0
Thursday 13 Nov 2014 20:01
ایم کیو ایم اور اس کے سابق وزراء پر الزام تراشی نہ کی جائے

وزیراعلیٰ سندھ کی کارکردگی پر انکی اپنی پارٹی سے آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں، ایم کیو ایم

وزیراعلیٰ سندھ کی کارکردگی پر انکی اپنی پارٹی سے آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں، ایم کیو ایم
اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان سندھ اسمبلی نے کہا ہے کہ وزیراعلی سندھ کے خلاف تحریک عدم اعتمام لانے کی ضرورت نہیں انکی کارکردگی پر انکی اپنی پارٹی سے آوازیں آنا شروع ہوگئی ہی،ں وزیراعلی سندھ کے پاس چودہ وزارتیں اور نو محکمیں ہیں وہ بند کمرے میں خود سے باتیں کرکے کابینہ کا اجلاس کرسکتے ہیں۔ تھر میں نمائشی اجلاس کرکے تھر کے مظلوم عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ایم کیو ایم اور اس کے سابق وزراء پر الزام تراشی نہ کی جائے۔ ایم کیو ایم نے الزامات کی سیاست شروع کی تو ثبوت کے ساتھ سب باتیں عوام کے سامنے لے آئے گی۔ سندھ کے کتنے وزراء کے کتنے رشتے دار کس کس محکمے میں ہیں، ہمیں سب پتہ ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ 3 ہزار ارب روپے کا حساب دیں۔ ان خیالات کا اظہار سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خواجہ اظہار الحسن، ارکان اسمبلی فیصل سبزواری اور سابق وزیر صحت سندھ ڈاکٹر صغیر احمد نے سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

پریس کانفرنس سے قبل ایم کیو ایم کی سندھ اسمبلی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس سندھ اسمبلی بلڈنگ میں پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد کے دفتر میں ہوا، جس میں تھر کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزیراعلی سندھ سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر وزراء کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے بعد ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے ایم کیو ایم کے سابق وزیر صحت ڈاکٹر صغیر پر لگائے جانیوالے الزامات پر احتجاج کیا گیا اور کہا کہ ڈاکٹر صغیر نے وزارت صحت کا قلمدان سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے تھر کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ایم کیو ایم کے حلقہ انتخاب کے دوروں کے بجائے سکھر، جیکب آباد، نواب شاہ، بدین اور ٹھٹھہ میں جاکر صورت حال کا نوٹس لیا تھا۔ وزیراعلیٰ سندھ بتائیں کہ انہوں نے 2008 کے بعد کتنے کراچی اور حیدر آباد کے دورے کیے ہیں۔ لیاری جو ان کا گڑھ ہے وہاں وہ کتنی بار گئے ہیں۔

فیصل سبزواری نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ تھری عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے بجائے ان کے لیے کچھ اقدامات کریں اور ان کی بدانتظامیوں کی وجہ سے کراچی اور حیدر آباد میں تھر سے بھی بدتر صورت حال ہوتی جارہی ہے۔ پانی کا مسئلہ تھر میں ہے تو کراچی میں بھی ہے۔ بدحالی تھر میں ہے تو کراچی میں بھی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نجانے کس حالت میں ہوتے ہیں جو بیانات دیتے ہیں، پہلے کہا کہ غذائی قلت سے ہلاکتیں ہوئی ہیں اور پھر اس پر پردہ ڈالنے کے لیے ذمہ داری وزرات صحت پر ڈال دی۔ وزیر اعلیٰ جواب دیں کہ گندم کی بوریوں میں مٹی ایم کیو ایم نے بھری؟ کیا پانی کی بوتلیں ایم کیو ایم نے ضائع کیں، ایم کیو ایم نے تو تھر کی صورت حال پر وہاں جاکر اپنے قائد کی ہدایت پر امدادی کام شروع کیے ہیں، اس پر بھی مخالفین کو اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ جواب دیا جائے کہ پلاننگ ڈویلپمنٹ پروگرام کس کے پاس ہے اور اس نے کیا کام کیا ہے۔ وزارت داخلہ وزیراعلیٰ سندھ کے پاس ہے اور اس دوران 10 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں پورے سندھ اور کراچی میں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ کا بیان پاکستان میں سیکڑوں بچے بھوک سے مرتے ہیں اس پر شرم آنی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 419371
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش