0
Wednesday 24 Apr 2024 15:26

عالمی میڈیا اور وعدہ صادق آپریشن

عالمی میڈیا اور وعدہ صادق آپریشن
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

آج کے دور کو میڈیا کا دور کہا جاتا ہے، آج میڈیا رائے عامہ کا ذہن بناتا ہے۔ میڈیا کسی بھی معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے، جو پوری دنیا کو اپنا مشاہدہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ میڈیا کے ذریعے ہی لوگوں تک تمام معلومات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ پہلے دور میں لوگوں تک خبریں پہنچانے کا واحد ذریعہ ریڈیو اور اخبار تھے۔ جن کے توسط سے لوگوں کو خبروں تک رسائی حاصل ہوتی تھی۔ تاہم اخبار اور ریڈیو کے ذریعے لوگوں کو خبروں سے متعلق تفصیلی آگاہی نہیں ہو پاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اخبار اور ریڈیو کے پاس محدود وسائل ہوتے تھے۔ اس لیے لوگ خبروں سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہو پاتے تھے۔ پھر وقت بدلا۔ سائنسی ترقی سے کافی منازل طے ہوئیں۔ اب اخبار اور ریڈیو کی جگہ ٹیلی ویژن اور موبائل نے لے لی ہے۔ جن کے ذریعے ہر خبر سے بروقت آگاہی مل رہی ہے۔

سوشل میڈیا کا بھی دور ہے۔ اب ہر شخص کے ہاتھ میں موبائل ہے، جس سے روزانہ کی بنیاد پر وہ ہر طرح کی معلومات آسانی سے حاصل کر لیتا ہے۔ آج کی زندگی میں ٹی وی چینلز بھی بہت زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں۔ بریکنگ نیوز کے علاوہ دیگر معمول کے واقعات کی براہ راست ٹیلی کاسٹنگ، معلومات کا تبادلہ اور پریس کانفرنسز، اِن سب سے لوگوں کو بروقت آگاہ کیا جا رہا ہے۔ زمانۂ حاضر میں میڈیا قوموں کے عروج اور ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے ڈرون اور میزائل حملوں پر غیر ملکی میڈیا کی جانب سے ابتدائی چند منٹوں میں ہی وسیع ردعمل سامنے آگیا تھا۔ آج کی اس تحریر میں ہم ایران کے اسرائیل مخالف حملوں پر عالمی میڈیا کے تبصروں کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

گذشتہ ہفتے عالمی اور علاقائی ذرائع ابلاغ نے صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے ڈرون اور میزائلوں کی جوابی کارروائیوں کو بڑے پیمانے پر کور کیا۔ ہفتہ 13 اپریل کے اختتام سے چند گھنٹے قبل، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے قونصلر سیکشن پر اس حکومت کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں اسرائیلی حکومت کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس کارروائی کی وجہ سے صیہونیوں کو اس جعلی حکومت کے قیام کے بعد پہلی بار ایک ناقابل فراموش رات گزارنا پڑی۔ اس اہم اور بے مثال واقعہ کو شروع سے ہی میڈیا میں وسیع کوریج حاصل ہوئی، جو اب تک جاری ہے۔ امریکہ کے این بی سی نیوز نے "ایران کی انتقامی کارروائی" کے عنوان سے صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے حملوں کے بارے خبروں کی کوریج کی اور لکھا ہے کہ یہ حملہ پہلی بار ایران کی طرف سے براہ راست اسرائیل پر کیا گیا۔

یہ حملہ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے کے جواب میں کیا گیا۔ ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر ہونے والے حملے میں ایران کے پاسداران انقلاب اسلامی کے چند اہم ارکان شہید ہوئے اور تہران نے اس حملے کا انتقام لینے کا وعدہ کیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بھی ایران کے اسرائیل مخالف حملوں کے بارے میں لکھا: اسرائیل پر متوقع ایرانی ڈرون حملہ تہران کے وقت کے مطابق ہفتہ کے آخری گھنٹوں میں شروع ہوا۔ اسرائیلی فوج نے بھی تصدیق کی ہے کہ ایران نے درجنوں ڈرون اسرائیل کی جانب داغے ہیں۔ یہ حملہ علاقائی دشمنوں کے درمیان کشیدگی میں زبردست اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس صورت حال میں امریکا اسرائیل کی حمایت کا پابند ہے۔

دی اکانومسٹ میگزین نے دیگر ذرائع ابلاغ کی طرح ایران کے حملے کی حد پر زور دیا اور اپنی ویب سائٹ پر لکھا: اسرائیلی اس وقت ایک خوفناک رات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر ایران کے حملے سے کوئی خاص جانی یا مالی نقصان نہیں ہوتا ہے، تب بھی اس کے نتائج بہت وسیع ہوں گے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے صیہونیوں کے دہشت گردانہ اقدامات کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے ایران کی دھمکی کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں واضح طور پر اس اقدام کو ایک فطری ردعمل قرار دیتے ہوئے لکھا: ایران کے حملے 100 سے زیادہ ڈرونز سے شروع ہوئے اور اس کے بعد مزید تباہ کن بیلسٹک میزائل کے استعمال سے جاری رہے۔

عرب میڈیا نے اس واقعہ پر مختلف ردعمل ظاہر کیا۔ مثال کے طور پر قطر کے الجزیرہ چینل نے اپنی ویب سائٹ پر تہران میں مقیم اپنے نامہ نگار کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی حکومت کے خلاف مشترکہ حملہ کیا گیا اور ایران نے صہیونی ریڈ لائنز کو عبور کیا ہے۔ الجزیرہ کے رپورٹر نے یہ بھی کہا: اب جو کچھ ہو رہا ہے، وہ "گزرنے والا قدم" نہیں ہے اور ایران کی سرزمین سے اسرائیل کو واضح جواب دینے کے لیے تہران کا اقدام  کئی چیلنجوں کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن تہران کا کہنا ہے کہ وہ ان چیلنجوں کے لیے تیار ہے۔ سعودی عرب کا العربیہ نیٹ ورک ان دیگر ذرائع ابلاغ میں سے ایک تھا، جس نے اس واقعہ کو کوریج دی۔ ایران کی مسلح افواج نے خطہ کے ممالک کو خبردار کیا کہ صیہونیوں کو ہم جواب دیں گے، اگر کسی نے اسرائیلی حکومت کی مدد کی تو ہم کسی بھی ایسے ملک کے خلاف کاروائی کریں گے، جو اپنے آسمانوں اور زمینوں کو ہمارے خلاف استعمال کرے گا۔"

قطر کے الشرق اخبار نے ایران کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حملے کے ساتھ ہی ایران نے مقبوضہ علاقوں اور یہاں تک کہ میزائلوں اور ڈرونز کے راستے میں تمام پروازیں روک دیں۔ عراق کی براتھا نیوز ایجنسی نے نسیم عبداللہ نامی اسٹریٹجک ماہر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیلی حکومت کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کے مقاصد حاصل کر لئے ہیں۔ لندن میں مقیم فارسی زبان کے ذرائع ابلاغ نے صیہونی حکومت کے لیے امریکی حکام کے حمایتی بیانات سے متعلق خبروں کی نہ صرف وسیع پیمانے پر عکاسی کی بلکہ اپنی رپورٹوں اور انٹرویوز کے دوران اس پر کئی بار زور دیا اور اپنی رائے میں ایران کی کمزوری کوپ یش کیا۔

مثال کے طور پر ریڈیو فردا نے صیہونی حکومت کے ایرانی قونصل خانے پر حملے کے بارے میں پینٹاگون کی "بے اطمینانی" کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: "تمام تر عدم اطمینان کے باوجود صدر اور دیگر امریکی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران کے ممکنہ حملے کے خلاف یہ ملک اسرائیل کا دفاع کرے گا اور ایران کے جوابی حملے کا جواب دینے کے لیے دونوں ممالک کے فوجی اور سکیورٹی حکام کے درمیان "قریبی تعاون" ہے۔ وائس آف امریکہ جیسے دیگر ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں اور انٹرویوز میں ایران اور صیہونی حکومت کی فوجی اور لاجسٹک صلاحیتوں کا موازنہ کیا اور جنگ کے ممکنہ فاتح کا پہلے سے تعین کرنے کی کوشش کی۔

اسی دوران بی بی سی فارسی نے ایران کے مناسب ردعمل کے بارے میں اسرائیلی میڈیا کے مواد کا جائزہ لیا اور ایک اسرائیلی صحافی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا۔ اسرائیل کو امریکی دباؤ یا لالچ کے جال میں نہیں آنا چاہیئے کہ وہ ردعمل ظاہر نہ کرے۔ امریکی صدر امریکی صدارتی انتخابات کے قریب ہونے کے باعث اسرائیل کو کسی بھی جارحانہ اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماریو اخبار کے عسکری تجزیہ کار ایلون بن ڈیوڈ نے کہا: ایران اسرائیل کے خلاف جنگ میں ایک مطلوبہ مرحلے پر پہنچ گیا ہے اور ہمیں اس بنیاد کو قبول کرنا چاہیئے کہ ایران وسیع حملے کے لیے تیار ہے۔

ایران کے حملے کے دوران میزائلوں سے نشانہ بننے والے ایئربیس پر خوف اور تشویش کا راج رہا۔ ہزاروں فوجی بنکروں میں گھس گئے۔ بی بی سی فارسی کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اسرائیل نے ایرانی میزائلوں کو روکنے یا مار گرانے کے دعوے میں خود کو فاتح قرار دیا، لیکن متعدد معاملات میں اسرائیلی فضائی دفاعی نظام ایرانی میزائلوں کو روکنے سے ناکام رہا ہے۔ بی بی سی نے نواتیم بیس پر کم از کم دو دیگر ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے، جہاں ایرانی حملے کے فوراً بعد اہم تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں، جو ایک گڑھے سے ملتی جلتی ہیں۔ دوحہ انسٹیٹیوٹ کے عسکری امور کے تجزیہ کار عمر آشور کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس اس حملے کی ابتدا کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات تھیں۔

عمر آشور نے نواتیم بیس پر حملے کے بارے میں ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ڈرونز اور دیگر فضائی ہتھیاروں کے جھنڈ نے اسرائیل کے کثیر الجہتی، مربوط فضائی دفاع کو ناکام بنا دیا اور ایران کے متعدد بیلسٹک میزائلوں کو اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی اجازت دی۔ اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر سکاٹ ریٹر کے مطابق نواتیم فضائی اڈے کو پانچ سے سات میزائلوں نے نشانہ بنایا۔ امریکی نیٹ ورک اے بی سی نے کچھ اسرائیلی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ نواتیم بیس کو پانچ میزائلوں نے نشانہ بنایا۔ پاکستان اور ہندوستان کے اخبارات نے بھی اس سلسلہ میں کافی کچھ لکھا ہے، جس کو کسی اور آرٹیکل میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 1130858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش