2
0
Tuesday 26 Feb 2013 22:18

پاکستان کی قیمت پر حصول اقتدار کا کھیل

پاکستان کی قیمت پر حصول اقتدار کا کھیل
تحریر: نقی بخاری

 وفاقی حکومت ایک عرصے سے پنجاب کی صوبائی حکومت پر یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ خاص طور پر وفاقی وزیر داخلہ 2011ء سے کھل کر یہ بات وقفے وقفے سے کہہ رہے ہیں اور ان دنوں انھوں نے زیادہ زور دار طریقے سے اس بات کو دہرانا شروع کیا ہے۔ جون 2012ء کے پہلے ہفتے میں رحمان ملک جب وفاقی مشیر داخلہ تھے، نے کہا تھا مسلم لیگ ن والے منہ میں رام رام اور بغل میں چھری رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میاں برادران، ملک اسحاق، لشکر جھنگوی اور کالعدم تنظیموں سے تعلق ختم کریں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جسٹس خواجہ شریف قتل سازش میں پنجاب حکومت کے اہلکار ملوث ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میاں برادران رات کے اندھیروں میں ان لوگوں سے ملنا چھوڑیں اور اداروں کا احترام کریں۔ 25 فروری 2013ء کو وزیر داخلہ نے کراچی میں کہا کہ پنجاب حکومت اور لشکر جھنگوی کے درمیان تعلقات کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ لشکر جھنگوی پنجاب میں بیٹھ کر کارروائیاں کر رہی ہے۔ اگر پنجاب حکومت وقت پر لشکر جھنگوی کے خلاف کارروائی کرتی تو کراچی اور کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات کبھی رونما نہ ہوتے۔
 
یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے موثر اقدام نہیں اٹھائے گئے۔ اس رپورٹ کی تائید قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ریاض فتیانہ نے بھی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسندوں کو فراہم ہونے والی امداد کو ختم نہیں کیا جاسکا، جس کی وجہ سے وہ مہلک کارروائیاں زیادہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اپنی نوکریاں بچانے کے چکر میں ہوتے ہیں، اس لیے وہ حکومت کی منشاء کے بغیر ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے گذشتہ برس ستمبر میں توہین آمیز فلم کے خلاف مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ پر تبصرہ کرتے ہوئے 21 ستمبر 2012ء کو کہا تھا کہ کہ پرتشدد مظاہروں میں جماعت الدعوۃ، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے لوگ شامل ہیں۔
 
یاد رہے کہ لشکر جھنگوی جو 1996ء میں قائم ہوئی، کے بارے میں بہت سی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ یہ گروپ جنوبی پنجاب سے اپنے کارکن بھرتی کرتا ہے اور اس کا الحاق پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے طالبان اور القاعدہ سے بیان کیا جاتا ہے۔ اس گروہ پر 2001ء میں پاکستان میں پابندی عائد کی گئی تھی۔ بعض مبصرین اسی گروہ کو پنجابی طالبان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ لشکر جھنگوی کا ایک گروپ العالمی کا لاحقہ اپنے ساتھ استعمال کرتا ہے، جس کا سربراہ مولوی عبدالخلیل بیان کیا جاتا ہے۔ اس گروپ نے مختلف دیگر ناموں سے بھی کارروائیاں کی ہیں، جن میں ایشین ٹائیگرز، جنداللہ، جنود الحفصہ کے نام بھی شامل ہیں۔
 
پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک کہہ چکے ہیں کہ لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی شدت پسند تنظیمیں طالبان اور القاعدہ دہشت گردوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔ لشکر جھنگوی کا پہلا سربراہ ریاض بسرا 2002ء میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اس کے بعد اکرم لاہوری اس کا سربراہ بنا اور گذشتہ برس تک ملک اسحاق اس کا سربراہ تھا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سپاہ صحابہ جس کا موجودہ نام اہل سنت والجماعت ہے، کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی کی پنجاب حکومت سے سیاسی ہم آہنگی کی بنیاد پر جیل سے گذشتہ برس رہا کیا گیا اور اس نے لشکر جھنگوی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے سپاہ صحابہ میں شمولیت اختیار کی اور اسے اس تنظیم کا مرکزی نائب صدر بنا لیا گیا ہے۔
 
لشکر جھنگوی جسے بجا طور پر سپاہ صحابہ یا اہل سنت والجماعت کا عسکری ونگ کہا جانا چاہیے، نے پاکستان میں شیعہ اور بریلوی اہل سنت مسلمانوں پر بہت سے قاتلانہ اور دہشت گردانہ حملے کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے 2002ء میں کراچی میں ایک بس پر حملہ کرکے 11 فرانسیسی ٹیکنیشنز کو بھی ہلاک کیا۔ 17 مارچ 2002ء کو اس نے اسلام آباد کے ایک چرچ پر بھی حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس کے نتیجے میں 5 افراد ہلاک ہوئے۔ 27 دسمبر2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان کی وزارت داخلہ نے اس کی ذمے داری لشکر جھنگوی پر عائد کی تھی۔ 2009ء میں سری لنکا کی قومی ٹیم پر حملہ بھی اسی تنظیم نے کیا تھا۔ 2 سال قبل افغانستان میں یوم عاشور کے موقع پر سائیکل میں نصب بم بلاسٹ کی ذمہ داری بھی صدر کرزئی نے لشکر جھنگوی پر عائد کی تھی۔ حامد کرزئی نے اس موقع پر کہا کہ اس حملے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کی گئی ہے۔ 

ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لشکر جھنگوی عالمی سطح کی دہشت گردی کے وسیع تر نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ ایسی تنظیم کے بارے میں پاکستان کی وفاقی حکومت کا بار بار اصرار کہ اسے پنجاب میں حکمران مسلم لیگ ن کی سرپرستی حاصل ہے ایک بہت ہی خطرناک امر ہے۔ پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے اہم رپورٹرز بھی اپنی مختلف رپورٹوں میں پاکستان مسلم لیگ ن پر یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ اس کا سپاہ صحابہ کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ موجود ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ رپورٹ جو نامور صحافی عامر میر نے جاری کی ہے، کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عامر میر جو معروف اینکر حامد میر کے بھائی ہیں، نے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت چاہتی ہے کہ پنجاب حکومت کالعدم لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کے خلاف بڑا آپریشن کرے۔ تاہم وزیراعلٰی شہباز شریف بمشکل ہی اس کی اجازت دیں گے۔ اس کی بنیادی وجہ آئندہ انتخابات کے لیے مسلم لیگ ن اور اہل سنت والجماعت میں سیٹ ایڈجسمنٹ کا طے پانا ہے۔ اہل سنت والجماعت کے بہت باخبر ذرائع نے اہل سنت والجماعت اور مسلم لیگ ن میں مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ دونوں جماعتیں جنوبی پنجاب کی کم از کم 15 نشستوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کریں گی۔
 
مسلم لیگ ن کے ترجمانوں نے اگرچہ اس رپورٹ کی تردید کی ہے، لیکن دوسری طرف اہل سنت والجماعت کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی نے تصدیق کر دی ہے کہ ن لیگ کے ساتھ ان کے عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہوئی تھی۔ انھوں نے روزنامہ دی نیوز کو فون کرکے یہ بات کہی۔ علاوہ ازیں کالعدم سپاہ صحابہ کی ایک فیس بک پر جمیعت علمائے اسلام ف کو تجویز پیش کی گئی ہے کہ سپاہ صحابہ اور جی یو آئی مل کر محاذ قائم کریں۔ اس تجویز کے چند ہی روز بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے مابین انتخابی اتحاد قائم کرنے کے بارے میں ہم آہنگی کا اعلان حیران کن قرار دیا جا رہا ہے۔ بعض مبصرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سپاہ صحابہ کے خلاف بنتی ہوئی فضا کو دیکھ کر کہیں مسلم لیگ ن نے یہ متبادل بندوبست تو نہیں کیا۔؟ 

پاکستان مسلم لیگ ن جو یقینی طور پر پاکستان کی ایک اہم قومی سیاسی جماعت ہے، کے بارے میں اس طرح کی خبریں یقیناً اہل پاکستان کے لیے بہت تشویش ناک ہیں۔ میاں برادران کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ محب وطن ہیں، لیکن اگر انھوں نے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اپنی وابستگی کے معاملے کو صاف نہیں کیا تو ان کی قومی ساکھ بہت بری طرح سے متاثر ہوگی اور یہ پاکستان کی سیاست کے لیے بھی ایک بری خبر ہوگی، جو پہلے ہی حوصلہ افزا کردار ادا کرنے سے قاصر چلی آرہی ہے۔
 
کہیں ایسا تو نہیں کہ اقتدار کی ہوس نے بہت سے سیاست دانوں کو اندھا کر دیا ہے۔ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ اتحاد کسی صورت بھی پاکستان کے مفاد میں قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب کا ظاہری امن دہشت گردوں کی اس حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ جہاں وہ چھپے ہوتے ہیں، اس علاقے میں دہشت گردی کی کارروائی نہیں کرتے۔ کچھ عرصہ قبل میاں شہباز شریف نے طالبان کو مخاطب قرار دے کر کہا تھا کہ وہ پنجاب میں تو کارروائی نہ کریں۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہ رہے تھے کہ ہم تو آپ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ پھر آپ اس علاقے میں کارروائیاں کیوں کرتے ہیں جہاں ہماری حکومت قائم ہے۔ جب اس بیان کے خلاف ردعمل سامنے آیا تو مسلم لیگ کے حامیوں نے اس کی تاویل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن آج جبکہ ن لیگ پر دہشت گردوں کے ساتھ قربت اور سیاسی ہم آہنگی کے الزامات شدت اختیار کر گئے ہیں، تو مذکورہ بیان بھی اپنے ظاہری معنی میں سمجھا جانے لگا ہے۔
 
ہم سمجھتے ہیں کہ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے، پاکستان مسلم لیگ ن کو اپنا دامن صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں نہ فقط اس کے لیے رسوائی کا پیغام موجود ہے، بلکہ خود پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی یہ کوئی اچھی نوید نہیں ہے۔ وہی پاکستان جس پر ن لیگ آئندہ وفاقی اور تمام صوبوں کی سطح پر حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر ان دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا۔ ان ظالموں اور قاتلوں کے خلاف اقدام میں جتنی تاخیر کی جائے گی، یہ اتنے ہی مضبوط ہوتے چلے جائیں گے۔ وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں آج ہی اس مسئلے میں ہم آہنگ ہوجائیں اور فوج کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کے خلاف ایک عزم صمیم کا مظاہرہ کرے، تاکہ ہمارا عزیز وطن پاکستان امن کا گہوارہ بن سکے۔ قاتلوں اور ظالموں کے ساتھ ہم آہنگی اور مذاکرات میں سے کسی صورت بھی کوئی خیر برآمد ہونے کا امکان نہیں۔
خبر کا کوڈ : 242732
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
meri rae yeh k yeh sab kuch theek ha jo ap ne likha ha masala yeh ha k rehman malik ko hakumat khatam hone se 20 din pehly q yad aya ha k punjab hakoomat operation kry. dehshat gard doosry soobun men urr kr to nai jaty jo un pr hath nai dala ja ska. jahan dehshay gardi hue ha wahan ppp ki hakoomat thi to un pr whan hath q nai dala gia , q nai un ka network tora gia,
Waisey to aksar siyasi o mazhabi jamaton ka daman intahaee ghaleez aur ganda hai lekan PMLN ki kiya baat hai? Kuch ziyada hi siyasat aa gai hai nawaz shareef ko jo apni goud me pagal khanzeer darindo se badtar daisatgardon ko paal raha hai.
ہماری پیشکش