0
Sunday 18 May 2014 21:24
پاکستان کی سیاست میں بڑی تبدیلی ہونیوالی ہے

عمران خان، طاہر القادری، شجاعت حسین اور الطاف کا اتحاد دیکھ رہا ہوں، رحمت وردگ

عمران خان، طاہر القادری، شجاعت حسین اور الطاف کا اتحاد دیکھ رہا ہوں، رحمت وردگ
رحمت خان وردگ تحریک استقلال کے مرکزی صدر اور معروف سیاسی رہنما ہیں، بنیادی طور پر اٹک سے تعلق رکھتے ہیں، لاہور میں مقیم ہیں، لیکن اپنے کاروبار کے سلسلہ میں زیادہ تر کراچی میں ہی رہتے ہیں۔ بے لاگ تبصروں اور مدلل گفتگو کے باعث میڈیا کی ہردلعزیز شخصیت ہیں۔ ملکی درد ان کے سینے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، ہر اہم معاملے پر حکمرانوں کی رہنمائی اپنے کالمز کے ذریعے کرتے رہتے ہیں۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں پر بھی بے لاگ تنقید کرتے ہیں۔ پاکستان میں سینیئر صحافی حامد میر پر حملے اور اس حملے کے آئی ایس آئی پر الزامات کے بعد کی پیدا ہونے والی صورت حال پر اسلام ٹائمز نے ان کے ساتھ لاہور میں ایک نشست ک،ی جس کا احوال قارئین کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
                                                               
اسلام ٹائمز: حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہوا، انہوں نے فوراً آئی ایس آئی پر الزام لگا دیا، کیا یہ پہلے سے جاری دہشتگردی کا تسلسل ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور گیم ہے۔؟
رحمت خان وردگ: حامد میر پر قاتلانہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور میری دعا ہے اللہ تعالٰی انہیں جلد صحت یاب کرے، المیہ اس حملے کے فوری بعد آئی ایس آئی اور اس کے سابق اور موجودہ سربراہ پر براہ راست الزام لگانا ہے، یہ درست نہیں تھا، ملک بھر میں جیو کی اس حرکت کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے تو اس کو اسی دہشت گردی کا تسلسل ہی کہا جاسکتا ہے، کیونکہ پاکستان دشمن قوتوں کو تو ملک میں بدامنی پھیلانی ہے، ملک کو کمزور کرنا ہے، اس کے لئے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کون نشانہ ہے، بس وہ نشانہ بنا دیتے ہیں، جیسے لاہور میں دہشت گرد پکڑے گئے اور انہوں نے شیعہ علماء کو بھی قتل کیا تھا اور سنی علماء کو بھی۔ تو دہشت گردوں کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ مکتب فکر، وہ بس دہشت گرد ہوتے ہیں، ان کے لئے تو ان کے سرپرست کا آڈر ہوتا ہے، وہ اس پر عمل کرتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ برے کے ساتھ برے کی ماں کو بھی پکڑے، تاکہ وہ مزید برے نہ پیدا کرسکے۔ ہمارے ہاں اور ہی منطق ہے، یہاں دہشت گرد پکڑ کر پولیس کے اعلٰی افسر پریس کانفرنس میں ان کے منہ چھپا کر انہیں میڈیا کے سامنے پیش کرکے داد تحسین حاصل کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردوں کو گرفتار کرکے بہت بڑا تیر مارا ہے، لیکن وہ اصل دشمن تک نہیں پہنچتے کہ ان کو دہشت گرد بنایا کس نے تھا، ان کو یہ ہدف دیا کس نے تھا، ان کا آقا کون ہے، ان کی ڈوریاں کون ہلا رہا ہے، اگر اس تک پولیس پہنچ جائے تو دہشت گردی جڑ سے ختم ہوسکتی ہے، ویسے نہیں۔

اسلام ٹائمز: حامد میر نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں خطرہ ہے اور اگر حملہ ہوا تو آئی ایس آئی ذمہ دار ہوگی۔؟

رحمت خان وردگ: یہ محض الزام ہے، لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ ایسا مزاج نہیں رکھتے، پھر یہ کہ حامد میر آخر آئی ایس آئی کے لئے کیا خطرہ ہیں؟ جو ادارہ پاکستان کے دشمنوں کی سازشوں کا جرات و بہادری سے مقابلہ کرتا ہے، وہ محض ایک اینکرپرسن سے اتنا خوف زدہ ہوجائے گا کہ اس کی موت ہی کو اپنے لئے نجات سمجھے گا، یہ ایک عجیب سی حرکت ہے، جو کی گئی ہے اور آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کی ناکام کوشش تھی، جو بری طرح فلاپ ہوگئی اور آپ نے دیکھا کہ کس طرح لوگ آئی ایس آئی اور فوج کے حق میں باہر نکل آئے اور ریلیاں برآمد ہوئیں، فوج سے لوگ محبت کرتے ہیں۔ یہ محبت لازوال ہے اور ختم ہونے والی نہیں۔

اسلام ٹائمز: کہتے ہیں کہ حامد میر لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھا رہا تھا، جس کا ’’کُھرا‘‘ آئی ایس آئی کی جانب جا رہا تھا۔؟
رحمت خان وردگ: میں آپ سے پوچھتا ہوں کیا یہ مسئلہ صرف وہی اٹھا رہا تھا، کیا عمران خان، جماعت اسلامی، پاسبان اور دوسری مذہبی و سیاسی جماعتیں اور افراد یہ معاملہ نہیں اٹھا رہے تھے؟ وہ کیوں قتل نہیں ہوئے، ان پر قاتلانہ حملے کیوں نہیں ہوئے، کیا ماما قادر بلوچ نے کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کرکے طویل عرصہ تک لاپتہ افراد کا معاملہ سڑکوں پر نہیں اٹھایا، وہ ایسے کسی حادثے کا شکار کیوں نہیں ہوا، اس واقعہ سے پہلے نہ بعد میں۔ اس حقیقت پر غور کریں، آئی ایس آئی کی بدنامی سے امریکہ، انڈیا اور اسرائیل کے سوا کون خوش ہوگا۔

اسلام ٹائمز: حامد میر پر حملہ بہرحال غفلت اور بے احتیاطی کا نتیجہ ہے، آپکے خیال میں اس کا ذمہ دار کون ہے۔؟
رحمت خان وردگ: میں نے ٹی وی پر دیکھا کہ پنجاب کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے ایک لیٹر جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ حامد میر سمیت چند صحافیوں اور اینکر پرسنز کی جان کو خطرہ ہے، پنجاب اور وفاق میں دونوں جگہ نواز لیگ کی حکومتیں تھیں اور یہ ضروری ہوگیا تھا کہ جن کے نام اس فہرست میں شامل تھے، انکی سکیورٹی کا خصوصی انتظام کیا جاتا جو نہیں کیا گیا۔ انہیں خصوصی گارڈز فراہم کئے جاتے، بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کی جاتیں، جس طرح سے خطرہ کی اطلاع دی گئی، اس طرح کی سکیورٹی بھی دینی چاہیئے۔ یہ پنجاب حکومت اور وفاق کی اپنی کوتاہی ہے۔

اسلام ٹائمز: لیکن یہ واقعہ تو کراچی میں پیش آیا۔؟

رحمت خان وردگ: جب پنجاب کے محکمہ داخلہ نے رپورٹ دی تھی تو اس حکومت کا حفاظتی اقدامات کرنا بھی فرض تھا، سندھ حکومت کو الرٹ کیا جاتا، وفاقی حکومت کا طرز عمل شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔

اسلام ٹائمز: میاں نواز شریف نے ہسپتال جا کر حامد میر کی عیادت کی، یہ حکومت کی فکر مندی ظاہر نہیں کرتا۔؟

رحمت خان وردگ: وزیراعظم میاں نواز شریف نے عیادت کی اچھی بات ہے، میں نہیں کہتا ایسے حملوں کا شکار ہونے والے دیگر صحافیوں کے لئے وزیراعظم نے اس طرز عمل کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا، کسی کے ساتھ خاص تعلق بھی ہوسکتا ہے۔ مگر وزیراعظم نے وہاں جا کر جو بیان دیا وہ مناسب نہیں تھا، اس سے غلط تاثر پیدا ہوا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم بندوق والوں کے ساتھ نہیں، ہم غلیل نہیں دلیل والوں کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم کے اس بیان سے ایک ادارے کے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوئے کیونکہ وہ اس ادارے میں نہیں گئے، بلکہ الزام لگانے والوں کے پاس ہسپتال میں گئے تھے اور اس کے بعد بھی ان کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس ادارہ کا بھی دورہ کرتے۔

اسلام ٹائمز: یہ آپکی اپنی رائے ہے، آپکے خیال میں اسکا پس منظر کیا ہوسکتا ہے۔؟

رحمت خان وردگ: میرا خیال ہے وزیراعظم نواز شریف کی شروع سے ہی ایک حسرت ہے کہ ان کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس طرح آئے کہ انہوں نے فوج کو شکست دی ہے اور یہ کہ فوج کے گملے میں پیدا ہونے والے نے فوج کو شکست دی۔ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کیا تنازعہ تھا، وہ فوج میں تقرریوں کے اختیارات چاہتے تھے جبکہ وزیراعظم کو صرف آرمی چیف مقرر کرنے کا اختیار ہے، باقی فوج کی تقرر و تبادلوں کا اختیار صرف آرمی چیف کو ہے، اس سے ہی پیشہ وارانہ معیار برقرار رہتا ہے اور پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: فوج کے حوالے سے اگر منفی جذبات فرض کر لئے جائیں تو کیا اس کی وجہ جمہوری سسٹم کیخلاف جنرل پرویز مشرف کا رویہ نہیں۔؟

رحمت خان وردگ: دیکھیں، جنرل پرویز مشرف کے کردار کے حوالے سے جواز اور عدم جواز میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے، اگر آئی ایس آئی سے بدلہ لینا تھا تو پھر ائیر مارشل اصغر خان کے آئی ایس آئی کے خلاف کیس سے بہتر موقع کوئی نہیں تھا، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹا اسے نقصان پہنچایا گیا اور معاملہ ایف آئی اے کے سپرد کر دیا گیا۔ کیونکہ خود اپنا نام آ رہا تھا، یہ معاملہ ایک فوجی نے اٹھایا تھا، سیاستدان فائدہ نہ اٹھا سکے۔ کیونکہ وہ خود بے نقاب ہو رہے تھے، ویسے اگر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوسناک صورت حال سامنے آتی ہے، اس ملک کے سیاسی نظام کو سیاست دانوں کے ہاتھوں ہی نقصان پہنچا ہے، اس کی ایک بڑی مثال 1970ء کے انتخابات ہیں۔ انتخابات میں ساری دنیا جانتی ہے کہ جنرل یحیٰی خان نے غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے تھے۔ جس میں شیخ مجیب الرحمن نے اکثریت حاصل کی تھی، اگر مغربی پاکستان کے سیاست دان ان انتخابات کے نتائج تسلیم کر لیتے اور اقتدار شیخ مجیب الرحمن کو منتقل کر دیتے تو پاکستان نہ ٹوٹتا، ہمارے سیاست دانوں نے اس وقت جو کردار ادا کیا، آج ملک کی دو بڑی جماعتیں وہی کر رہی ہیں، جن سے معاملہ بگاڑ کی جانب جا رہا ہے۔

دیکھا جائے تو میاں نواز شریف نے سیاسی تدبیر کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ اصل میں آصف علی زرداری نے نواز شریف کو ٹریپ کر لیا ہے اور ایسے بیانات دے کر جس سے واضح طور پر فوج کے لئے خاص پیغام سمجھا گیا، اول تو اس موقع پر نواز شریف آصف زرداری سے ملاقات سے اجتناب کرتے، اپنی مصروفیات کا بہانہ بنا کر موخر کر دیتے اور اگر ملاقات ہو بھی گئی تھی تو پھر ون ٹو ون ملاقات کسی صورت نہیں ہونی چاہیے تھی بلکہ دونوں پارٹیوں کے وفود کی موجودگی میں کی جاتی، اس سے ملاقات اس منفی تاثر کا ذریعہ نہ بنتی جو عوامی اور سیاسی سطح پر اور اخباری کالموں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا میں ہونے والی گفتگو میں محسوس کیا گیا۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور میاں نواز شریف نے آئی ایس آئی کے خلاف اصغر خان کا کیس خراب کیا۔ اس پر فیصلہ ہو جاتا تو آئی ایس آئی سیاست سے الگ ہوجاتی، اس کا سیاسی رنگ ختم ہوجاتا، جسے موجودہ وزیر اعظم آج بھی ایک انتظامی حکم کے ذریعے بنایا تھا اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آئین اور قانون اسے ختم کرنے کی راہ میں رکاؤٹ نہیں، یعنی اسے ختم کرنے کے لئے اسمبلی سے منظوری کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ وزیراعظم محض ایک انتظامی آرڈر سے ختم کرسکتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف زرداری پانچ سال اقتدار میں رہے، میاں نواز شریف پہلے دو مرتبہ اور اب تیسری مرتبہ وزیراعظم ہیں، یہ دونوں آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ کرسکتے تھے لیکن کیوں نہیں کیا؟ اسے کیوں برقرار رکھا گیا ہے، ویسے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ جنرل مشرف کے بعد آئی ایس آئی کا سیاسی ونگ کام نہیں کر رہا، اب اگر آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے گا تو یہ اس قومی سلامتی کے ونگ کے خلاف پروپیگنڈہ ہوگا، اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ قومی سلامتی کے ونگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی چاہیئے۔ کیا اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے اس کے قومی سلامتی ونگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں، ایسا چاہنے والے امریکہ بھارت اور اسرائیل کے ایجنٹ ہی ہوسکتے ہیں۔ آئی ایس آئی کو افغانستان میں آنے والا عبداللہ عبداللہ ختم کرسکتا ہے اور نہ بھارت کا نریندر مودی اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر اس کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو اندر سے ہی پہنچ سکتا ہے اور حکمران اور ٹی وی اینکر اس حقیقت کو سمجھیں۔

اسلام ٹائمز: اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ آئی ایس آئی کیخلاف پروپیگنڈہ اور کردار کشی کی مہم غیر ملکی ایجنڈا ہے۔؟

رحمت خان وردگ: بالکل ایسا ہی ہے، یہ دیکھا جائے اس مہم میں کون پیش پیش ہے، نجم سیٹھی کو نواز شریف کے دور میں ہی کیوں پکڑا گیا تھا اور کس کے ایما پر اب نوازا جا رہا ہے، امتیاز عالم کی سیفما کی اختتامی تقریب کے اخراجات کس نے برداشت کئے۔ نواز شریف نے اس موقع پر بھارت سے ایک ہونے کی بات کیوں کی۔ اگر ہندو اور مسلمان ایک ہیں تو پاکستان کو ختم کر دیں۔

اسلام ٹائمز: کیا فوجی سربراہوں نے اقتدار پر قبضے نہیں کئے اور کیا اس حوالے سے خدشات بلا جواز ہیں۔؟

رحمت خان وردگ: اس حوالے سے تاریخ کا جائزہ لیں، فوج نے تب ہی قبضہ کیا، جب نااہل سیاست دانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا، سیاست دانوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری، آج کوئی آئی ایس آئی کو بدنام کرنے کے لئے جنرل مشرف کا نام لیا جا رہا ہے مگر خود جائزہ لیں، ان کے کون سے اقدامات ہیں جن سے فاصلے پیدا ہوئے۔ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک قرار دینے کی بے تابی کو نہ فوج نے پسند کیا نہ عوام نے، جب فوج کو بدنام کیا جائے گا، جب اس پر فوج کے اندر چھوٹے رینکس میں ردعمل ہوگا تو آرمی چیف کیا کرئے گا، ایک نارمل سا بیان ہی دے گا جو حق بنتا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکو ملک کا سیاسی مستقبل کیا نظر آ رہا ہے۔؟

رحمت خان وردگ: میں مستقبل میں ایک نیا منظر دیکھ رہا ہوں، عمران خان، طاہرالقادری، چوہدری شجاعت اور الطاف حسین ایک نیا سیاسی اتحاد تشکیل دیں گے۔ اس اتحاد کا سیاست میں اہم کردار ہوگا۔ یہ بڑا نازک وقت ہے، میں فوج کو دعوت نہیں دے رہا بلکہ عوام سے کہوں گا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے تو گرمی ہو یا سردی گھروں سے نکلیں اور قربانی دیں، قوم اپنے دشمنوں کو بھی پہچان لے اور دوستوں کو بھی پہچان لے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ جو جیو کے مارننگ شو کے حوالے سے عوامی ردعمل آیا ہے، کہا جا رہا ہے کہ اس میں بھی فوج کا ہاتھ ہے۔؟

رحمت خان وردگ: اب آپ ہر بات کو فوج کے کھاتے میں نہ ڈالیں، فوج اتنی بھی فارغ نہیں کہ ایسے ہتھکنڈے کرتی پھرے، یہ بہرحال جیو کے پروگرام میں ایک غلطی ہوئی اور اہل بیت اطہار کی توہین کی گئی، جس پر عوامی ردعمل لازمی تھا اور ایسا ہی ہوا، اب معافیاں مانگی جا رہی ہیں تو ان معافیوں سے عوام کے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوں گے۔ یہ دل آزاری ہوئی ہے پوری قوم کی۔ تو اس حوالے سے یہ جیو پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ عمران خان نے جو باتیں کی ہیں، وہ قابل غور ہیں، عمران خان صاف گو آدمی ہے، وہ دل میں کوئی بات نہیں رکھتا، جیو کو یہ حرکت لے ڈوبے گی۔
خبر کا کوڈ : 383851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش