0
Saturday 25 May 2024 13:53

ہم ایران کے غم میں برابر کے شریک ہیں، سید حسن نصر الله

ہم ایران کے غم میں برابر کے شریک ہیں، سید حسن نصر الله
اسلام ٹائمز۔ گزشتہ روز بیروت کے نواح میں لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر الله" نے ہیلی کاپٹر سانحے میں شہید ہونے والے ایرانی صدر اور ان کے رفقاء کی مجلس ترحیم سے خطاب کیا۔ انہوں نے اس المناک حادثے پر رهبر معظم انقلاب اسلامی، ایرانی حکام مملکت اور عوام سے اظہار تعزیت کیا۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ جس طرح اس حادثے نے ایران پر اندرونی اور بیرونی اثرات چھوڑے ہیں اسی طرح ہم بھی اس دردناک سانحے پر غمزدہ ہیں۔ ہم نے عالمی استکبار اور غزہ پر غاصب صیہونیوں کی جارحیت کے خلاف جنگ کے اس نازک مرحلے پر اپنے عزیز اور عظیم مجاہدوں کو کھو دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سید ابراہیم رئیسی کو بہت نزدیک سے جانتے ہیں اور میری گفتگو تقریباََ انہی کے بارے میں ہو گی۔ اس کے علاوہ آیت الله آل هاشم کے بارے میں ہم نے بہت کچھ سنا۔ وہ ایک مجاہد عالم شخصیت تھے۔ تاہم میری گفتگو کا محور آیت الله سید ابراہیم رئیسی اور ان کے بے مثال وزیر خارجہ "حسین امیر عبداللهیان کی شخصیت ہو گا کیونکہ ان شخصیات کا علاقائی مسائل سے گہرا تعلق تھا۔ سید حسن نصر الله نے مزید کہا کہ میں ایک بار پھر اس نکتے کی جانب توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں اور نوجون نسل کو ان شخصیات کو جاننے کی ضرورت ہے۔ تاہم ان برگزیدہ چہروں کو ہماری تعریف کی کوئی ضروت نہیں بلکہ ہمیں اُن سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

لبنان میں مقاومت اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ رول ماڈل ہونا صرف پیغمبر اور آئمہ کی ذات سے ہی منسوب نہیں بلکہ یہ لفظ صدر، گورنر، ماں یہاں تک کہ ایک کاریگر پر بھی صادق آتا ہے۔ رول ماڈل یا سمبل کے علاوہ انسان نظریے پر بات کر سکتا ہے مگر یہ اسوہ اور رول ماڈل ہی ہوتا ہے جس کے ذریعے سے ایک تفکر کو جانا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج شہید ابراہیم رئیسی کی ذات ہمارے لئے ایک رول ماڈل ہے۔ بلاشبہ ان کی ایک طولانی تاریخ ہے تاہم ہم انہیں بالخصوص آخری سالوں میں تین مراحل میں جانتے ہیں۔ پہلا مرحلہ جب وہ مشہد مقدس میں حرم امام رضا ع کے متولی تھے، دوسرا مرحلہ جب وہ چیف جسٹس بنے اور تیسرا مرحلہ جب وہ ایران کے صدر منتخب ہوئے۔ وہ امام رضا ع کے خادم تھے اور یہ بہت بڑا لقب تھا۔ حرم امام رضا ع کا انتظام بہت وسیع ہے۔ سیاسی طور پر ان کا ایک اہم ترین قدم طویل المدتی بیوروکریسی سے چھٹکارا حاصل کرنا اور بہت سی فیکٹریوں کو بند ہونے سے بچانا تھا۔ وہ خود کو عوام الناس کا خادم قرار دیتے تھے اسی لئے انہوں نے اپنی عوام کے لئے شب و روز محنت کی۔ وہ بہت شجاع تھے۔ مقاومت پر یقین رکھتے تھے۔ وہ عالم با عمل تھے۔ صدارت کے تین سالوں میں ان کی ایک بھی چھٹی نہیں۔ اس قدر محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مطیع رہبر بھی تھے۔

حزب‌ الله کے سربراہ نے کہا کہ ایران میں صدر کو دو چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ ایک اقتصادی پابندیوں کا تو دوسرا بین الاقوامی تعلقات کا۔ انقلاب اسلامی کے بعد سے ایران کو ان دونوں محاذوں پر مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ مگر ایران نے تمام مشکلات اور سختیوں کے مقابلے میں استقامت و پائیداری دکھائی ہے۔ انقلاب اسلامی اپنی کامیابی کے پہلے دن سے ہی محاصرے اور پابندیوں کی زد میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی کہ جو ایک عالمی جنگ شمار کی جا سکتی ہے کیونکہ اس جنگ میں تمام طاغوت ایک سمت جمع تھے اور صدام کی مدد کر رہے تھے۔ جس کے مقابلے میں ایران نے بہت زیادہ شہداء دئیے۔ جوانوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی، شہر ویران ہوگئے اور یہ سب کچھ اس ملک پر پابندیوں کے سائے میں ہوتا رہا۔ انہوں نے ایک بار پھر اس ہیلی کاپٹر حادثے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے لئے اس طرح کے حادثات نئے نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایران اپنے ہاتھوں سے اپنے صدر اور وزیراعظم کو کھو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے چیف جسٹس ایک دہشت گردانہ کارروائی میں مارے جا چکے ہیں۔ انہوں نے دشمن کی جانب سے ایران پر پابندیوں کی اوج پر شہید سید ابراہیم رئیسی کے اقدامات کے نتائج کا ذکر کیا۔

سیدِ مقاومت نے مزید کہا کہ آج ایران فخر کے ساتھ کہتا ہے کہ وہ استقامتی مرکز اور فلسطین کی اپنے تمام وسائل بشمول سفارتی، تربیتی، عسکری و مالی لحاظ سے مدد جاری رکھے گا۔ اس سلسلے میں شهید ابراہیم رئیسی نے خصوصی کردار ادا کیا۔ اسی طرح ایران کے شہید وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان بھی مضبوط ایمان کے ساتھ یہی تفکر رکھتے تھے۔ وه مقاومت کے عاشق تھے۔ ہم ایک عرصے سے ان کو جانتے ہیں۔ وہ ایران کی وزارت خارجہ میں عرب_افریقی ڈیسک کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ اس کے بعد وہ ایران کی پارلیمنٹ میں عرب_افریقی شعبے کے مشیر بھی تھے۔ آخر میں وزیر خارجہ کے طور پر ان کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حسین امیر عبداللهیان نے لبنان کے متعدد دورے کئے۔ اس ہفتے میں بھی ان کا دورہ بیروت اُن کے شیڈول کا حصہ تھا لیکن قضاء نے مہلت نہ دی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ایرانی حکمت عملی مقاومت کی حمایت پر مبنی ہے مگر شہید حسین امیر عبداللہیان ذاتی طور پر اس موضوع پر گہرا یقین رکھتے تھے۔ ہم نے اس عرصے میں ان سے بھلائی کے علاوہ کوئی چیز نہیں دیکھی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور خداوند متعال سے ان کے بلندی درجات کی دعا کرتا ہوں۔ ان دونوں شہداء کی مشترکہ اہم خصوصیت انکساری تھی۔

سید حسن نصر الله نے کہا کہ شهید حسین امیر عبداللهیان عوامی و مقاومتی تحریکوں سے بہت انکساری سے پیش آتے۔ اسی دوران وہ حکومتوں اور عوامی تحریکوں کے درمیان تعلقات برقرار رکھنے کے لئے اقدامات بھی کرتے۔ یہ سادہ بات نہیں۔ وہ محروموں اور مجاہدوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ ہمارے یہ عظیم شهداء فقراء و مساکین کے ہمدرد تھے۔ یہ صرف مکتب اسلام، پیامبر اکرم ص اہلیبیت ع اور امام خمینی رحمت الله علیه ہے کہ جو ہمیشہ فقراء و مساکین سے محبت کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے آپریشن طوفان الاقصیٰ کے بعد اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس کا حوالہ بھی دیا۔ جس میں شہید ابراہیم رئیسی نے غزہ کے مسئلہ پر سخت موقف اپنایا۔ انہوں نے فلسطین کی حمایت میں 10 محکم اور بہترین تجاویز پیش کیں تاہم عرب و اسلامی ممالک نے انہیں قبول نہ کیا، بلکہ اسی اجلاس میں بعض نے تو حماس کو بُرا بھلا کہہ ڈالا۔ حزب الله کے سربراہ نے کہا دشمن نے میڈیا کی سطح پر امام خامنه ای، نظام جمهوری اسلامی اور شهید ابراہیم رئیسی کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے۔ دشمن سخت ترین پروپیگنڈے کے ساتھ کوشش کر رہا ہے کہ ایرانی عوام اور اسلامی نظام میں اختلاف کو ظاہر کر سکے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ایران میں چلنے والا نظام عوامی نہیں ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ تم چالیس سالوں سے اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے پر تُلے ہوئے ہو لیکن تم کبھی بھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکو گے۔
خبر کا کوڈ : 1137473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش