0
Wednesday 3 Sep 2014 14:37

کڑا احتساب، انتخابی اصلاحات پھر انتخابات ورنہ.......

کڑا احتساب، انتخابی اصلاحات پھر انتخابات ورنہ.......
تحریر: حسن نثار

پنجابی زبان کا ایک مقبول ایکسپریشن ہے ’’گدھی گیڑے‘‘ میں پھنس جانا جسے اردو میں کہیں تو دلدل میں دھنسنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ شاعری کی زبان میں بیان کریں تو
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

شعری مجبوری تھی ورنہ کون سا ’’آہستہ آہستہ‘‘ کیونکہ ملک تو مدتوں سے منجمد حالت میں ہے بلکہ تیزی سے رو بہ زوال و انحطاط اور یہ صورت حال غیر معینہ مدت کیلئے برداشت نہیں کی جا سکتی۔ اس ملک نے اگر غیر منظم سے نظم و ضبط کی طرف جانا ہے، انجماد سے بہائو کی طرف جانا ہے، زوال سے عروج تک کے سفر کا آغاز کرنا ہے اور ’’ٹیک آف‘‘ کی طرف آنا ہے تو کوئی لولی پاپ ٹائپ عبوری حکومت یا فالودہ ٹائپ کیئر ٹیکر حکومت نہیں اور نہ ہی ہومیو پیتھک ٹائپ قومی حکومت کام آئے گی۔ فقط حکومتی چہروں کی تبدیلی اک اور فراڈ ہوگا جو عوام کو طویل مدت کیلئے نفسیاتی طور پر اندھیروں اور پاتال میں دھکیل دے گا جس کے بعد پھر اللہ ای حافظ۔ اگر سنجیدگی سے کسی بامعنی تبدیلی کی بنیاد رکھنی ہے تو نئے سفر کا آغاز سفاک اور سریع الحرکت احتساب سے کرنا ہوگا۔ کوئی فائیو سٹار فراڈیا، کوئی کسٹم میڈ جیب کترا، کوئی ڈبل بیرل ڈکیت، کوئی معزز مافیا چیف، کوئی ہر دلعزیز غلیظ وارداتیا، کوئی باز رنگ باز اور کوئی ایکسٹرا لارج لٹیرا بچ کر نہ جانے پائے۔ نہ کوئی جدہ نہ استنبول نہ متحدہ عرب امارات ....... صرف جیل خانہ جات، مکمل حسابات، وصولیاں اور سولیاں ورنہ یہ سب بیکار ایکسر سائز اور عوام سے بیگار لینے کے مترادف ہوگا۔

خدانخواستہ ایسا ہوا تو عوام جذباتی، نفسیاتی، روحانی اور اخلاقی طور پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے شل ہو جائیں گے، ان کی حالت منٹو کے مشہور ترین افسانے ’’کھول دو‘‘ کے مرکزی کردار جیسی ہو جائے گی۔ احتساب کا مقصد وصولیوں تک ہی محدود نہیں۔ یہ عوام سے لیکر خواص تک ایک عظیم پیغام ہوگا کہ یہ ملک لاوارث نہیں۔ سو دن چور کا ہو تو ایک دن سعد کا بھی آ جاتا ہے۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ تالے چوروں کیلئے نہیں شریفوں کیلئے ہوتے ہیں سو احتساب آنیوالے ہر صاحب اختیار و اقتدار کیلئے ایک واضح وارننگ کی سی حیثیت کا حامل ہوگا کہ قریہ کرپشن میں قدم رکھنے سے پہلے سو بار سوچ لیں ورنہ اب تک تو صورت حال یہ کہ پریذیڈنٹ سے پٹواری تک کیلئے پاکستان غریب کی جورو سے بھی گیا گزرا ہے جہاں کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔

پوری مہذب دنیا میں ایک مسلمہ اصول ہے"Living beyond means" بیحد قابل گرفت رویہ ہے یعنی ہر اس شخص کی گردن دبوچی جا سکتی ہے جو اپنے جانے پہچانے ذرائع آمدنی سے بڑھ کر لائف سٹائل انجوائے کر رہا ہے سو لوگ کہیں کوئی ہیرا پھیری کریں بھی تو لوپرو فائل میں ہی گزر بسر کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں تو ’’رج کے کھائو ننگے نہائو‘‘ کا کلچر اس طرح مقبول ہو چکا کہ کوئی چھپانے تک کا تکلف نہیں کرتا۔ معمولی یا درمیانی آمدنیوں، تنخواہوں والے بھی سرعام کھل کھیلتے ہیں جس سے کرپشن کو بڑھاوا ملتا ہے اور اسی لیے لوٹ مار کو ہمارے ہاں اک ’’وے آف لائف‘‘ کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ جہاں معمولی ڈرگ انسپکٹر، فوڈ انسپکٹر تین تین بیویوں کو ایک جیسے علیحدہ علیحدہ گھروں میں رکھ کر مہنگے ترین سکولوں میں سرعام بچے پڑھائے گا، ہر طرح کی موت اس معاشرہ کا مقدر ہوگی۔ حلال و حرام کا تعلق صرف گناہ و ثواب یا جنت دوزخ کا معاملہ ہی نہیں ....... یہ رویوں کا تعین بھی کرتا ہے جن کے نتیجہ میں معاشرہ جنت یا جہنم بن جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ کرپشن کے سائیڈ اور آفٹر ایفیکٹس بہت بھیانک ہوتے ہیں اور اس کی روک تھام کا تعلق اقتصادیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے ساتھ بھی بہت گہرا ہے۔ کرپشن کے عفریت کو قابو کرنے کیلئے اہم ترین بات یہ ہے کہ اشرافیہ کا احتساب ہو جس کے اثرات نیچے تک خود ہی سرائیت کر جائیں گے سو احتساب کا عمل کو وسیع ترین تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔

جو بھی حکومت آئے ....... احتساب اس کی اولین ترجیح نہ ہوا تو سب کچھ غارت سمجھو۔ نامی گرامی چوروں کا سچا احتساب ہوگیا تو نیچے تک بھی ٹھنڈ پڑ جائے گی۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ کرپشن سو فیصد ختم نہیں ہو سکتی۔ جہاں انسان ہوگا وہاں گناہ بھی ہوگا اور جرم بھی۔ اصل بات ہے اسے کینڈے میں رکھنا جبکہ پاکستان میں تو لوٹ مچی ہوئی ہے۔ احتساب کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ عوام جنہیں ’’سیاسی دیوتا‘‘ سمجھ کر پوجتے ہیں، جن کی منحوس شکلیں دکانوں اور گھروں میں سجاتے اور ان کے حق میں دلیلیں دیتے ہیں، ان پر بھی ’’اظہر من الشمس‘‘ ہو جائے گا کہ یہ لیڈر نہیں، وطن کی بوٹیاں نوچنے اور عوام کا خون پینے والی مکروہ بلائیں تھیں۔ نئی حکومت احتساب کے ساتھ ساتھ، پہلو بہ پہلو انتخابی اصلاحات پر بھی تندہی سے کام کرے اور سو فیصد مغرب کے نقالی کی بجائے اپنے معروضی حالات کے مطابق Creative انداز میں کچھ ’’اوریجنل‘‘ قسم کی اصلاحات بھی متعارف کرائے۔ اک ایسی جینوئن جمہوریت کا انتظام اور اہتمام کرو جو واقعی جمہور یعنی عوام کی حقیقی نمائندہ ہو....... ایسا درندہ نہیں جو ڈیڑھ ہزار ایکڑ کے محل سے نکل کر بے گھروں کو بیوقوف بنائے، کچھ کے ذہن اور کچھ کے ضمیر خرید کر ملکی ترقی کیلئے زنجیر بن جائے۔ ایسے ہر کھرب پتی اور ’’عرب پتی‘‘ کا رستہ روکو جو ملک کی cost پر ذاتی تعلقات استوار کر کے ملکی معیشت کو بیمار اور مسمار کر دینے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔
اس کے بعد انتخابات ہوں تو ست بسمہ اللہ کہ ایسے انتخابات کے بطن سے ہی وطن دوست جمہوریت جنم لے گی جس کیلئے جان بھی قربان کرنی پڑے تو انسان قبر میں آسودہ تو ہو لیکن اگر پھر اسی مردود، منحوس، جعلی ’’زر جمہوریت‘‘ اور ’’شر جمہوریت‘‘ کیلئے رستہ کھلا چھوڑنا ہے تو نواز، شہباز اینڈ کمپنی کو ہی کھلا چھوڑے رکھو تاکہ اسی طرح ملک و قوم کی بوٹیاں نوچتے اور ہڈیاں بھنبھوڑتے رہیں، خیانت کے کوہ ہمالیہ پر چڑھ کر دیانت کے دعوے کرتے رہیں، موروثیت کی میراتھن جیت کر جمہوریت کے ڈھول پیٹتے رہیں۔ مختصراً یہ کہ اگر
احتساب
انتخابی اصلاحات
پھر انتخابات

اگر یہ ممکن نہیں تو ’’سٹیٹس کو‘‘ قائم رکھو اور سورہ یسین کی تلاوت کرو تاکہ اس کی برکت سے اللہ بستر مرگ پر دراز مریض کی مشکل آسان فرمائے۔
"بشکریہ از جنگ نیوز"
خبر کا کوڈ : 408037
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش