8
0
Sunday 4 Sep 2011 17:28

پاراچنار کے خلاف پاکستانی اداروں کا رویہ

پاراچنار کے خلاف پاکستانی اداروں کا رویہ
پاراچنار:اسلام ٹائمز۔ مختلف نجی ٹی وی چینلز اور دوسرے ذرائع ابلاغ نے گزشتہ روز کراچی میں پاراچنار کے کسی مبینہ ڈاکو عابد بنگش کی گرفتاری کی خبر بڑی بڑی شہ سرخیوں سے نشر اور شائع کی۔ جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ ملزم نے اعتراف کیا ہے کہ وہ پاراچنار میں حزب اللہ اور سپاہ محمد کے لئے کام کررہا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے قارئین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خفیہ اداروں کو دعوت فکر دیکر پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا تم لاعلمی میں یہ سب کچھ کررہے ہو یا جان بوجھ کر۔ کسی بھی گرفتار ملزم سے زبردستی بیان دلوانا تو پولیس کی فنکاری ہو یا شاید ریاستی ذمہ داری، مگر یہ بیان اور اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ پولیس کو جب پاراچنار کا کوئی مبینہ ڈکیت ملا ہے تو وہ ایسی ہی بے سر و پا بیانات نشر کرتی رہی ہے۔ چنانچہ یہاں کچھ حقائق قارئین کی نذر کرتا ہوں کہ کیا پاراچنار میں اس نام کی کوئی تنظیم ہے بھی یا نہیں۔
اپریل 2007 اور اسکے بعد نومبر 2007 میں پاراچنار کا یہ موجودہ آگ اور خون کا کھیل شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس وقت پورے خیبر پختونخوا خصوصا فاٹا میں طالبان کا راج قائم تھا اور حکومت بھی انکے مقابلے میں بظاہر بے بس نظر آرہی تھی۔ جنوبی وزیرستان میں ایف سی کے پورے پورے قافلے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور سرنڈر کرنے کے واقعات دیکھنے کو ملتے تھے۔ اس وقت طالبان کو بالکل ناقابل شکست تصور کیا جارہا تھا۔ یوں پاراچنار میں بھی انہوں نے اپنی عملداری شروع کی اور علاقے کو یرغمال بنانا چاہا۔ کرم ایجنسی کے اہلسنت علاقوں میں انکی اجارہ داری قائم تھِی اور اس وقت وہ بھی مجبورا انکے ہر حکم کے تابع تھے۔ انہی طالبان کے ماتحت یا طالبان نواز مقامی سنی قبائل خود یہ اعتراف کرتے تھے کہ طالبان سے انکی عزت محفوظ ہے نہ ہی مال و دولت۔ یعنی طالبان جو کہتے انہیں پورا کرنا انکی مجبوری تھی۔ مگر پاراچنار کے غیور طوری بنگش قبائل نے بے سروسامانی کی حالت میں انکا مقابلہ شروع کیا۔ اور نہایت کم مدت میں انہیں کرم ایجنسی سے نکال باہر کیا۔ حتی کہ اہلسنت کو بھی طالبان سے نجات دلادی۔
شروع میں تو کوئی نظم و ضبط نہیں تھا۔ کوئی ایک سال بعد لوگوں نے اپنی دفاع کی خاطر لوکل سطح یعنی ہر موضع یا علاقے کی سطح پر ایک جنگی گروپ تشکیل دی جو تقریبا 15 سے لیکر 50 افراد  پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اور ہر گاوں نے اپنے گروپ کا ایک مخصوص نام رکھا۔ جن کے ناموں کا مقامی انتظامیہ اوروہاں پر سرگرم خفیہ اداروں سب کو بخوبی علم ہے کیونکہ تمام ایجنسیوں میں سے صرف کرم ہی ایسا علاقہ ہے جس میں حکومتی اور خفیہ ادارے، ایف سی اور فوج تمام کے تمام نہایت اعتماد کے ساتھ گھوم پھر سکتے ہیں۔ چانچہ ان تمام مقامی گروپوں میں حزب اللہ یا سپاہ محمد نام کی کوئی تنظیم یا گروپ موجود نہیں۔ جو ایک حقیقت ہے اور اسکا حکومت کو بخوبی علم ہے۔ ہاں تمام مسلمانوں کی طرح حزب اللہ لبنان اور فلسطینی تنظیم حماس جو امریکہ اور اسرائیل سے ہر وقت نبرد ازما ہیں، سے یہاں کے لوگوں کی بالکل اسی طرح دلی لگاو ہے، جسطرح پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود وہابی اور تکفیری ٹولے کی امریکی کٹھ پتلی اپنے بعض عرب پیشواوں سے ہے۔
 یہاں یہ بات سمجھ سے ذرا بالاتر ہے کہ یہ ادارے کیوں خود کو بدنام کرکے اتنی غیر معتبر رپورٹ نشر کرتی ہیں۔ کیا پاراچنار کے حالات، تنظیموں اور گروپوں سے وہ اتنے جاہل اور بے خبر ہیں۔ کہ انہیں وہاں موجود سرگرم گروپوں کے ناموں اور انکی سرگرمیوں کا بھی علم نہیں۔ یا نہ، وہ جان بوجھ کر ایسا ہی کررہی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ حکومت اور ادارے جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہیں۔ اور وہ اس لئے کہ پاراچنار والوں نے انکی یہ تمنا پوری نہیں کی کہ طالبان کو افغانستان جانے اور وہاں دہشتگرد کاروائیاں کرنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے حقانی اور اس کے نیٹ ورک کو شلوزان تنگی، خیواص میں ٹھکانہ فراہم نہیں کیا۔ یہ اسی گناہ کا کفارہ ہے۔
کراچی میں مبینہ طور پرعابد بنگش کے اعترافات تمام کے تمام ایسے جرائم پر مبنی ہیں۔ جن کا کراچی میں کوئی کمی نہیں۔ اورکراچی میں ایسے جرائم عام لوگوں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں سے لیکر رہنماوں تک کا مفید مشغلہ ہے۔ پاراچنار کے ایک ملزم کو پکڑ کر اس سے ایسی بے سروپا باتیں منسوب کرانا اداروں کی نااہلی، بے انصافی اور فرقہ پرستی پر دلالت کرتی ہے۔ اور یہ تو واضح سی بات ہے کہ موٹر سائیکل چھیننے، بینک ڈکیتی کے واقعات کیا کراچی میں کم ہوتے ہیں نیز یہ تو ایسے واقعات ہیں جو جرائم پیشہ لوگ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر کرتے ہیں۔ جبکہ عابد بنگش کے اعترافات میں ٹارگٹ کلنگ کا کوئی واقعہ موجود نہیں جس سے کراچی آج کل دوچار ہے۔ چنانچہ اگر عابد بنگش کوئی مجرم ہے بھی تو اسکا پاراچنار کی تنظیموں اور امام بارگاہوں سے کیا تعلق۔
چنانچہ تمام سرکاری اداروں سے گزارش کی جاتی ہے کہ پاراچنار کا نہیں کہ شاید وہ پاکستان کا حصہ ہی نہیں، اپنے وقار کا خیال رکھیں۔ کہ ایسے بیانات سے پاراچنار پر نہیں بلکہ تمہاری عزت پر حرف آتا ہے۔ مگر حکومت سے ایسا شکوہ کرنا بھی حماقت ہے کیونکہ پاراچنار پر روا رکھا جانے وال یہ پہلا ظلم تو نہیں بلکہ حکومت کی طرف سے پاراچنار کے باسیوں پر روا رکھے جانے مظالم کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ اس کے لئے ایک علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے۔ جن میں سے چند ایک کا تذکرہ یہاں کردیتے ہیں۔
1-    پاراچناریوں کو مجبورکرنے کے لئے کونسے حربے استمعال نہیں کئے گئے پاراچنار پر اپنی دھرتی (پاکستان) کے دروازے بند ہیں اور وہ افغانستان کے راستے گردیز، کابل، جلال آباد، طورخم سے ہوکر طویل راستے کے مصائب اور خطرات جھیل کر 4 گھنٹے کی بجائے 35 گھنٹوں میں پشاور پہنچتے ہیں۔ یا پھر گاڑی کے رائج 300 روپے کرائے کی بجائے طیارے میں 8500 روپے دیکر پشاور پہنچتے ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں تعاون تو کیا، ہوائی سروس بند کرنے کی سازشیں بھی کرتی رہی ہے۔ نیز افغانستان کا بارڈر بند کرنے کے اقدامات کرنے سے بھی نہیں شرماتی۔ حتی کہ کئی مرتبہ سرحد بند کرنے کا عملی اقدام اٹھا بھی چکی ہے۔ خود کو مسلمان کہنے والے ذمہ دار ادارے یا مسئولین انڈیا یا اسرائیل سے کس منہ سے شکایت کرسکیں گے کہ ہندووں یا اسرائیلیوں نے مسلمانوں پر ظلم کا بازار گرم کررکھا ہے جبکہ وہ تو انکے مذھب کے مخالف اور ان سے علیحدگی اور آزادی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جبکہ مسلمان ہونے کے علاوہ اہلیان پاراچنار نے تو پاکستانی حکومت سے علیحدگی کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔ اگرچہ اس سلسلے میں غیر ملکی اداروں حتی امریکہ نے کسی واسطے سے انہیں تعاون کی پیشکش بھی کی مگر ذمہ دار حکمرانوں اور اداروں کی طرف سے بھرپور دشمنی کے باوجود کبھی اہلیان پاراچنار نے پاکستان کی دشمنی نہیں کی۔ اور ان تمام چیزوں کا اداروں کو بخوبی علم ہے۔
2-    سرکاری قافلوں میں اہلیان پارچنار کو قتل بلکہ جلایا گیا حکومت تماشا دیکھتی رہی۔ سرکاری گاڑیوں، سرکاری ایمبولینس سے مسافروں حتی کہ خواتین نرسوں کو اتار کر سرکاری چیک پوسٹوں کے پاس ہی قتل کیا گیا۔ حکومت نے اس وقت تو کیا بعد میں بھی حملہ آوروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔
3-    پاراچنار میں طوری بنگش قبائل کی مکمل عملداری کے باوجود حکومت کو کوئی مزاحمت پیش نہیں کی گئی۔ گزشتہ سال شلوزان کی لڑائی میں طالبان کا پلہ بھاری ہونے کے دوران طوریوں کے بار بار مطالبے کے باوجود حکومت نے کوئی کاروائی نہیں کی۔ حتی کہ طوریوں کے جنازے اٹھا لانے سے بھی معذرت اور بے بسی کا اعلان کیا۔ لیکن جیسے ہی طوری قبائل نے مجبورہوکر اپنی لاشیں اٹھانے کی خاطر حملہ کیا جو طالبان کے مکمل شکست پر منتج ہوا اور طالبان اپنی لاشیں چھوڑ کر علاقے سے فرار پر مجبور ہوگئے تو ہماری مہربان حکومت نے طالبان کو شکست سے بچانے کی خاطر طوری بنگش قبائل پر بھاری توپوں سے گولہ باری شروع کی جسکے نتیجے میں کئی افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوگئے۔
4-    چارخیل، بگن، صدہ اور مختلف علاقوں میں طوریوں کو خواتین اور بچوں سمیت بے دردی سے قتل کرنے کے درجنوں واقعات ہوچکے ہیں لیکن ان میں سے ایک پر بھی حکومت نے کوئی رد عمل نہیں دکھائی ہے۔ بلکہ خود کو بے بس تصور کرتی ہے۔ جبکہ طوریوں کی طرف سے جب بھی رد عمل سامنے آیا ہے۔ مثلا گزشتہ ماہ مالی خیل نے اپنی ہی ہلاکتوں کا بدلہ لیتے ہوئے اہلیان بوشہرہ کے 9 افراد کو جب قتل کیا تو حکومتی مشینری اتنی تیزی سے حرکت میں آگئی کہ مالی خیل کے تمام سرکاری سہولیات بند کردئے۔ شناختی کارڈ، پاسپورٹ پرپابندی کے ساتھ ساتھ پاراچنار میں انکا داخلہ بھی ممنوع قرار دیا۔ بالآخر طوریوں کے ایک جرگے نے حکومت کی لاج رکھتے ہوئے مالی خیل کے 10 مکانات کو جلانے کا اہتمام کرنے کے ساتھ ساتھ انکے 35 افراد کو گرفتاری کے لئے پیش کیا۔
5-    طوری بنگش علاقوں میں محض رد عمل کے طور پر جب بھی کوئی کاروائی ہوتی ہے تو حکومت قریب ترین علاقے کو حدود ذمہ داری کے تحت گرفتار کرنا شروع کردیتی ہے جبکہ مخالف طالبان پرور قبائل کے ساتھ ایسا کوئی سلوک نہیں کیا جاتا۔
6-    مخالفین کی طرف سے پاراچنار کو مزید تکلیف پہنچانے کی غرض سے صدہ کے مقام پر بجلی کے کھمبوں اور ٹیلی فون کیبل کو کاٹ کر سرکاری املاک نقصان پہنچانے کے باوجود سرکار نے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ مرمت سے بھی اکثر خود کو یہ کہہ کر بری الذمہ قرار دیتی ہے کہ وہاں طالبان ہیں ہم سیکیورٹی کا رسک نہیں لے سکتے۔ مگر انہی طالبان کے خلاف مجبورا جب طوری بنگش قبائل سینہ سپر ہوجاتے ہیں تو حکومت طالبان کو بچانے کی خاطر بھاری ہتھیار، ٹینک اور توپیں نصب کرکے طوریوں کے آڑے آتی ہے۔
7-    طوری علاقوں میں غیر طوری قبائل غیر قانونی آباد کاری کرتے ہیں حکومت مخالف فریق سے مکمل تعاون کرتی ہے۔
8-    ابھی ایک ماہ قبل طالبان پرور منگل قبیلے کے علاقے تری منگل میں ایف سی پر ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں تین افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے مگر حکومت نے انکے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ طوری حکومت درکنار طالبان کے خلاف بھی ایسی کاروائی کرے تو انکی خیر نہیں۔
یہ اور ایسے ہی واقعات کی تعداد اتنی ہے جسے لکھنے کو کتاب اور پڑھنے کو کافی حوصلے کی ضرورت ہے۔ گنجائش اتنی نہیں کہ ہم سب کا ذکر کریں تاہم عرض یہ کہ اہلیان پاراچنار گزشتہ دن کراچی کے اس الزام سے کیا گھبرائیں گے کہ حکومت کی ایسی ہی سیاہکاریوں سے پارچنار کی تاریخ بھری پڑی ہے۔
مصنف : ایس این حسینی
خبر کا کوڈ : 96415
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
parachinar ky motaliq malomaat deny par ap k adary ka shokreia ada karty hain khoda jaza dy ap lohoon ko.
United States
سلام ہو پاراچنار کے غیور انقلابی جوانوں کو۔ جنہوں نے کئی سال تک مقاومت کرکے دشمنان اسلام کو سرنگون کیا۔
United States
سالام علیکم۔
United States
پاراچنار کے تمام جنگی محاذوں کا نقشہ اگر آپکے پاس ہے تو ایک بار شائع کرکے مشکور فرمائیں
United States
معزرت کے ساتھ نقشے میں طالبان اور شیعوں کے علاقے واضح ہوں
United States
خدا سب سے بڑا انتقام لینے والا ہے اس ظالم حکومت سے ایک دن خدا خود ہی انتقام لے گا
United States
کیا یہ سب کچھ سچ ہے۔ اور حکومت کھل کر ایسا کررہی ہے یا خفیہ طریقوں سے طلابان کی حمایت کرتی ہے اگر ایسا ہے تو اقوام متحدہ سے احتجاج کرنا چاہئے
میرے پاس تقریبا ایک درجن سے بھی زیادہ ایسے شواہد ہیں جس میں حکومت نے کھول کر یا خفیہ طریقے سے طالبان نوازوں کی کمک کرکے شیعہ دشمنی کا ثبوت دی اہے۔ خدا کی قسم پارچنار کے شیعوں کے ساتھ طالبان نہیں بلکہ یہ سب کچھ حکومت پاکستان خصوصا آئی ایس آئی ہی کررہی ہے
ہماری پیشکش