنے بھی فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں وہ کانگریس کے دور حکومت میں ہوئے، چاہے آپ بابری مسجد کا واقع لیں، یا گجرات فسادات یا حالیہ مظفرنگر فسادات کو سامنے رکھیں، یہ سارے فسادات تب ہوئے جب مرکز میں کانگریس پارٹی کی حکومت تھی، کانگریس حکومت کے دور میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ خون بہا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی سکیولرزم کا نقاب پہن کر فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہے جبکہ بی جے پی کھلے عام مسلم دشمنی کا اعلان کرتی ہے، ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے ایک ہی بات ہے کہ نریندر مودی وزیراعظم بنے یا کوئی اور، کیونکہ پچھلی 7 دہائیوں سے بھارتی مسلمانوں کا صرف استحصال ہو رہا ہے اور بس۔

اسلام ٹائمز: حالیہ ہند و پاک مذاکرات کی شروعات کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
انجینئر عبدالرشید: پچھلی 6 دہائیوں سے ہند و پاک مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس کو میں ایک فضول مشق مانتا ہوں، اب کشمیریوں کا لفظ مذاکرات سے بھروسہ اٹھ چکا ہے، کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لئے تشدد، جنگ یا کسی دوسرے مسلح قدم کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باہمی مذاکرات کی ضرورت ہوتی ہے، ہند و پاک مذاکرات کا سلسلہ بہت طویل ہے، آزادیٔ ہند کے بعد کشمیر کے مسئلہ پر تقریباً 150 بار مذاکرات ہوئے ہیں اور ہر بار مذاکرات جاری رکھنے پر اکتفا ہوتا ہے اور کوئی حل نہیں نکل سکتا ہے، کشمیری قوم اب مذاکرات لفظ سے اُکتا گئے ہیں، یہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے بھارت کی عدم دلچسپی ہی ہے کہ کشمیری نوجوان بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے، بھارت کشمیر کو کبھی اندرونی مسئلہ قرار دیتا ہے تو کبھی اٹوٹ انگ کا راگ الاپتا ہے، پہلے ہندوستان کو یہ کنفیوژن دور کرنا چاہیئے اور کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ تسلیم کرنا چاہیئے اور اس کے حل کی جانب قدم اٹھانا چاہیئے، جب تک مذاکرات برائے مذاکرات کئے جاتے ہیں تب تک ہندوستان کی نیت پر شک لازمی ہے اور مذاکرات صرف وقت گزاری کا ایک ذریعہ مانا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔؟
انجینئر عبدالرشید: ایل او سی ہمارے جسموں و روحوں پر کھینچی گئی ایک خونی لکیر ہے ایک طرف تو بھارت پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے اور دوسری طرف جموں و کشمیر سے وہاں جانے والے اور وہاں سے یہاں آنے والے لوگوں کو دہشت گرد سمجھ کر مار ڈالتا ہے، میں نے بارہا ایوان اسمبلی میں یہ بات دہرائی ہے کہ اگر آپ کشمیر کے اُس حصے کو اپنا کہتے ہیں تو نقل و حرکت پر پابندی کیوں؟ ایل او سی کیوں بنائی ہے؟ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت جھوٹا ہے اور اس کی نیت میں کھوٹ ہے، اگر بھارت واقعی کشمیر مسئلہ کا پرامن حل چاہتا ہے تو اسے پاکستان، علیحدگی پسند لیڈران اور سید صلاح الدین وغیرہ سے بات چیت کرنی چاہیئے تبھی جاکر اس دیرینہ مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے، مگر ہم دیکھ چکے ہیں کہ کشمیر کے نام پر مذاکرات برائے وقت گذاری ہوتی ہے، بھارت نے ناگالینڈ میں 5500 دہشت گردوں کے ساتھ سیز فائر کیا ہے اور کشمیر میں صرف 300 مجاہدین کے ساتھ نپٹنے کے لئے 12 لاکھ فوج اتار رکھی ہے کیا یہ بھارت کا دہرا معیار نہیں ہے؟ کیا بھارت مذہب کے نام پر پالیسیاں نہیں بنا رہا ہے؟ ان سبھی باتوں اور حقیقتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کے حوالے سے بھارت کی نیت میں کھوٹ ہے اور وہ مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتا۔
خبر کا کوڈ : 311314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش