0
Saturday 26 May 2018 12:15

رمضان المبارک اور ہم

رمضان المبارک اور ہم
تحریر: عظمت علی

سال کے بارہ مہینوں میں رمضان المبارک کو جو اہمیت نصیب ہوئی ہے وہ کسی اور ماہ کونہیں ہوئی۔ قرآن مجید کا نزول اس کا ایک اہم سبب ہے۔ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے، "شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن"۔ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ (سورہ بقرہ ۱۸۵) اس کی عظمت کے بابت میں رسول اسلام کا ارشاد گرامی ہے، (أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَیْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَیَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَیَّامِ وَ لَیَالِیهِ أَفْضَلُ اللَّیَالِی وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ)۔ اے لوگو؛ خدا کا برکت، رحمت اور مغفرت سے بھرپور مہینہ آرہا ہے۔ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جو تمام مہینوں سے بہتر ہے اس کے دن تمام دنوں سے بہتر اور اس کی راتیں تمام راتوں سے بہتر ہیں، اس کی ساعات و لحظات تمام ساعات و لحظات سے افضل ہیں۔ (خطبہ شعبانیہ) اس کے ماہ کے ابتدائی دس ایام رحمت، درمیانی دس دن مغفرت اور آخری دس روز جہنم سے نجات کے ہیں۔ یہ مقدس مہینہ ہماری اصلاح کے واسطے آیا ہے۔ اس میں ہمیں اپنے نفس کو طاعت و عبادت سے رام کر دینا چاہیئے تاکہ پورے سال شیطان اور اس کی شریر ٹولی ہم سے دور دور رہے۔

اس برس یہ بابرکت مہینہ موسم گرما میں واقع ہوا ہے۔ جس کے باعث بعض کوتاہ فہم اور ناپختہ مزاج اس مہینہ کی فضیلت کو نظر انداز کرتے نظر آئے ہیں اور اس عظمتوں کے حامل ایام کو غیر مطلوبہ کاموں میں خرچ کر دیا ہے جو کہ بہرصورت غلط ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے سلسلے میں اللہ تبارک و تعالٰی سے التجا کرتے ہیں کہ وہ انہیں توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ دین اور دینداری سے آشنائی حاصل کرنے کی جانب قدم بڑھائیں اور اس پربرکت ماہ سے فیضیاب ہوں!۔ اس مقدس ماہ کے حوالہ سے پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے، (أَنْفَاسُكُمْ فِیهِ تَسْبِیحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِیهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِیهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِیهِ مُسْتَجَابٌ) اس مہینے میں (تمہارا) سانس لینا تسبیح اور سونا عبادت ہے۔ اعمال مقبول اور دعائیں مستجاب ہیں۔ (خطبہ شعبانیہ) اس ماہ کی فضیلت کے باب میں خاص بات جو بیان کی جاتی ہے وہ ہے مغفرت اور گناہوں سے پاک ہو جانا۔ چنانچہ ختمی مرتبت کا ارشاد عالی اقدس ہے: (فَإِنَّ الشَّقِیَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِی هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِیمِ) بدبخت ہے وہ شخص جو اس بابرکت مہینے میں غفران الٰہی سے محروم رہا۔ (خطبہ شعبانیہ) ماہ رمضان کا رتبہ بہت بلند ہے، رسول اللَّه ‏صلى الله علیہ وآله وسلم ارشاد فرماتے ہیں، (وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِیهِ بِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَ مَنْ أَدَّى فِیهِ فَرْضاً كَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّى سَبْعِینَ فَرِیضَةً فِیمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ  وَ مَنْ أَكْثَرَ فِیهِ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَیَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِیزَانَهُ یَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِینُ وَ مَنْ تَلَا فِیهِ آیَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِی غَیْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ)۔ جو کوئی اس مہینے میں مستحب نماز بجا لائے گا تو خداوند اس کو جہنم سے نجات دے گا اور جو کوئی اس مہینے میں ایک واجب نماز پڑھے گا تو اس کے لئے دوسرے مہینوں میں ستر نمازیں پڑھنے کا ثواب دے گا اور جو کوئی اس مہینے میں مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجے گا خداوند قیامت کے دن کہ جس دن لوگوں کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کے نیک اعمال کے پلڑے کو سنگین کرے گا، اور جو کوئی اس مہینے میں قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا، اس کو دوسرے مہینوں میں ختم قرآن کرنے کا ثواب ملے گا۔ (خطبہ شعبانیہ)

اس مبارک ماہ کی قدر و منزلت کے بارے میں ارشاد ختمی مرتبت ہو رہا ہے کہ اللہ باری تعالٰی ہے، (الصَّوْمُ لي و اَنا اجْزي به)۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔ (بحارالانوار، ج 93، ص 256، باب 30، فصل الصوم)۔ ذکر شدہ حدیث کے متعلق چند باتیں پیش خدمت ہیں، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں دکھاوا اور ریا کاری کا بہت ہی کم نفوذ ہے، غالبا اس کا علم یا تو روزہ دار کو ہوتا ہے یا عالم غیب کو۔ اس کے برعکس دیگر عبادات میں دکھاوے کا عمل دخل ہوتا ہے۔ مسجد میں کوئی بزرگ عالم دین آ پہنچے، تلاوت کا لحن و لہجہ بدل جاتا ہے۔ چار لوگ کیا کہیں گے اگر چندے میں کمی رہی، لہٰذا قربت الی اللہ کی نیت تبدیل ہو گئی۔ دوسری عبادتوں کے مقابل روزہ داری میں نام و نمود کی طلب اور ریا کاری کا حملہ کم ہی ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے رقم کیا ہے کہ روزے کے ثواب کی مقدار کو اللہ تعالی جانتا ہے جبکہ دوسری عبادات ایسی ہیں جن کی جزاء کا اللہ تعالٰی کے بندوں کو بھی علم ہے۔ روزہ میں صبر کا عنصر زیادہ ہے، اس عبادت کے دوران صائم کو جس قدر صبر اور آزمائش کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں شاید ہی دیگر عبادات میں اتنی صبر آزما منزلیں پیش آتی ہوں۔ صبر کے متعلق ارشاد احدیت ہو رہا ہے:(انما یوفی الصابرون اجرھم بغیر حساب)۔ بس صبر کرنے والے ہی وہ ہیں جن کو بےحساب اجر دیا جاتا ہے۔ (الزمر۱۰) روزہ دار اس ماہ میں خواہشات نفسانی سے اجنتاب کرتا ہے اور اپنے معبود کی عبادت میں محو ہوتا ہے، تلاوت کلام پاک اور دیگر متعدد عبادات میں مشغول رہتا ہے جس کے باعث وہ اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا! اس  مبارک ماہ کے قیمتی لمحات میں جہاں تک بن پڑے حقیقی معبود کے حضور سر تسلیم خم کئے رہیں اور ہر آن زیر لب ذکر الٰہی کا ورد جاری رہے۔
خبر کا کوڈ : 727184
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش