0
Saturday 28 Apr 2012 20:37

سندھ کے علیحدگی پسند

سندھ کے علیحدگی پسند
اسلام ٹائمز۔ جی ایم سید کی شخصیت بہت پیچیدہ اور تضادات سے بھرپور تھی، جناح صاحب مسلم اکثریتی صوبوں سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرانا چاہتے تھے، پنجاب، بنگال، سرحد سے انہیں کامیابی نہ مل سکی، یہ سیدصاحب ہی تھے جنہوں نے مارچ 1943ء میں سندھ اسمبلی میں خود پاکستان کے حق میں قرارداد پیش کی اور اسے منظور بھی کرایا، لیکن محض ایک عہدے کے تنازع پر پاکستان توڑنے کا نعرہ لگانے والے بھی وہ پہلے شخص تھے۔ دو قومی نظریے کے پرجوش مبلغ رہے، بعد میں اس نظریے کے خلاف کتابیں لکھ ماریں۔ بدعات کے انسداد، تعلیم کے فروغ کے لیے پیروں کی تنظیم بنائی، تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن جب ناراض ہوئے تو سندھ کا اسلام سے تعلق ہی منقطع کرنے میں جت گئے۔ اردو بولنے والوں کو ہندوستان سے سندھ ہجرت کرنے کی دعوت دی، انہیں قائل کرنے کے لیے مضامین اور کتابچے تحریر کیے، جب یہ لوگ سندھ آئے تو ” نہ کھپے نہ کھپے “ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ پہلے انتخابات میں حصہ لیتے رہے، پھر سندھو دیش کے داعی بن کر انتخابات کو پاکستان کی سازش قرار دینے لگے، پھر اچانک دوبارہ انتخابی میدان میں کود پڑے اور پی پی کے غیر معروف نوجوان سے شکست کھا کر ہمیشہ کے لیے الیکشن لڑنے سے توبہ کرلی۔ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ سندھ کے ممبئی صوبے سے الحاق تک کے خلاف تھے لیکن بعد میں بھارت کو اپنا نجات دہندہ سمجھنے لگے۔ یہ تو ضیاءالحق تھے جنہوں نے جی ایم سید کو بالآخر بھارت کی نظر میں مشکوک بنادیا۔

واقعہ کچھ یوں ہے، جی ایم سید کا بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کے لیے نئی دہلی جانے کا پروگرام تھا۔ ان دنوں وہ بیمار تھے اور کراچی کے ایک ہسپتال میں داخل تھے۔ ایک روز اچانک صدر ضیاءالحق ان کی عیادت کے لیے پہنچ گئے۔ پہلے تو لوگوں کے سامنے حال احوال دریافت کیا، بعد میں علیحدگی میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ ضیاءالحق تو تین، چار منٹ کی ون ٹو ون ملاقات کے بعد چلے گئے لیکن سید صاحب کی شامت آگئی۔ میڈیا نے پوچھا صدر نے آپ سے علیحدگی میں کیا کہا، وہ بولے کچھ نہیں صرف خیر خیریت دریافت کی تھی۔ اصل بات بھی یہی تھی لیکن جی ایم سید کی بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آرہا تھا، معاملہ اتنی پراسراریت اختیار کرگیا کہ اندرا نے بھی ناراض ہوکر ملاقات سے انکار کردیا۔ سید صاحب جب تک زندہ رہے اس ” حرکت “ پر ضیاءالحق کو کوستے رہے۔ جی ایم سید کا 1995ء میں انتقال ہوا، میت لے جانے والی ایمبولینس پر ہلال، صلیب سمیت ہندوؤں اور دیگر مذاہب کے نشانات بنائے گئے۔ قرآن پاک، انجیل، گیتا اور دیگر مذہبی کتابیں سرہانے رکھی گئیں، آخری رسومات بھی مختلف مذاہب کے مطابق ادا کی گئیں۔

سندھ کی سیاسی جماعتوں کو وفاق پسند، قوم پرست اور علیحدگی پسند گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور فنکشنل لیگ وفاق کی سیاست کرنے والی بڑی جماعتیں ہیں۔ پیر پگارا شاہ مردان شاہ مرحوم سندھ میں پاکستان کی موثر آواز تھے، وہ اپنے مریدین کو سندھی ٹوپی نہیں پہننے دیا کرتے تھے، وہ کہتے تھے اس ٹوپی سے تعصب کی بو آتی ہے۔ قوم پرست سیاست دانوں میں ممتاز بھٹو، رسول بخش پلیجو اور قادر مگسی نمایاں ہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے جغرافیے میں رہتے ہوئے حقوق چاہتے ہیں۔ ممتاز بھٹو آج کل اپنی پارٹی کو ن لیگ میں ضم کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ یہ صاحب بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی سے بے وفائی کرگئے تھے، وہ دن اور آج کا دن، سندھ کے لوگوں نے کبھی ان کو ووٹ نہیں دیا، البتہ ایک بار ان کے صاحبزادے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے، وہ ابھی اس وجہ سے کہ ان کے ابا نگران وزیراعلیٰ تھے۔

رسول بخش پلیجو کی جماعت کو سب سے زیادہ منظم، تربیت یافتہ اور موثر قوم پرست جماعت کا درجہ حاصل ہے۔ پلیجو صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جماعت کے یونٹ کے صدر کا سیاسی شعور پی پی کے صوبائی صدر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس جماعت کو سندھ کے پڑھے لکھے طبقے کی حمایت حاصل ہے۔ پلیجو، جی ایم سید کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے، اس لیے ان کی سوچ پر سید صاحب کی فکر کا بہت اثر ہے۔ قادر مگسی کی جماعت کو سندھی ” چھوکروں کی پارٹی “ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر قادر بھی ایک مدت تک جی ایم سید کے ساتھ رہے۔ الیکشن بھی لڑتے رہے، لیکن ہمیشہ مخالف امیدوار سے ضمانت ضبط کرائی۔ حیدرآباد کے سندھی اکثریتی علاقے قاسم آباد کو اس جماعت کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود سندھی اس جماعت کے قبضوں اور بھتوں سے بیزار ہیں۔

سندھ میں باقاعدہ علیحدگی کی مہم چلانے والوں کا معاملہ دلچسپ بھی ہے اور عبرت انگیز بھی۔ جی ایم سید کی موت کے بعد کچھ دنوں تک ان کے بیٹوں اور پوتوں نے ” سندھو دیش “ کا علم اٹھایا لیکن عوام کی بے رخی نے انہیں جلد ہی سیاسی راستہ بدلنے پر مجبور کردیا۔ اب خانوادہ سید علیحدگی کی بجائے قوم پرست سیاست کررہا ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ سندھ میں کوئی اینٹ اٹھائیں تو اس کے نیچے سے شاعر برآمد ہوگا یا کوئی علیحدگی پسند جماعت کا سربراہ نکلے گا۔ ہو یہ رہا ہے کہ علیحدگی کے نام پر ایک تنظیم بنتی ہے، کچھ دنوں بعد مرکزی عہدیداران لڑ بھڑ کر اپنی الگ الگ جماعت بنالیتے ہیں۔ تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ پورے ” جوش و خروش “ سے جاری ہے۔ ہر گروپ دوسرے کو ایجنسیوں کا ایجنٹ قرار دیتا ہے۔ شاید سب سچ بولتے ہیں۔ پرانے علیحدگی پسند گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، ان میں ایک بڑا نام عبدالواحد آریسر کا ہے۔ یہ جی ایم سید کی زندگی میں بہت نمایاں تھے، کہنے کو تو آج بھی ان کی جماعت موجود ہے لیکن عملاً یہ گوشہ نشین ہوچکے ہیں۔

یاد آیا، آریسر حیدرآباد کے ایک بڑے مدرسے کے فاضل ہیں، انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ پنجابیوں کے ایک گاؤں میں لمبے عرصے تک امامت کرتے رہے، لیکن پنجاب سے نفرت کی وجہ سے ہمیشہ بے وضو ہی نماز پڑھایا کرتے تھے۔ پچھلے دنوں انتقال کرنے والے بشیر قریشی کو جی ایم سید کی فکر کا حقیقی وارث سمجھا جاتا تھا۔ ذاتی زندگی میں یہ بہت سے علیحدگی پسندوں اور قوم پرستوں سے بہتر تھے۔ جی ایم سید نے طلبہ کو ہدف بناکر کام کیا تھا۔ سندھ کے بڑے تعلیمی ادارے ہمیشہ سے جی ایم سید کے حامیوں کے کنٹرول میں رہے ہیں۔ بشیر قریشی کو تعلیمی اداروں کا قبضہ وراثت میں ملا تھا، جسے انہوں نے مزید مضبوط کیا، ان کے دور میں جئے سندھ تحریک زیادہ منظم اور موثر ہوئی۔

علیحدگی پسندوں میں بیشتر گروہ پرامن طریقے سے مہم چلا رہے ہیں، البتہ اب بلوچستان کے اثرات ان پر بھی پڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ماہ یوم پاکستان کے موقع پر سندھ میں ریلوے ٹریک پر ایک ساتھ درجن بھر بم دھماکے ہوئے، بجلی کی لائنیں اڑانے کے واقعات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ عموماً ڈاکٹر صفدر سرکی گروپ کو ان کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس گروپ کے بلوچ مزاحمت کاروں سے تعلقات کے تصویری شواہد بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ صفدر سرکی کئی بار ” لاپتا “ بھی رہے ہیں۔ یہ بشیر قریشی کے ساتھیوں میں سے تھے، ایک بنگلے پر قبضے کے تنازع کے بعد اپنی الگ جماعت بنالی۔ بہرحال حکومت اور سیکورٹی اداروں کو علیحدگی پسندی کی تحریک کے اس نئے رخ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس کے سدباب کی کوشش کرنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 157221
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش