0
Sunday 9 Sep 2012 00:19

بلوچستان کا حتمی حل سیاسی ہوگا!

بلوچستان کا حتمی حل سیاسی ہوگا!

بلوچستان میں کوئٹہ سمیت مختلف مقامات پر بم دھماکوں، راکٹ حملوں، فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کے باعث امن و امان کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے اور حکومت اس پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہے۔ سپریم کورٹ نے ان واقعات کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ہر کوئی محسوس کر رہا ہے کہ صوبے کے معاملات آئین کے مطابق نہیں‌ چلائے جا رہے۔ جو کچھ یہاں‌ ہو رہا ہے وفاقی حکومت کے نوٹس میں‌ ہے، مگر وہ دلچسپی نہیں‌ لے رہی۔ صرف ایک دن میں ہزارہ برادری کے 7 افراد کو بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ تمام پولیس ایریاز میں بدامنی بڑھ رہی ہے، امن و امان کے حوالے سے متعلقہ حکام کی جانب سے صرف زبانی جمع خرچ ہو رہا ہے۔ اسکول بند ہیں، استاتذہ چلے گئے ہیں۔ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث لوگ پنجاب، سندھ اور دوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔

لوگ اسلحہ لیکر دندناتے پھرتے ہیں۔ اسمگلنگ کی گاڑیاں چل رہی ہیں۔ کالے شیشے والی گاڑیوں کو پولیس پوچھتی نہیں۔ سیشن جج کے قتل کے بعد بھی حکومت حرکت میں نہیں آئی تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے صوبائی سیکرٹری داخلہ اور ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کیوں قتل ہو رہے ہیں؟‌ لاپتہ افراد اب تک بازیاب کیوں نہیں ہوئے؟ 6 ماہ میں کتنے لوگ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوئے، اس بارے میں رپورٹ پیش کی جائے اور فرقہ وارانہ واقعات میں ملوث عناصر کو بےنقاب کیا جائے۔

ملک کے سب سے بڑے، حساس ترین اور بین الاقوامی لحاظ سے انتہائی اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل صوبے میں امن و امان کے حوالے سے صورتحال کی سنگینی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عدالت عظمٰی کو خود نوٹس لینا پڑا۔ کوئٹہ میں بیٹھ کر کیس کی سماعت کرنا بذات خود ایک اہم بات ہے۔ یہ امر تشویشناک ہے کہ بلوچستان میں حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہو کر رہ گئی ہے اور عام لوگوں جن میں آبادکاروں کے علاوہ بلوچ، پشتون اور خاص طور پر ہزارہ قبیلے کے افراد بھی شامل ہیں، ان کی جان و مال عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے۔

عدالت کی بار بار ہدایات کے باوجود حکومت سیکورٹی کے انتظامات درست کرسکی نہ لاقانونیت کے واقعات روکنے میں کامیاب ہوئی۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مسئلہ بھی حل نہیں کرسکی، جس کی بازگشت اب ملکی سرحدوں سے باہر بھی سنائی دے رہی ہے۔ امن و امان کیلئے صوبے کے 95 فیصد علاقے لیویز کے کنڑول میں ہیں، باقی 5 فیصد پولیس کے سپرد ہیں۔ لیویز کے بارے میں عام شکایت یہ ہے کہ بعض صورتوں میں اس کے اپنے اہلکار جرائم کی وارداتوں میں یا تو خود ملوث ہیں یا مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ پولیس کے مطابق بھی ایسی ہی شکایات منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ اس کے ذمہ صرف پانچ فیصد شہری علاقوں میں جرائم کی وارداتیں روکنا ہے۔ مگر ایف سی کو 2 ماہ تک پولیس کے اختیارات سونپ دیئے گئے ہیں۔

جو امن و امان کے حوالے سے پولیس فورس کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا واضح اعتراف ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ایف سی اس نئی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہے کیونکہ اس کا سامنا نہایت منظم اور جدید اسلحہ سے لیس گروہوں‌ سے ہوگا، جنہیں مبینہ طور پر بعض غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ بلوچستان کے حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں اور خاص طور پر طاقت کے زور سے اصلاح احوال کے امکانات معدوم ہیں،‌ اس مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے، جس کیلئے زبانی دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر کوئی عملی قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صوبےکی بدامنی کو عام انتخابات میں تاخیر کے حربے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

یہ قیاس آرائیاں بھی ہو رہی ہیں کہ انتخابات کے التواء کے حوالے سے بعض سیاسی قوتیں سرگرمی سے سوچ بچار میں مصروف ہیں۔ اگر ان کی سوچ اجتماعی، قومی فکر پر حاوی ہوگئی تو انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہوسکیں گے۔ اس سے ملک میں جو بدنظمی اور مایوسی پھیلے گی، اسکے اثرات دور تک جائیں گے۔ وفاقی حکومت کے فیصلے سازوں کو یقیناً اس کا ادراک ہوگا۔ انہیں چاہیئے کہ ملک و قوم کے مفاد کو ہرحالت میں مدنظر رکھیں اور عام انتخابات مقررہ وقت پر کرانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان یا کراچی کی صورتحال کو آڑے نہ آنے دیں۔

ہمارے ہمسایہ ممالک ایران اور بھارت میں بھی مختلف اوقات میں دہشتگردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے جن میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ انہوں نے انتخابات میں تاخیر نہ کی، کیونکہ ایسی صورتحال کا حل انتخابات ہی ہیں۔ انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والے عوام کے منتخب نمائندے ملک کے داخلی اور خارجی مسائل کو حل کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ کراچی کا مسئلہ وہاں کی سیاسی قوتوں کو مذاکرات کی میز پربیٹھا کر بہتر طور پرحل کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کا تعلق ہے تو حکومت کو میر داؤد، براہمدغ بگٹی، حیر بیار مری، اللہ نذر اور دوسرے مزاحمت کار لیڈروں سے براہ راست رابطے کرنے چاہیں۔ اس سلسلے میں ‌بلوچ قوم پرست پارٹیوں کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، جو صوبے پر حق حاکمیت اور ساحل و وسائل پر اختیارات مانگ رہی ہیں۔

آئین میں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو جو خودمختاری دی گئی ہے، اس کے بعض پہلو اب بھی اعتراضات کی زد میں ہیں اور دوسرے صوبے میں انہیں دور کرنے کے حق میں ہیں۔ بلوچستان کا معاملہ تو ویسے بھی کئی حوالوں سے خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ حکومت بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور اعتدال پسند وفاقی پارٹیوں کے قائدین سے سیاسی مذاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ سلجھانے کی کوشش کرے تو مزاحمت کار بھی اس عمل میں شریک ہوسکتے ہیں۔ مگر اس کے لئے حکومت کے کار پردازوں کو خود چل کر ان کے پاس جانا اور انہیں منا کر مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا۔ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیئے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل طاقت کا استعمال نہیں، سیاسی مذاکرات ہیں۔ حکومت اس معاملے میں جتنی تاخیر کرے گی، یہ اُتنا ہی بگڑتا جائے گا۔ اس لئے ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے مفاد میں حکومت کو جلد عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

خبر کا کوڈ : 193462
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش