0
Thursday 27 Mar 2014 23:02

سوات کے بعد ڈی آئی خان میں بھی پی ٹی آئی میں پھوٹ کا اندیشہ

سوات کے بعد ڈی آئی خان میں بھی پی ٹی آئی میں پھوٹ کا اندیشہ
رپورٹ: کے آئی خان

خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت پی ٹی آئی ضلع ٹانک کے رہنماء رضوان خان کنڈی نے کہا ہے کہ منتخب ایم پی اے اکرام خان کی جیت میں داور خان کنڈی کا بھرپور کردار ہے، جبکہ اکرام خان، داور کنڈی کے شکر گزار ہونے کے بجائے ان کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں جو کہ پی ٹی آئی کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈی آئی خان میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اکرام خان کے بیانات کی وجہ کارکنوں میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے جبکہ ضلع ٹانک پی ٹی آئی کا مضبوط گڑھ بننے جا رہا تھا۔ واضح رہے داور خان ٹانک میں پی ٹی آئی کے نمایاں اور مقبول ترین رہنماء ہیں، جبکہ اکرام خان سابق صوبائی وزیر قانون اسرار اللہ خان گنڈہ پور کے بھائی ہیں، جن کو عید کے روز خودکش حملے میں قتل کیا گیا تھا۔ 

اکرام خان گنڈہ پور نے حلقہ پی کے 67 کلاچی سے ضمنی الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا اور اس میں کامیابی حاصل کی۔ کلاچی کے عوام اس انتظار میں تھے کہ اکرام خان اپنے بھائی کے قاتلوں کو پہلی فرصت میں قبائلی انتقام کا نشانہ بنائیں گے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے کے بعد اکرام خان نے سب سے زیادہ طوطا چشمی اپنے بھائی کے مقدمے سے کی اور اس قتل میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ علاقہ مکینوں کے مطابق دونوں بھائیوں میں حد درجہ نفرت اور نفاق کی فضا برقرار تھی، یہاں تک کہ دونوں بھائی عید کے دن بھی گلے نہیں ملے۔ علاقہ مکین مرحوم اسرار اللہ کو علاقے کی ترقی کی علامت اور اکرام خان کو پسماندگی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے اپنی صوبائی نشست بچانے کے لیے اکرام خان کو ٹکٹ جاری کیا۔
 
اکرام خان کی جیت کے لیے پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ ٹانک میں پی ٹی آئی کے رہنماء داور خان کنڈی نے بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کیا، تاہم بلدیاتی انتخابات کی نوبت جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے اسی طرح پی ٹی آئی کے امیدواروں کے درمیان قوم، قبیلے اور زبان کے فرق کی وجہ سے خلیج بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں ایک طرف جمعیت علمائے اسلام، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی پر مشتمل سہ جماعتی اتحاد وجود میں آچکا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی مسلسل ٹوٹ پھوٹ کی جانب رواں دواں ہے۔ چند روز قبل سوات میں تمام ضلعی عہدیداران نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب ڈی آئی خان اور ٹانک میں پی ٹی آئی کے دو اہم ترین رہنماؤں کے درمیان انتہائی تند و تیز بیانات کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان میں مختلف محکموں میں بڑھتی ہوئی اقربا پروری اور کئی کئی ماہ سے تنخواہوں کے منتظر ملازمین بھی پی ٹی آئی سے نالاں نظر آتے ہیں۔
 
ایسی صورت میں نظر یہی آتا ہے کہ جو پس پردہ قوتیں تخت پشور پی ٹی آئی کے سر پر رکھنے میں پیش پیش تھیں۔ شائد ان کی تحریک انصاف میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف سہ جماعتی اتحاد وجود میں آ چکا ہے اور دوسری جانب صوبائی حکومت کی مشکلات میں اضافے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے کارکنان بھی اپنے راستے تبدیل کر رہے ہیں، ٹوٹ پھوٹ کے عمل کا شکار پاکستان تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں اپنا دفاع کر پاتی ہے یا نہیں، اس کے لیے بلدیاتی انتخابات کا سب کو انتظار ہے۔
خبر کا کوڈ : 366586
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش