0
Saturday 21 Sep 2013 12:18

دہشتگردی کی آگ میں جلتا ڈیرہ اسماعیل خان

دہشتگردی کی آگ میں جلتا ڈیرہ اسماعیل خان
رپورٹ: عمران خان

اہل وطن کو شدت سے یہ یقین دلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کا عملاً قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اگرچہ سیاسی بیان بازیاں اس یقین کی نفی کرتی ہیں، لیکن پے درپے پیش آنے والے دہشتگردی اور ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے واقعات اس یقین پر مہر صداقت ثبت کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دھمکی ملنے کے بعد انتہائی خطرناک قاتلوں کی پھانسی موخر کرنے کے عمل نے بھی پوری کر دی۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت نے عملاً دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی پھانسی ایسے وقت میں موخر کی گئی، جب ڈیرہ اسماعیل خان سنٹرل جیل پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے دہشت گرد حملے کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے۔ ڈیرہ جیل حملے کے حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو ایسے تلخ حقائق سامنے آتے ہیں، جن سے نظریں چرانا بھی ممکن نہیں اور ان کو قبول کرکے مقدس چہروں پر کلنک سہنے کا بھی حوصلہ میسر نہیں آتا۔
 
29 اگست بروز پیر ٹانک کے مضافاتی علاقوں سے دہشت گرد بھاری اور خودکار ہتھیاروں کے ساتھ ہائی ایس کوچز میں نمودار ہوتے ہیں اور ٹانک لکی روڈ پر سے ہوتے ہوئے براستہ یارک اور بنوں ڈیرہ اسماعیل خان روڈ کو استعمال کرتے ہوئے ڈیرہ شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ دو گاڑیوں پر مشتمل ٹانک سے روانہ ہونے والا دہشت گردوں کا یہ قافلہ جوں جوں آگے بڑھتا ہے، اس میں گاڑیوں، ہتھیاروں اور دہشت گردوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب کلاچی کا راستہ استعمال کرنے والا موڑ کاروں پر مشتمل ایک اور گروہ روانہ ہوتا ہے، جو بعد ازاں ڈیرہ بائی پاس روڈ کو استعمال کرتے ہوئے ظفر آباد کالونی سے ڈیرہ میں داخل ہوتا ہے۔ منصوبے کے مطابق دہشت گردوں سے بھری یہ گاڑیاں مختلف مقامات پر مختلف گروپس کو اتارتی ہیں۔ چند منٹوں میں ہی جنوبی سرکلر روڈ، ڈیرہ جیل کے اطراف کے تمام راستے، پولیس لائن روڈ، ٹاؤن ہال روڈ دہشت گردوں کے تصرف میں آجاتے ہیں۔
 
ایک گروپ کمشنری بازار کے سرے پر واقع عارضی چوکی جو غالباً بازار میں بڑی گاڑیوں کو داخل ہونے سے روکنے یا فروٹ ریڑھی والوں سے افطاری وصول کرنے کی غرض سے بنائی گئی تھی، پر فائرنگ سے حملے کا باقاعدہ اعلان کرتا ہے۔ اس کے بعد چہار جانب سے فائرنگ اور دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دھماکے بھی اتنے دوستانہ تھے کہ ان سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ جیل کے ابتدائی گیٹ پر پہلے راکٹ پھر فائرنگ کے ذریعے راستہ بنایا جاتا ہے۔ جیل کے احاطے کی دیوار کو اڑانے کے لیے باقاعدہ ڈائنامیٹ سٹکس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ فائرنگ سے باہر کے سپاہی زخمی ہوتے ہیں۔ جیل کے دوسرے گیٹ پر بھی دھماکوں سے طبع آزمائی کی جاتی ہے۔ جب کہ مین گیٹ جو انگریز دور سے ہی اس جیل کی سکیورٹی کو ناقابل تسخیر بنائے ہوئے تھا۔ جیل کی ذمہ دار پولیس اندر سے کھول دیتی ہے اور آنے والے دہشت گردوں کو ٹوپیاں ہاتھ میں پکڑ کر خوش آمدید کہتی ہے۔ 

جیل کے اوپر چوبارے والے مورچے کے دو سپاہی اپنی پرانی بندوقوں کے ساتھ دہشت گردوں
پر گاہے بگاہے فائرنگ کرکے انہیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں، مگر جلد ہی ان کی گولیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ دہشت گرد کمال پھرتی سے اوپر چوبارے پہ پہنچ کے ان سپاہیوں کو نیچے پھینک دیتے ہیں، نیچے گرنے کے بعد دیگر دہشت گرد ان کو بھی اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسی دوران سپیکر کے ذریعے دہشت گردوں کے نام پکارے جاتے ہیں اور پہلے سے کھلی بیرکس سے حملہ آوروں کے ساتھی اس برائے نام قید سے بھی رہائی حاصل کرتے ہیں۔ حملہ آوروں جن کی تعداد 100 سے زائد تھی، مختلف علاقوں و ملکوں سے تعلق رکھتے تھے۔ جن میں پنجابی کے علاوہ ازبک اور تاجک بھی شامل تھے۔ بارودی مواد کے ذریعے 65 سے زائد دھماکے کئے گئے جبکہ برسنے والے راکٹس اس کے علاوہ ہیں۔
 
فائرنگ، خنجر اور راکٹ حملوں کے نتیجے میں تقریباً 12 افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں 7 اہل تشیع قیدی اختر بلوچ، ساجد علی، جمعہ خان، ذوالفقار شاہ، رجب علی، محمد اسلم بھی شامل ہیں، جن کو رہائی پانے والے دہشت گردوں نے نہایت بے دردی سے فائرنگ کرکے شہید کیا اور اس قتال کو رہائی کے جشن سے تعبیر کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں جیل سے تقریباً 250 قیدی فرار ہوئے۔ ان میں سے اکثریت ان قیدیوں کی تھی جو اپنی جانیں بچانے کے لیے جہاں راستہ نظر آیا بھاگ کھڑے ہوئے۔ دہشت گرد اپنے 47 اہم ساتھیوں، جن میں طالبان کمانڈر عبدالحکیم، احمد بجارانی، منصور احمد، ولید اکبر، حاجی ریاض کو رہا کرانے کے ساتھ ساتھ پارہ چنار کے 4 مومن قیدیوں اور لیڈی پولیس کانسٹیبل سمیت 8قیدی خواتین کو بھی اغوا کرکے ساتھ لے گئے۔ جن میں سے نصف خواتین کو دو دن قید میں رکھنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔ نام نہاد اسلام پسند دہشت گردوں نے ان خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ قابل تحریر نہیں۔ پارہ چنار سے تعلق رکھنے والے جن چار مومنین کو اغوا کرکے ساتھ لے گئے تھے، بعد ازاں ان میں سے بھی دو کو شہید کر دیا گیا۔ 

ایک میڈیکل اسٹور کے باہر موجود مقامی شخص نے دہشت گردوں کے درمیان اردو میں ہونے والی گفتگو سنی۔ جس میں ایک دہشت گرد میڈیکل سٹور اور اس کے ساتھ ملحقہ لیبارٹری کو راکٹوں سے اڑانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے، جبکہ دوسرا دہشت گرد جواباً کہتا ہے اس مارکیٹ سے ہمیں سب سے زیادہ چندہ موصول ہوتا ہے۔ کم سے کم اپنوں کا تو خیال کرو۔ جیل پر حملے کے بعد جب پورا شہر دھماکوں کی گھن گرج سے گونج رہا تھا، جیل انتظامیہ کے ادنٰی اہلکاروں نے ہر اس جگہ پر رابطہ کرکے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، جو ایمرجنسی میں مل سکتی تھی۔ لیکن ہر طرف سے انھیں کورا سا مختصر جواب ملا۔ ایس پی ایلیٹ توحید خان سے جیل انتظامیہ کا سب سے پہلا رابطہ ہوا۔ جس نے پوری گفتگو سننے کے بعد کال کاٹ دی۔ بعد ازاں ان سے رابطہ نہ ہونے کی صورت میں ڈی ایس پی ایلیٹ بہرام خان تک اطلاع پہنچی، مگر اس نے بھی تمام سانحہ سے خود کو لاعلم رکھنے کی کوشش کی۔
 
ریزرو فورس کے انچارج غفور احمد خان جو خود بھی اس وقت لائن پولیس میں موجود تھے، سے جیل انتظامیہ کا رابطہ ہوا۔ غفور خان نے فوری ایکشن لینے اور فورس فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی، مگر بعدازاں لمبی تان کر سوگئے۔ بعد ازاں انوسٹی گیشن
ٹیم کو جواب میں کہا مجھے اطلاع ملی تھی کہ دہشت گرد پولیس لائن میں داخل ہونا چاہتے ہیں، لہذا ریزرو فورس کو میں نے وہیں پر چوکس رکھا، جبکہ ڈی ایس پی صلاح الدین خان نے واقعہ کا پہلا دھماکہ ہوتے ہی اپنا موبائل آف کر دیا اور وائرلیس رابطے سے باہر ہوگئے۔ واقعے کے دوران ہی ڈی پی او ڈیرہ کا بریگیڈئر سے جب ٹیلی فونک رابطہ ہوا تو اس میں یہ طے پایا کہ ممکن حد تک جیل کے اندر نقصان کو کم سے کم رکھتے ہوئے جیل کا کنٹرول پولیس دوبارہ حاصل کرے، جبکہ پاک فوج باہر آنے والے یا فرار ہونے والے دہشت گردوں کو چوہے دان میں قید کرے گی اور ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں جاسکے گا۔ لیکن بعد کے حالات و واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ دونوں اداروں نے اس حوالے سے کسی حکمت عملی کو اپنایا ہی نہیں، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ حملہ باقاعدہ کسی خاص دعوت نامے اور حفاظتی انتظامات کی فراہمی کے بعد کیا گیا۔ 

ڈھائی گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے آنکھ مچولی کے اس کھیل میں عوام کی آنکھوں پہ واپڈا نے لوڈشیڈنگ کی پٹی باندھی تو مسلح اداروں نے کرفیو سے عوام کو گھروں میں مقید کیا۔ ان اقدامات سے عوام اور میڈیا کا باہر نکلنا ممنوع اور دہشت گردوں کو اپنی اپنی کمیں گاہوں کی جانب جانے کی کھلی اجازت کے ساتھ ساتھ روٹ کلئیر دینے کی بھی ذمہ داری احسن طریقے نبھائی گئی۔ یہ ذمہ داری ان اداروں نے نبھائی جو پاک عوام کے خون پسینے سے بنی روٹیوں سے پیٹ پوجا کرتے ہیں۔ باعث شرم و ندامت ہے ان حفاظتی دعوے کرنے والوں کے لیے کہ وہ اپنی تحویل میں موجود قیدیوں تک کو بھی تحفظ فراہم نہیں کرسکتے۔ دہشت گردوں کی بے خوفی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مذموم مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی جاتے جاتے شیعہ آبادی کی جانب 3راکٹ فائر کرکے گئے۔ جن میں سے دو پھٹ نہ سکے جبکہ ایک راکٹ پانی کے نالے میں جاکے پھٹا، جس کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ 

وطن عزیز عرصہ دراز سے دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے، تاحال اس عفریت پر قابو کیوں نہیں پایا جاسکا اس کا اندازہ ڈیرہ جیل پر دہشت گردوں کے حملے اور اداروں کی کارکردگی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس سانحہ سے متعلق یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کا حملہ خارج از امکان تھا، لہذا بے خبری میں ادارے اپنا کردار ادا نہیں کرسکے۔ چنانچہ حملے سے قبل پیش آنے والے واقعات پر بھی ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ حملے سے کچھ عرصہ قبل جیل انتظامیہ کو دھمکی آمیز خط موصول ہوا، جس میں واضح الفاظ میں جیل کو نشانہ بنانے اور دوستوں کو رہا کرانے کا اعلان تحریر تھا۔ خط کو گرچہ زیادہ اہمیت نہیں دی گئی، لیکن چند روز بعد انٹیلی جنس نے جیل پر شدید حملے کی پیشگی اطلاع دی۔ اس اطلاع میں نہ صرف ان دہشت گردوں کی نشاندہی کی گئی تھی، جن کی رہائی کے لیے یہ حملہ متوقع تھا، بلکہ اس میں استعمال ہونے والے ممکنہ راستوں اور حکمت عملی تک کی نشاندہی شامل تھی۔ اس کے علاوہ ماضی میں بنوں جیل پر ہونیوالا حملہ بھی اداروں کی یادداشت سے ابھی محو نہیں ہوا تھا۔ لہذا اس اطلاع کی روشنی میں نہ صرف ہنگامی بنیادوں پر جیل کی سکیورٹی فول پروف بنانے کے
بظاہر اقدامات کئے گئے بلکہ جیل پولیس کو ممکنہ حملے سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ دی گئی۔
 
پشاور سے اعلٰی سطح کی ٹیم نے ڈی پی او آفس میں خصوصی اجلاس کے دوران جیل سکیورٹی کا پلان پیش کیا۔ اس اجلاس میں ڈیرہ پولیس کے تمام ذمہ داران کو تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی اور اس حملے سے محض ایک دن قبل جیل پولیس نے فائرنگ کی ایک خصوصی مشق بھی کی۔ غیر اعلانیہ اس مشق کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہنگامی صورت میں کس اہلکار نے کیا ذمہ داری سرانجام دینی ہے، لیکن اگلے ہی دن ہونے والے حملے نے ان تربیتی مشقوں کے موثر ہونے پر سوالیہ نشان ثبت کر دیا۔ حملے کے وقت جیل کے 126 اہلکاروں میں سے فقط 24 کے پاس اسلحہ تھا۔ ایمونیشن کی مقدار کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اہم ترین مورچہ پر تعینات اہلکار کے پاس فقط 13 گولیاں تھیں۔ چند قیدیوں کے بقول کہ جیل حملے کی جہاں انٹیلی جنٹس اداروں نے اطلاع فراہم کی تھی، وہاں جیل کے اندر کے حالات واقعات بھی اس حملے کی شنوائی دے رہے تھے، مگر انتظامیہ ان کو کسی خاطر میں نہ لائی۔ 

قیدیوں کے بقول اگرچہ یہ حملہ باہر سے ہوا، لیکن حملے کے منصوبہ ساز جیل کے اندر ہی موجود تھے، جو کہ موبائل پی سی او کے ذریعے مسلسل حملہ آوروں سے رابطہ میں تھے۔ جعلی ڈگری ہولڈر خلیفہ عبدالقیوم کی سربراہی میں آئے روز خفیہ میٹنگز ہوتیں۔ کچھ دنوں سے جیل کے اندر آنے والا سامان بھی عجیب نوعیت کا تھا، جس میں پینٹ، شرٹس، شیونگ کا سامان بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ حملے سے ایک روز قبل خطرناک قیدیوں نے اپنے حلیے بھی تبدیل کرنا شروع کر دیئے تھے۔ جیل کے اندر کے یہ واقعات اس بات کی بھی غمازی کرتے ہیں کہ ان خطرناک دہشت گردوں کو رہا کرانے کے بعد پہاڑوں میں چھپانے کی بجائے پنجاب میں انسانوں کے ہجوم میں چھپانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ دہشت گرد رہائی حاصل کرنے کے بعد وزیرستان کی بجائے بادشاہ ستان یعنی لاہور و اسلام آباد منتقل ہوچکے ہیں۔ 

جیل حملے کے دو دن بعد اسلام آباد اور لاہور ائیرپورٹس پر ہونیوالا ہائی الرٹ، خصوصی چیکنگ اور بعد ازاں عوام کے داخلے پر پابندی اس شبے کو یقین میں بدلتے ہیں اور اس حملے کے دوررَس مقاصد کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے اپنی ابتدائی رپورٹس پیش کر دی ہیں، جو کہ کاغذ کے ضیاع سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہیں، کیونکہ تاحال جیل میں موجود حملے کے اہم ترین کردار کو شامل تفشیش ہی نہیں کیا گیا۔ عینی شاہدین کے مطابق بیرونی حملہ آوروں نے قیدیوں کو آزاد کرایا، مگر قیدیوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ رہائی حاصل کرنے والے دہشت گرد جن میں ولید اکبر، خلیفہ قیوم، محمد ریاض و دیگر شامل تھے، نے براہ راست ان مقامات کی نشاندہی کی جہاں اہل تشیع قیدی موجود تھے اور ان مومنین کو باقاعدہ شناخت کرکے شہید کیا گیا، جبکہ اختر بلوچ کو اس کے قید خانہ میں ہی شہید کیا گیا۔ 

بعد ازاں حملہ آور نہایت احترام کے ساتھ خلیفہ عبدالقیوم کو اپنے ساتھ لیکر رخصت ہوئے اور اسے اپنی رہائشگاہ پر منتقل کیا۔ جس کی وجہ فقط یہی تھی کہ غم و غصے سے لبریز
کوئی محب وطن اسے نشانہ نہ بنائے۔ اگلے روز پولیس وین میں جعل سازی میں ملوث خلیفہ کو گھر سے دوبارہ جیل منتقل کیا گیا۔ پاکستان کے قانون میں اگر جیل کے اندر کوئی قتل ہوجائے تو اس پر دفعہ 302 کے بجائے دفعہ 303 کا اطلاق ہوتا ہے۔ جس کے تحت اس کیس کا فیصلہ جیل کے اندر ہی ہوتا ہے اور اس دفعہ کی سزا صرف اور صرف فوری سزائے موت ہے، جس کی کوئی اپیل بھی نہیں کی جاسکتی۔ جب عینی شاہدین، حالات واقعات اور ملنے والے شواہد ایک خاص گروہ اور فرد کو 12 افراد کی شہادت کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں تو جیل انتظامیہ کو فی الفور کارروائی کرنی چاہیے۔ گرچہ اہل تشیع کا خون تو ڈیرہ انتظامیہ کی نظر میں نہایت ارزاں ہے، لیکن کم سے کم اپنے شہید سپاہیوں کے لہو کی لاج رکھتے ہوئے تو دفعہ 303 کے تحت اس واقعے کے اہم کردار کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔ 

پورے سانحے کو کسی بھی زاویے سے دیکھیں، وردی میں ملبوس کچھ کالی بھیڑیں اپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلاتی ہیں۔ اس حملے میں ولید اکبر جو کہ ڈی ایس پی اکبر علی کا بیٹا ہے، کو بھی رہا کرایا گیا۔ عین ممکن ہے کہ روز عاشور بم بلاسٹ کیس میں ولید اکبر کو اگر تاحیات عمر قید کی سزا نہ ہوتی تو شائد پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان اتنا قرب نظر نہ آتا۔ سانحہ عاشور میں بھی جس طرح انتظامیہ کا کردار مشکوک تھا، اسی طرح اس واقعے میں بھی نہایت مشکوک ہے۔ شائد یہ بھی اتفاق ہو کہ ایک سانحہ میں ولید اکبر مرکزی مجرم ہے جبکہ دوسرے میں فرار ہونے والے قیدیوں میں طویل ترین سزا پانے والا مرکزی مجرم۔ تحقیقاتی اداروں نے اس رخ پر بھی ورک کرکے کالی بھیڑوں کا تعین نہیں کیا۔ اس کے علاوہ بم دھماکوں کی گھن گرج میں کرفیو کا نفاذ ہوگیا۔ سینکڑوں دہشت گرد اسی کرفیو میں فرار ہو کر طویل راستہ طے کرکے اپنی پناہ گاہوں میں چلے گئے، کسی مقام پر بھی ان کی کسی بھی ادارے سے کوئی جھڑپ تک نہیں ہوئی، حالانکہ ڈیرہ کے تمام داخلی و خارجی راستوں پر ایک سے زائد اداروں کی چوکیاں قائم ہیں۔ 

کرفیو کا نفاذ نہ صرف ڈیرہ میں کیا گیا بلکہ ٹانک، کلاچی اور دیگر علاقوں میں بھی کیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اگلے روز دہشت گردوں نے بحفاظت میر علی پہنچنے کی بریکنگ نیوز نشر کی، جبکہ ڈیرہ سے میر علی جانیوالے تمام راستوں پر عوام کے لیے کرفیو نافذ تھا۔ تحریک طالبان نے اس پورے واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے آپریشن مرگ نجات کا نام دیا۔ حملے کے کمانڈر عدنان رشید نے اپنے بیان میں کہا کہ اس حملے میں ہم نے قیمتی اہداف حاصل کئے ہیں۔ اس کے بقول دو سے زائد راستے استعمال کئے گئے، حملے کا مقصد کوئٹہ کے 6 ساتھیوں سمیت پارا چنار کے 2 کمانڈرز اور ڈیرہ کے 6 افراد کو رہا کرانا تھا۔ اس حملے میں 13 سے زائد گاڑیوں نے مختلف راستے استعمال کرکے یہ ہدف حاصل کیا اور اب بخیرو عافیت میر علی میں محفوظ ہیں۔ اتنے بڑے سانحے کے برپا ہوجانے کے بعد آئی جی جیل خانہ جات کو چند منٹ معطلی کے بعد دوبارہ بحال کردیا گیا۔ ڈپٹی سپریٹنڈنٹ غلام ربانی کو معطل کرکے اس کی جگہ بن یامین خان کو تعینات کیا گیا، جن کے سابقہ دور میں صاحب اثر ملزمان و مجرم دن جیل میں اور راتیں
اپنے گھر گزارتے رہے ہیں۔
 
انتظامی و بااثر اداروں سے دلبرداشتہ ہوکے جب سیاسی ایوانوں سے امید کا رشتہ استوار کریں تو اور بھی ہوشربا صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ صوبہ سرحد کی کسی سیاسی جماعت یا سربراہ کی جانب سے اس واقعے کی حساسیت کا درک سامنے نہیں آیا، بلکہ سب نے ہی اسے محض سیاسی بیان بازیوں کے موضوع کی حد تک لیا۔ اہم سیاسی شخصیت مولانا فضل الرحمان نے اسے عمران خان اور پی ٹی آئی پر تنقید کا سنہری موقع سمجھتے ہوئے ایک طرف حکومتی رٹ پر سوال اٹھایا تو دوسری طرف ڈھکے لفظوں میں حملہ آوروں کی تعریف و حوصلہ افزائی بھی کر ڈالی، البتہ صوبہ سرحد میں جیلوں پر حملے صرف ان شہروں میں ہوئے ہیں جو مولانا صاحب کے سیاسی گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔ ایک طرف امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی پاکستان آمد اور دوسری طرف ڈیرہ جہاں سے مولانا صاحب ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے ہیں، میں دہشت گردوں کا جلوس اور دہشت گرد بھی وہ جن پر مولانا صاحب کو اکثر رشک آتا رہتا ہے۔ عالمی سیاست میں مولانا صاحب کے قد میں اضافے کا سبب ہی بنا ہوگا۔ یہ اور بات ہے کہ جن لوگوں کے ووٹ حاصل کرکے مولانا فضل الرحمان کامیابی حاصل کرتے ہیں سیلاب ہوں یا دہشت گردی، مولانا صاحب کی حلقے میں کبھی موجودگی میسر نہ ہوئی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے ایم پی اے صوبائی وزیر مال علی امین گنڈہ پور نے جیل کا دورہ کرکے بیان دیا کہ واقعے میں پولیس کی غفلت اور فوج کی بروقت کارروائی کا نہ ہونا دہشت گردوں کی کامیابی کا سبب ہیں۔ 

عام دنوں میں فوج شہر کی اندرونی و بیرونی سڑکوں پر نقل و حرکت رکھتی ہے، لیکن سانحہ کی رات فوج کی نقل و حرکت بھی نہیں تھی۔ وزیراعلٰی پرویز خٹک نے وفاقی حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف واضح پالیسی کی کمی بھی ایسے واقعات کا سبب ہے۔ یہ اور بات ہے وفاق پر سارا ملبہ ڈالنے والے پرویز خٹک اپنی مصروفیات کی وجہ سے بروقت ڈیرہ شہر اور جیل کا دورہ نہ کرسکے۔ وزیراعلٰی سے لیکر جیل دروازے پر موجود سپاہی تک کا قول و فعل یہ احساس دلاتا ہے کہ دہشت گردوں سے ہتھیار رکھوانے کے بجائے حکومت اور اداروں نے حوصلے اور ہتھیار رکھنا شروع کر دیئے ہیں اور یہ ایک ایسی روش ہے جس کا انجام انتہائی خطرناک اور تباہ کن ہے۔ حکومت اور اداروں کو دشمن سے انہی کی زبان میں ہی بات کرنا ہوگی۔ طاقت کے استعمال کے بغیر مذاکرات کی جنگ کبھی بھی نہیں جیتی جاسکتی۔ عوام ہمیشہ ریاستی اداروں کے دست و بازو بنے ہیں، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کا صفایا کرکے اپنا دامن صاف رکھیں۔ 

اگر دہشت گردوں کے حوصلے اسی طرح بڑھتے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب یہاں کے گلی کوچے بھی شام، عراق و افغانستان والا منظر پیش کریں، مگر شائد مقتدر حلقوں کو ان ملکوں کے حالات اتنے پسند ہیں جبھی تو جیلوں سے رہا کرکے دہشت گرد وہاں بھیج رہے ہیں، تاکہ واپس آکے وہی نقشے یہاں کھینچ سکیں۔ مگر فرمان خداوندی ہے کہ ظالم کی رسی دراز ہے، مگر اس کا انجام قدرت کی جانب سے طے ہے۔ انشاءاللہ ان ظالمان کا انجام بھی قدرت کی جانب سے طے ہے۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 303501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش