0
Monday 5 May 2014 12:50

ملی یکجہتی کونسل، پیش رفت کی جہتیں

ملی یکجہتی کونسل، پیش رفت کی جہتیں
تحریر: ثاقب اکبر
 
15 اپریل 2014ء کو ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام دوسری ’’عالمی اتحاد امت کانفرنس‘‘ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ پہلی کانفرنس 11 و 12 نومبر 2012ء کو کونسل کے مرحوم صدر جناب قاضی حسین احمد کی قیادت میں اسلام آباد میں ہی منعقد ہوئی تھی۔ اس دو روزہ کانفرنس کا ایک عمومی اجتماع کنونشن سنٹر میں منعقد ہوا تھا جبکہ دوسرے روز مقامی ہوٹل میں خصوصی نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ 2012ء میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس بہت پرشکوہ، یادگار، تاریخی اور نہایت موثر تھی۔ اس نے کونسل کی پیش رفت اور اس کے پیغام کی پذیرائی میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔

جنوری 2013ء کو کونسل کے احیاء گر اور امت اسلامیہ کے عظیم دردمند راہنما قاضی حسین احمدؒ انتقال کرگئے، یہ ایک غیر متوقع، رِقت خیز اور ہلا دینے والا سانحہ تھا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے لیے ایسے راہنما کی جدائی بہت غم انگیز تھی، جو خلوص و ہمت کا پیکر تھا اور درد مشترک و قدر مشترک پر امت کو مجتمع کرنے کی صدا بلند کرنے والا تھا۔ اللہ تعالٰی اپنے اُس حبیبؐ کے صدقے ان کے مقاماتِ عالی کو اور بلند کرے، جس کی محبت میں وہ ہمیشہ زمزمہ سنج رہتا تھا۔

قاضی حسین احمد مرحوم کی رحلت جان سوز کے بعد ملی یکجہتی کونسل کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ کون نہیں جانتا کہ بہت سی قوتوں کو امت اسلامیہ کے اتحاد کی اس جدوجہد سے کَد ہے۔ خود قاضی صاحب کو یہ قوتیں اپنے راستے کا کوہِ گراں سمجھتی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے نظریہ اتحاد امت کے خلاف شدت پسند گروہوں کے لیڈروں نے تقریریں کیں، انھیں اس راستے سے پلٹ آنے کو کہا، جب وہ حق کے راستے سے پلٹتے دکھائی نہ دیئے تو ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ قاضی صاحب مرحوم نے خود راقم سے بارہا بعض قوتوں کا نام لے کر کہا کہ وہ وحدت امت کی اس جدوجہد کے خلاف ہیں۔ انھوں نے نام لے کر بتایا کہ عالمی اتحاد امت کانفرنس میں عرب وفود کو شرکت سے روکنے کے لیے فلاں قوت نے کردار ادا کیا ہے۔ اس سب کے باوجود ان کا کہنا تھا کہ اب ان کے پاس جتنی بھی عمر ہے، وہ اسے امت کے اتحاد و وحدت کی کوششوں میں صرف کریں گے۔
 
وہ تو ملی یکجہتی کونسل کو ایک عالمی پلیٹ فارم میں تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس کا عالمی سیکرٹریٹ قائم کرنے کے لیے بالکل تیار تھے، لیکن ابھی کونسل کے اندر اتنی آمادگی پیدا نہ ہوسکی تھی۔ اس سیکرٹریٹ کے توسط سے وہ عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ ملک کے اندر بعض موثر مذہبی جماعتیں ابھی کونسل کا حصہ نہیں بنی تھیں۔ البتہ قاضی صاحب کا احترام سب جماعتیں اور سب قائدین کرتے تھے۔ اس لیے جو جماعتیں ابھی کونسل کا باقاعدہ حصہ نہیں تھیں، وہ بھی اس کے مقاصد کی تائید کرتی تھیں، لیکن اس میں شمولیت کے حوالے سے ابھی ان کے کچھ تحفظات باقی تھے۔ معاملات آگے بڑھ رہے تھے کہ کونسل اچانک ایسے قائد سے محروم ہوگئی۔

اس کے بعد کونسل کو مجتمع رکھنا، امید کی شمع کو جلائے رکھنا اور قاضی صاحب کے خلا کو پر کرنے کی کوششیں کرنا مشکل مراحل تھے۔ علامہ سید ساجد علی نقوی چونکہ کونسل کے سینیئر نائب صدر تھے، اس لیے قاضی صاحب کی رحلت کے بعد مجلس عاملہ کے پہلے اجلاس میں ہی اتفاق رائے سے انھیں کونسل کا قائم مقام صدر منتخب کر لیا گیا۔ قاضی صاحب کے جلائے ہوئے چراغوں کو روشن رکھنا، طے شدہ پروگراموں کو جاری رکھنا اور نئی قیادت کے انتخابات کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا، جیسے عظیم کام ان کے دوش پر آگئے تھے۔ انھوں نے کونسل کی موثر اور فعال شخصیات کے تعاون سے اپنی خاص حکمت عملی کے تحت ان تمام امور میں نتیجہ خیز پیش رفت کا مظاہرہ کیا۔

یہاں تک کہ 28 اکتوبر 2013ء کو اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں کونسل کے سربراہی اجلاس میں عبوری طور پر جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ جناب صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر کو کونسل کا صدر اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل جناب لیاقت بلوچ کو کونسل کا سیکرٹری جنرل منتخب کرلیا گیا۔ دونوں راہنماؤں نے چند ماہ کے اندر اندر کونسل میں ایک نئی روح پھونک دی۔ کونسل کے اندر اور باہر کی اہم مذہبی جماعتوں اور قائدین سے موثر رابطے کئے۔ عالمی سطح کی کانفرنسوں میں بھی پاکستان کے اس عظیم پلیٹ فارم کی نمائندگی کی۔ پاکستان کے عوام کو بھی اعتماد دیا، یہاں تک کہ کونسل کی مرکزی کابینہ اپنے 24 مارچ 2014ء کے اجلاس میں ایک اور عالمی اتحاد امت کانفرنس کا فیصلہ کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ فیصلہ کونسل کی قیادت کے اعتماد اور اعلٰی اسلامی مقاصد پر ان کے غیر متزلزل ایمان اور وحدت امت کی شمع کو روشن رکھنے کے لیے ان کی شدید آرزو کا مظہر تھا۔

ملی یکجہتی کونسل کے زیراہتمام یہ دوسری عالمی اتحاد امت کانفرنس اپنے اندر پیش رفت کی بہت سی جہتیں رکھتی ہے۔ اس کانفرنس نے یقینی طور پر مرحوم قاضی صاحب کی قیادت میں منعقد ہونے والی عالمی اتحاد امت کانفرنس کی یادیں تازہ کر دیں۔ اس کانفرنس نے یہ پیغام دیا کہ کونسل کی موجودہ قیادت اپنے مرحوم قائدین مولانا شاہ احمد نورانیؒ اور قاضی حسین احمد ؒ کی حقیقی ورثہ دار ہے اور اس ورثے کی حفاظت کا عہد کئے ہوئے ہے۔

اس کانفرنس میں ایسی مذہبی جماعتوں کے ممتاز قائدین بھی شریک ہوئے، جو ابھی کونسل کا فعال حصہ نہیں ہیں۔ اگرچہ کونسل میں شامل قائدین کی دلی آرزو ہے کہ ملک کی تمام مذہبی جماعتیں اور قائدین اس پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر امت کے اتحاد کا ایک خوبصورت اور طاقتور مظہر بن جائیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو خود ملک سے باہر تھے، کی نمائندگی کے لیے کانفرنس میں ان کا اعلٰی سطحی وفد شامل تھا۔ جمعیت کے اس وقت کے قائم مقام امیر سینیٹر جناب مولانا گل نصیب اور سیکرٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری کے علاوہ جمعیت کے آزاد جموں کشمیر کے صدر جناب مولانا یوسف سعید اس کانفرنس میں شریک ہوئے اور انھوں نے خطاب بھی فرمایا۔ 

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے ناظم اعلٰی جناب خرم نواز گنڈا پور کانفرنس میں تشریف لائے اور انھوں نے تقریر کی۔ منہاج القرآن کے نمائندہ محترم ڈاکٹر رحیق عباسی نے ملی یکجہتی کونسل کے احیائی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ وہ اس وقت منہاج القرآن انٹرنیشنل کے ناظم اعلٰی تھے۔ مرحوم قاضی صاحب کی خواہش تھی کہ ان کا ادارہ کونسل کی باقاعدہ رکنیت اختیار کرے، البتہ انھوں نے ’’مبصر‘‘ کی حیثیت سے کونسل سے وابستگی اختیار کی۔ ان کے نمائندگان مختلف کمیشنوں کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں۔ توقع ہے کہ یہ اشتراک و تعاون فروغ پذیر رہے گا۔ اس کانفرنس میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سینیئر نائب صدر اور اسلامی نظریاتی کونسل کے محترم رکن جناب مولانا حافظ زبیر احمد ظہیر نے بھی شرکت کی اور حاضرین سے خطاب فرمایا۔ وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلٰی جناب قاری محمد حنیف جالندھری بھی شریک ہوئے۔ وہ اپنے بیرون ملک کے دورے سے واپسی پر سیدھا اسلام آباد پہنچے، تاکہ اس کانفرنس میں شریک ہوسکیں۔ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم ممتاز عالم دین، وفاقی شرعی عدالت کے سابق جج مولانا مفتی محمد تقی عثمانی بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔

کانفرنس میں افواج پاکستان کی سابقہ قیادت کے نہایت اہم ارکان بھی شریک ہوئے، جن میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل (ر) اسلم بیگ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل، آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی اور جنرل (ر) عبدالقیوم شامل ہیں۔ پاکستان کی مختلف ممتاز یونیورسٹیوں کے نامور اساتذہ کرام اور دانشور بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر، پروفیسر دوست محمد، پروفیسر ڈاکٹر شہتاز احمد، پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد، پروفیسر عبدالخالق سہریانی اور جناب عبدالرحمن شامل ہیں۔ ان اساتذہ کرام کا تعلق اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی سرگودھا، پشاور یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں سے ہے۔ ان کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق رکن جناب ڈاکٹر محسن مظفر نقوی، تحریک اتحاد امت کے سربراہ مولانا پیر سید چراغ الدین، جمعیت مشائخ اہل سنت کے ناظم اعلٰی پیر سید اشتیاق حسین شاہ، جامعہ نعیمیہ اسلام آباد کے مہتمم مفتی گلزار احمد نعیمی، متحدہ علماء محاذ کے سیکرٹری جنرل محمد سلیم حیدر اور جمعیت اتحاد العلماء کے مولانا سید قطب بھی زیب محفل تھے۔

الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذمہ داران سے بھی مخفی نہ تھا کہ ’’عالمی اتحاد امت کانفرنس‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والی یہ دوسری عظیم کانفرنس امت اسلامیہ کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز، قومی اخبارات اور قومی نیوز ایجنسیوں کے اہم نمائندگان کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا کے مختلف نمائندگان بھی اس اہم ایونٹ کی کوریج کے لیے موجود تھے۔ ان میں اپنا نیوز، ڈان نیوز، ایکسپریس ٹی وی، روزنامہ ریاست، روز ٹی وی، آج ٹی وی، سماء ٹی وی، آر این اے، اقرا نیوز، ابتک ٹی وی، ثنا نیوز، نیوزون، روزنامہ جسارت، رائل ٹی وی، ڈیلی ٹاک، پرائم نیوز، اے آر وائی، میٹروواچ، روزنامہ الشرق، روزنامہ جہان پاکستان، روزنامہ آج، وش نیوز، سچ نیوز، دنیا نیوز، روزنامہ دنیا، ایشیا ٹوڈے، جیو نیوز، العالم ٹی وی، بزنس ٹائم، ڈیلی فرنٹیر، روزنامہ اوصاف، روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ نئی بات، اے این این، اسلام ٹائمز، اے پی پی، ارنا، پی پی آئی اور دیگر بہت سے اداروں کے نمائندگان شامل تھے۔

کانفرنس میں جموں و کشمیر کی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ کانفرنس میں ایران اور افغانستان کے مہمانوں نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ ایران سے آیۃ اللہ العظمٰی شیخ ناصر مکارم شیرازی کے دو رکنی نمائندہ وفد نے شرکت کی۔ وفد کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر علی زادہ موسوی تھے اور ان کے ہمراہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید محمود وزیری تھے۔ دونوں نمائندگان نے مختلف نشستوں میں حاضرین سے خطاب فرمایا۔ افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے حزب اسلامی افغانستان کے بین الاقوامی امور کے انچارج اور ترجمان ممتاز دانشور ڈاکٹر غیرت بہیر نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ بعض دیگر اسلامی ممالک کے نمائندگان کی شرکت بھی متوقع تھی، تاہم ان کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات اور پیغامات کے ساتھ معذرت کا پیغام موصول ہوا۔

ملی یکجہتی کونسل کی رکن جماعتوں کی مختلف سطح کی قیادت نے اس کانفرنس میں بھرپور شرکت کی۔ پاکستان کے چاروں صوبوں، شمالی علاقہ جات، فاٹا اور آزاد جموں و کشمیر سے مذہبی قیادت کی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ علماء اور دانشوروں کے علاوہ اس کانفرنس میں مشائخ اور صوفیائے کرام کے آستانوں کے سجادہ نشین حضرات کی شرکت بھی نمایاں تھی۔ ان میں سے دیگر کے علاوہ حضرت پیر نورالحق قادری بھی رونق محفل تھے۔ انھوں نے حاضرین سے خطاب بھی کیا۔ یاد رہے کہ ملی یکجہتی کونسل میں مشائخ کرام کی متعدد تنظیمیں بھی بطور رکن موجود ہیں۔ کونسل میں ان کی شرکت ملک بھر میں فعال طور پر دکھائی دیتی ہے۔

ملی یکجہتی کونسل میں پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر کی نمائندہ تنظیمیں موجود ہیں اور ان کا یہ اجتماع اس امر کا اعلان ہے کہ مسالک کے کچھ فروعی اختلاف اور تعبیر کے کچھ فرق کے باوجود یہ تمام مسالک ایک امت کا حصہ ہیں اور ایک دوسرے کو امت اسلامیہ کے مختلف رنگوں اور تعبیروں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ سب کو امت محمدیہؐ کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جان، مال اور آبرو کی حرمت کے قائل ہیں۔ سب شدت پسندی اور تشدد سے بیزار ہیں۔ سب مسلمانوں کے خلاف تکفیری روش سے اعلان برأت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی اتحاد امت کانفرنس میں جو ایک آدھ بات ملی یکجہتی کونسل کے مقاصد سے ہٹ کر کہی گئی، اسے نہ فقط پذیرائی حاصل نہ ہوئی بلکہ اس سے اجتناب کی دعوت دی گئی۔ کانفرنس کے نہایت مفید اور مثبت اثرات کا دائرہ پھیلتا چلا جا رہا ہے، جو یقینی طور پر خود کونسل کے دائرے کی وسعت اور اس کے پیغام کی مزید پذیرائی پر منتج ہوگا اور امتِ اسلامیہ کی سرحدوں کے اس پار بھی اس کا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مثبت پیغام جائے گا۔ ان شاءاللہ
خبر کا کوڈ : 379251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش