0
Monday 29 Aug 2011 17:32

کراچی میں مشین گنز، راکٹ لانچرز اور اینٹی ایئر کرافٹ بھی ہیں، آئی جی سندھ

کراچی میں مشین گنز، راکٹ لانچرز اور اینٹی ایئر کرافٹ بھی ہیں، آئی جی سندھ
کراچی:اسلام ٹائمز۔ کراچی میں بدامنی کے خلاف چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ واجد علی درانی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ گزشتہ ایک ماہ میں 20 ملزمان گرفتار کئے گئے لیکن مدعیوں نے خوف کے باعث کسی کو شناخت نہیں کیا۔ واجد درانی نے عدالت کوت فصیلات بتائیں کہ 24 جولائی سے 24 اگست تک 306 افراد قتل ہوئے اور 25 لاشیں ملیں۔ جبکہ ان میں سے 17 بوری بند لاشیں شامل ہیں۔ پولیس نے 332 مقدمات درج کئے۔ چیف جسٹس نے اس جواب پر پوچھا کہ آپ نے پتہ چلایا کہ ان لوگوں کو اغوا کے بعد کہاں رکھا گیا اور آپ کسی ایک مغوی کا بیان تو لیتے، تاکہ پتہ چلتا اغوا کرنے والے کون ہیں۔ 
چیف جسٹس کے سوال پر آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ رہا کرائے گئے مغوی خوفزدہ ہیں اور بیان دینے کے قابل نہیں ہیں۔ اپنی صفائی میں آئی جی نے عدالت کو بتایا کہ 19 اگست کو 18 افراد اغوا ہوئے، جنہیں چھاپوں کے بعد چھڑایا گیا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں کن علاقوں سے اغوا کیا گیا۔ جس پر آئی جی سندھ واجد علی درانی نے بتایا کہ یہی بات ہے کہ میڈیا صرف کراچی کی رپورٹس دکھاتا ہے، دوسری شہروں کی نہیں۔ بینچ نے استفسار کیا کہ جن علاقوں میں جرایم ہوتے ہیں ان علاقوں کے ایس ایچ اوز کیا کرتے ہیں، دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ میڈیا کے مطابق آپ روز ایس ایچ اوز تبدیل کر رہے ہیں، جس پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ روز ایس ایچ اوز تبدیل نہیں ہوتے۔ بلکہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چھ ماہ سے پہلے کسی ایس ایچ او کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ آئی جی سندھ نے اعتراف کیا کہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ وہ پہاڑ گرا دیں گے، انہیں ایس ایچ او لگا دیا جائے، لیکن جب دو فائر ہوتے ہیں تو وہ تھانوں سے نہیں نکلتے۔
 آئی جی سندھ نے مزید بتایا کہ جولائی میں چھیالیس منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا اور شہر میں جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کے لئے تین ہزار چھاپے مارے گئے۔ چیف جسٹس نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ ٹارچر سیل شہر کے کن کن علاقوں سے ملے ہیں۔ جس پر آئی جی سندھ نے کہا کہ پولیس کو کوئی ٹارچر سیل نہیں ملا، تاہم رینجرز کو گزشتہ روز لیاری میں ٹارچر سیل ملے ہیں۔ آئی جی نے کہا کہ انہوں نے کوئی ٹارچر سیل نہیں دیکھا، آئی جی سندھ کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ نے نہیں دیکھا تو ہم نے کونسا دیکھا۔ 
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ متعلقہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کو تو ٹارچر سیل کے بارے میں پتہ ہو گا جس پر آئی جی نے جواب دیا کہ اگر ایس ایچ اوز کو پتہ ہوتا تو وہ ان کے خلاف کارروائی کرتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ٹارچر سیلوں کا پتہ نہیں ہے یا پتہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔ آئی جی سندھ نے اپنے جواب میں کہا کہ پولیس جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرتی ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی گواہی نہیں دیتا، کراچی میں تاجر کروڑوں روپے یومیہ بھتہ دیتے ہیں، شکایت بھی کرتے ہیں لیکن کسی کے خلاف گواہی نہیں دیتے۔ 
چیف جسٹس نے پوچھا کیا کہ کراچی میں اسلحہ آتا کہاں سے ہے ،جس پر آئی جی نے بتایا کہ شہر میں ٹرینوں، بسوں اور ٹرکوں کے علاوہ سمندر کے ذریعے بھی اسلحہ آنے کی اطلاعات ہیں۔ واجد درانی نے یہ بھی اعتراف کیا کہ کراچی میں نہ صرف لائٹ اور ہیوی مشین گنز بلکہ راکٹ لانچر اور اینٹی ایئر کرافٹ گنز بھی موجود ہیں۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ ایک کروڑ اسی لاکھ کے شہر میں ساڑھے بتیس ہزار پولیس والے ہیں جن میں سے بارہ ہزار سیکیورٹی ڈیوٹیز پر رہتے ہیں۔

خبر کا کوڈ : 95423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش