0
Thursday 6 Mar 2014 00:46
ہر تنظیمی نشست میں شہید ڈاکٹر کا ذکر اپنے محسن سے عشق کی دلیل ہے

شہداء کو کسی خاص تنظیم، تحریک اور ادارے تک محدود کرنا انکی ارزش کو کم کرنیکے مترادف ہے، اطہر عمران

شہداء کو کسی خاص تنظیم، تحریک اور ادارے تک محدود کرنا انکی ارزش کو کم کرنیکے مترادف ہے، اطہر عمران
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ سے ہے۔ اس وقت آپ پریسٹن یونیورسٹی لاہور میں ایم بی اے کے طالب علم ہیں۔ باقاعدہ تنظیمی سفر کا آغاز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ تنظیم میں یونٹ ڈپٹی جنرل سیکرٹری، یونٹ نائب صدر، یونٹ صدر زرعی یونیورسٹی، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، مرکزی سیکرٹری تعلیم کی ذمہ داریاں ادا کیں اور آج کل مرکزی مسئولیت پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے اطہر عمران طاہر سے آئی ایس او کے بانی ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی برسی کی مناسبت سے ہونے والی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید آئی ایس او کے بانی اور مرکزی صدر تھے۔ آپ بطور مرکزی صدر کیا محسوس کرتے ہیں کہ آج کی ISO نظریاتی اور عملی طور پر اس معیار کو برقرار رکھے ہوئے ہے؟
اطہر عمران طاہر: مولانا مرتضیٰ حسین صدر الفاضل اور آغا علی الموسوی مرحوم اور دیگر بانی اراکین مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم اور شہید بزرگوار نے آئی ایس او جیسے شجرہ طیبہ کی بنیاد اسلامی اُصولوں پر ڈالی تھی۔ اپنی تاسیس سے لے کر آج تک تمام تر نشیب و فراز کے باوجود اس الٰہی کارواں کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے زمانے کی تمام تر تلخیوں کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ ان اُصولوں کی پاسداری اور دفاع کے لیے تمام تر مخالفتیں مول لیں۔ تنظیمیں، تحریکیں اور قومی ادارے شخصیات سے نہیں بلکہ اُصولوں سے زندہ رہتے ہیں۔ اسلامی اُصولوں سے منحرف ہونے والی تنظیموں اور تحریکوں کے تابوت اُٹھانے سے وہ ہرگز زندہ نہیں ہو جاتیں، آئیڈیالوجی اور اسلامی اُصولوں کی پاسداری ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی دلیل ہوا کرتی ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی ؒ کے قائم کردہ تنظیمی، فکری اور عملی معیارات کا تعلق ہے الحمدللہ آئی ایس او کا 42 سالہ ماضی اس بات کا آئینہ دار ہے کہ تنظیم اسلامی اقدار و روایات اور اُصولوں کی پاسداری پہ ہمیشہ کاربند رہی ہے اور نظریہ ولایت فقیہ کی ترویج و تبلیغ اور اس حقیقی اسلامی نظام کے عملی نفاذ کے لیے آج تک کوشاں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ISO شہدا ءکی میراث ہے، کیا تنظیم شہداء کے وارث ہونے کا حق احسن انداز میں ادا کر رہی ہے؟
اطہر عمران طاہر: شہداء اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے قربانی دیتے ہیں۔ یہ شہداء کا مقدس لہو ہوتا ہے جو مردہ معاشرے کو حیات بخشتا ہے، شہداء کا قرض پورے معاشرے پہ ہوا کرتا ہے۔ شہداء کو کسی خاص تنظیم، تحریک اور ادارے تک محدود کرنا شہداء کی ارزش کو کم کرنا ہے۔ ISO جہاں ایک طلبہ تنظیم ہے وہاں اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ملت کے اجتماعی مسائل اور ان کے حل میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے۔ آئی ایس او نے ایسے نوجوانوں کی تربیت کی جو استعمار کی آنکھ کا کانٹا ثابت ہوئے اور انہوں نے اپنے مقدس لہو سے دشمن کی شکست کا پیغام لکھا۔ پس یہ قربانیوں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آئی ایس او نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر شہداء کے مشن کو جاری رکھا اور ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ 

اسلام ٹائمز: شہید کی برسی کے علاوہ شہید کی یاد کو زندہ رکھنے کے حوالے سے کیا پروگرامز اور اقدامات کئے جاتے ہیں۔
اطہر عمران طاہر: مرکز سطح پر برسی کا ایک عظیم الشان اجتماع شہید سے تجدید عہد کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈویژنز اور یونٹ کی سطح پر تعزیتی ریفرنسز، سیمینارز اور مجالس ترحیم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شہید کی زندگی پر مبنی تصویری نمائش لگائی جاتی ہے۔ ملک بھر میں تشہیراتی مہم کے ذریعے شہید کے افکار کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شہید کی خدمات کے تعارف کے لیے بروشرز، پمفلٹس، ہینڈ بلز شائع کئے جاتے ہیں۔ شہید کی زندگی پر مبنی ڈاکومنٹری دکھائی جاتی ہے۔ شہید کی زندگی پر لکھی گئی کتاب "سفیر انقلاب" کے اسٹڈی سرکلز کرائے جاتے ہیں۔ المختصر ہر تنظیمی نشست میں شہید ڈاکٹر کی عملی زندگی زیربحث آتی ہے جو تنظیم کا اپنے محسن سے عشق کا ثبوت ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید اور آئی ایس او قومی سرمایہ ہیں۔ یہ تاثر کیوں ابھر رہا ہے کہ تنظیم مخصوص سوچ یا ایک حلقے تک محدود ہو رہی ہے؟
اطہر عمران طاہر: سوچ اور نظریئے کے بغیر تنظیم کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ پس اہم یہ ہے کہ وہ نظریہ اور سوچ اسلامی اُصولوں کے منافی نہ ہو۔ الحمدللہ آئی ایس او ایک فکر کا نام ہے۔ ایک نظریئے کا نام ہے پس اسے محدود کرنا یا محدود سمجھنا یقینا غیر دانستہ عمل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک اس کے ایک ہی حلقے تک محدو د ہونے کا سوال ہے تو ایک طلبہ تنظیم ہونے کے ناطے تعلیمی اداروں کے طلباء ہی اس حلقے کا حصہ ہیں اور سابقین آئی ایس او اس کا ثمر ہیں۔ سابقین آئی ایس او، نہ صرف ملک بھر کے اہم اداروں میں بلکہ دنیا بھر میں اپنا فعال کردار ادا کر کے یہ تاثر پہلے سے زائل کر چکے ہیں۔ آئی ایس او کی فکر دنیا میں پھیل رہی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں تنظیمی کلچر میں کونسے بنیادی اُصول و اقدار ہیں جو اساسی حیثیت رکھتی ہیں؟
اطہر عمران: اسلامی اقدار کا احیاء اور اس کی محافظت تنظیمی کلچر کا لازمی جزو ہیں۔ ایک الٰہی اور نظریاتی تنظیم کا اپنا کلچر اسلام کے اُصولوں کے مطابق ہونا بنیادی شرط ہے۔ کسی بھی تنظیم کی رُشد اور ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہونا چاہیئے۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر شہید نے تنظیم کی بنیاد رکھی اور نسل در نسل پاکستانی ملت اس کے ثمرات سے مستفید ہو رہی ہے لیکن شہید جیسی شخصیت پیدا نہیں ہو سکی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟
اطہر عمران طاہر: ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔ انسانیت کو سال ہا سال دید و حرم کے طواف کرنے پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ایسے گہر آبدار خلق ہوا کرتے ہیں۔ ایسی شخصیات روز روز پیدا نہیں ہوا کرتیں،البتہ پیدا ہونا ناممکن امر نہیں ہے۔ اگر خاندانی پاکیزگی محمد علی نقوی جیسی ہو اور تربیت کے تمام مراحل مکمل ہوں، قلبی طہارت اور اسلام سے محبت کا درد دل میں موجزن ہو تو پھر ایسے لوگوں کا پیدا ہونا مافوق الفطرت نہیں ہے لیکن اس میں خالص خوشنودی خدا کے لیے جہد مسلسل اور عزم مصمم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آج وہ تمام لوازمات پورے ہو جائیں تو ان جیسی صلاحیتوں کے مالک پیدا ہو سکتے ہیں بشرطیکہ یہ سب اسلام کے عین مطابق ہو۔ 

اسلام ٹائمز: طلباء کی تعلیمی فلاح و بہبود کے لیے تنظیم کیا اقدامات کر رہی ہے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر؟ 
اطہر عمران طاہر: طلباء کی ایک نظریاتی تنظیم ہونے کے ناطے اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے تنظیم نہ صرف اپنے کارکنان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہے بلکہ اپنے نصب العین کے مطابق نوجوان نسل کی زندگیوں کو تعلیمات قرآن و سیرت محمد و آل محمد کے مطابق استوار کرنے کا فریضہ بھی اپنے کاندھوں پر رکھتی ہے۔ طلباء کے لیے تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کیرئیر کونسلنگ، سٹڈی اسکلز، ترغیب تعلیم، اسکالرشپ، کوچنگ سنٹرز کا قیام ، ٹیلنٹ شو، ایوارڈ شوز اور کیرئیر گائیڈنس سیمینارز کا انعقاد تنظیم کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اسی لیے رواں سال کو "سال تعلیم و تربیت" سے موسوم کیا ہے۔ سال کی مناسبت سے تعلیمی پروگرام تیار کر کے اجرائی مراحل سے گزارنے کے لیے ڈویژنز میں کام شروع ہو چکا ہے۔ ماہِ اپریل کے آغاز میں سالانہ مرکزی طلوع فجر تعلیمی کنونشن کا انعقاد ہو گا جس میں پاکستان بھر کے پروفیشنل تعلیمی اداروں سے طلباء شریک ہونگے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اسکالر شپ اور بیرون ملک اسکالر شپ کے لیے مرکزی ایجوکیشنل کمیٹی موجود ہے جو درخواست گزار طلباء سے انٹرویو کے بعد انہیں مختلف ادارہ جات میں داخلے کے قابل بناتے ہیں۔ انشاءاللہ رواں سال تنظیم میں بہترین تعلیمی کارکردگی کا سال ثابت ہو گا۔ 

اسلام ٹائمز: آئی ایس او پاکستان شہید ڈاکٹر کی وراثت ہے، آپ نوجوانوں کے نام کیا پیغام دیں گے؟ 
اطہر عمران طاہر: شہداء کے پیغام کو زندہ رکھنا وارثانِ شہداء کی ذمہ داری بنتی ہے۔ پس شہید کے افکار اور کردار کا حقیقی وارث کردار کے ذریعے بنا جا سکتا ہے۔ جو قومیں اپنے شہداء کو بھول جاتی ہیں ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ پس اس مشن کی تکمیل اور نظریئے کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری بنتی ہے جس کے لیے شہداء نے اپنا مقدس لہو دیا۔ ISO شہید کی امانت ہے پس اس امانت کو امین ہاتھوں تک منتقل کرنا ہمارا فریضہ بنتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 358394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش