0
Saturday 28 Feb 2009 13:43

سعودی پولیس نے زائرین کو مسجدالنبی (ص) میں قتل کردیا

سعودی پولیس نے زائرین کو مسجدالنبی (ص) میں قتل کردیا
سعودی پولیس نے زائرین کو مسجدالنبی (ص) میں قتل کردیا ۔سعودی فورسز نےنہتے زائرین پر ڈنڈوں سے حملہ کیا اور آخر کارمسجد کے اندر ہی ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں دو افراد،جن میں سے ایک کی عمر بمشکل 15 سال تھی ،کو شہید اور کئی دیگر افراد کو زخمی کیا.
سعودی عرب سے موصولہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کی مناسبت سے سعودی عرب کی شیعہ و سنی خواتین نے جنت البقیع کی قریب اجتماع کیا تھا جن کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر فورسز نے انہیں نہایت نازیبا الفاظ اور گالی گلوچ کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں دوہزار افراد نے احتجاجی دھرنا دیا.
سعودی عرب کی فورسز نے دعوی کیا ہے کہ خواتین بقیع میں داخل ہونا چاہتی تھیں چنانچہ ان پر حملہ کیا گیا! جبکہ بقیع کے دروازوں پر تالے پڑے ہیں اور ان تالوں کو کھولنا یا توڑنا خواتین کے لئے محال ہے.
جنت البقیع میں خاندان رسالت کے کئی ستارے، اصحاب اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدفون ہیں مگر سعودی قانون کے مطابق عورتون کا قبرستانوں میں داخلہ منع ہے. اور ہر سال ہزاروں سنی اور شیعہ خواتین بقیع کے دروازے کے قریب اکٹھی ہوکر آل رسول (ص) کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں. سعودی حکام نے کل رات بھی مسجدالنبی (ص) کے اندر زائرین پر تشدد کیا اور دو افراد کو شہید کردیا.
موثق ذرائع کے مطابق کل رات بقیع اور مسجد النبی کے درمیانی صحن میں زائرین نے رسول اللہ (ص) کی وفات کے سلسلے میں اجتماع کیا تھا اور عزاداری کررہے تھے مگر اسلام کے نام لیوا سعودی حکومت کے امر و نہی کا اسلامی نام استعمال کرنے والی سعودی فورسز نے انہیں گالی گلوچ اور بدزبانی کا نشانہ بنایا. سعودی فورسزگاڑیوں میں بیٹھ کر مسجد الرسول ا(ص) کی بے حرمتی کرتے ہوئے حرم کے اندر ہی زائرین پر چڑھ دوڑیں جس کے نتیجے میں متعدد زائرین زخمی ہوئے.
سعودی فورسز کو نہتے اور بے دفاع افراد کا اجتماع میسر نظر آیا تو ان پر ڈنڈوں سے بھی حملہ کیا اور آخر کارمسجد کے اندر ہی ان پر فائرنگ بھی کردی جس کے نتیجے میں قطیف اور دمام کے رہنے والے دو زائرین،جن میں سے ایک کی عمر بمشکل 15 سال تھی، کو شہید اور کئی دیگر افراد کو زخمی کیا. رپورٹوں کے مطابق سعودی فورسز نے مسجدالنبی (ص) کے فرش پر خون جاری کیا اور آج سنگدلی اور وحشیانہ پن کی انتہا کرتے ہوئے ہسپتالوں میں داخل زخمی زائرین کو گرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا. الراصد نیوز ایجنسی کے مطابق گرفتار ہونے والے بعض زخمی زائرین کی حالت نازک ہے.
انتہا پسندوں نے اس کے بعد امر و نہی فورسز کے بھیس میں مدینہ کے محلہ اہل بیت (ع) پر ہلہ بول دیا اور متعدد دکانوں اور گاڑیوں کو تباہ کردیا.
سعودی سیاسی مفکر «توفيق السيف» نے المنار ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ سعودی حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو انتہاپسند سعودیوں کی جارحانہ کاروائیوں سے بچائیں.
شیخ حسن صفار کا رد عمل
سعودی عرب کے شیعہ عالم دین «شيخ حسن صفار» نے اپنے ایک بیان میں سعودی بادشاہ "عبداللہ بن عبدالعزیز " سے مطالبہ کیا کہ خواتین کے خلاف نہایت نازیبا اقدامات اور زائرین پر تشدد کا سلسلہ جلد از جلد بند کرادیں. انہوں نے کہا کہ سعودی فورسز نے مدینہ سمیت قطیف اور احساء میں بھی خواتین کے خلاف گندی زبان استعمال کی ہےاور انہیں مارا پیٹا ہے.
انہوں نے مدینہ میں زائرین پر سعودی فورسز کے تشدد اور امر و نہی فورسز کے توہیں آمیز اقدامات کے مقابلے میں سعودی حکام کی خاموشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ شاہ عبداللہ کو ان غیر اسلامی اقدامات کا نوٹس لینا چاہئے۔
انہوں نے مدینہ میں گرفتار ہونے والے شیعہ زائرین کی رہائی اور زائرین پر عائد کئے جانے والے جھوٹے الزامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے تشدد کرنے والے عناصر کو کھلی چھٹی دیئے جانے اور انہین اپنے کئے سے بری کئے جانے کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا.
انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مہمانوں اور بقیع اور شہدائے احد کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ٹیموں کی بدسلوکی اسلامی اخلاقیات، انسانی حقوق، اور قومی اور بین المذاہب ڈائیلاگ کے سلسلے میں سعودی بادشاہ کے ذاتی رجحانات کے منافی ہے.
احتجاجی دھرنا
سعودی پولیس اور امر و نہی ٹیم کی طرف سے خواتین زائرین کی توہین اور مردوں اور عورتوں پر فورسز کے تشدد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مدینہ منورہ میں امرو نہی کے محکمے کےسامنے دھرنا دیا. ان کی تعداد سعودی ذرائع نے 2000 بتائی ہے مگر خیال کیا جاتا ہے کہ دھرنا دینے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی. وہ مسجد النبی (ص) کی بے حرمتی اور مسجد کے اندر زائرین کے قتل اور ان پر تشدد کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور گرفتار ہونے والے زائرین کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے.
سعودی اہلکار ابھی راضی نہیں ہوئے،وہ اب زائرین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان پر مقدمہ چلانا چاہتے ہیں.
قاضی و کوتوال و سپاہی اور مجرم و قاتل و انتہا پسند جب سب ایک ہوں تو مقدمہ کس پر چلے گا؟
ہاں وہ ان لوگوں پر پولیس پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانا چاہتے ہیں جن کو انہوں نے کل رات تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کیا تھا اور ان کے دو ساتھیوں کو مسجد النبی (ص) کی پرامن فضا میں موت کے گھاٹ اتارا تھا اور گاڑیاں لے کی مسجد النبی (ص) پر چڑھ دوڑے تھے اور اگر یہ واقعہ کسی اور ملک میں ہوتا اور سیکورٹی فورسز کسی عام مسجد میں گاڑیوں کے ساتھ داخل ہوتیں تو مسلمانوں کا رد عمل کیا ہوتا؟
کہا جاتا ہے کہ سیہات کے علاقے سے "عبداللہ المطرود"، قطیف کے علاقے سے "عبداللہ الدرویش "، دمام کے علاقے سے 25 سالہ "مرتضی الاربش" اور 15 سالہ طالبعلم "عبداللہ المومن" پر امر بالمعروف فورسز پر حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا ہے.
رپورٹوں کے مطابق زائرین خالی ہاتھ تھے اور ان کے پاس کسی قسم کا بھی دفاعی وسیلہ نہیں تھا اور سعودی حکام کے الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں.
آگاہ ذرائع نے بتایا ہے کہ کل رات مسجد النبی (ص) اور آج صبح ہسپتالوں سے گرفتار ہونے والے زائرین کو نہایت شدید ٹارچر اور آزار و اذیت کیا جارہا ہے اور ان کے پاس دفاع کے لئے وکیل کی سہولت بھی نہیں ہے. انہیں کل رات اور آج صبح شدید ٹارچر کےذریعے ایسے اقرارناموں پر دستخط کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے جن کا مضمون پڑھنے کی انہیں اجازت نہیں دی گئی تھی.
زائرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ریحان الرسول (ص) سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شہادت اور غزہ کے شہیدوں کے چہلم کی مناسبت سے مسجد النبی (ص) میں اکٹھے ہوئے تھے.
واضح رہے کہ سعودی عرب میں آزادی اظھار کی کوئی روایت نہیں ہے جبکہ پاکستان سمیت عالمی میڈیا بھی سعودی عرب کے دلسوز مظالم پرخاموش ہے ۔اچھنبے کی بات یہ کہ پاکستانی میڈیا جو آزادی اظھار کی آڑ میں وطن عزیز کے نان ایشوز واقعات کو بھی ایشوز بناکر بڑھا چھڑا کر پیش کر رہے ہیں۔دبئی میں ھیڈ آفس ہونے کے باوجود سعودی مظالم پر دانستہ انکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔جو ازادئی صحافت کے دعویداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1132
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش