0
Friday 6 Jul 2018 14:30
بھارت بھر میں ہر جگہ اور ہر سطح پر کہرام مچا ہوا ہے

ہمارا مشترکہ مقصد آئندہ الیکشن میں نریندر مودی کو ہرانا ہونا چاہئیے، تیجسوی پرساد یادو

آر ایس ایس کو نشانے پر رکھنا میرا سیاسی فرض ہے
ہمارا مشترکہ مقصد آئندہ الیکشن میں نریندر مودی کو ہرانا ہونا چاہئیے، تیجسوی پرساد یادو
تیجسوی یادو کا تعلق بھارتی ریاست بہار سے ہے۔ وہ لالو پرساد یادو کے دوسرے بڑے بیٹے ہیں، تیجسوی یادو ’’راشٹریہ جنتا دَل‘‘ کے لیڈر ہیں، جسکی سربراہی لالو پرساد یادو کر رہے ہیں۔ وہ بہار میں نتیش کمار کی حکومت میں نائب وزیراعلٰی بھی رہے ہیں۔ تیجسوی پرساد یادو 2015ء میں بہار اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور فی الحال مذکورہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ تیجسوی یادو نے گذشتہ کچھ مہینوں میں اپنی سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہار کے ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کو اہم جیت سے ہمکنار کرایا۔ اس دوران وہ لگاتار بی جے پی اور آر ایس ایس پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے تیجسوی پرساد یادو سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے حالیہ ایام میں کانگریس پارٹی کے صدر راہل گاندھی سے ملاقات کی جو کافی موضوع بحث بھی رہی، ملاقات میں کیا کچھ خاص زیر بحث لایا گیا۔؟
تیجسوی پرساد یادو:
راہل گاندھی سے ہماری ملاقات کا محور یہ تھا کہ نریندر مودی کی حکومت کے دوران جس طرح سے بھارت کا آئین اور جمہوریت خطرے میں ہے، اس کی حفاظت کس طرح کی جائے۔ میری اور راہل گاندھی کی دوستی کی بنیاد بھی بھارتی آئین کی حفاظت پر ہی مبنی ہے۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہمارے تعلقات طویل مدت تک قائم رہیں گے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ راہل گاندھی عوامی مسائل کو زور و شور سے اٹھا رہے ہیں، چاہے کسانوں سے متعلق سوال ہوں یا پھر عام لوگوں کے دکھ درد سے جڑے مدعے ہوں، ان سب کا اثر اب زمین پر نظر آنے لگا ہے۔ اس سے ملک کی سیاست تبدیل ہوگی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ راہل گاندھی جو سوالات پوچھتے ہیں ان کا جواب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے پاس نہیں ہوتا ہے۔ اگر راہل کے مقابلے میں نریندر مودی کو دیکھیں تو وہ کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ وہ یا تو بیرونی دوروں پر ہوتے ہیں یا پھر انتخابی دوروں پر رہتے ہیں۔ ملک میں اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں ایک مخصوص طبقہ آئین کو بدلنے کی بات کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ بی جے پی مخالف محاذ بنانے کی بات کر رہے ہیں اور کبھی کانگریس کے علاوہ بھی تیسرے محاذ کے قیام کی بات کرتے ہیں۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ تیسرا محاذ بننے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔؟
تیجسوی پرساد یادو:
دیکھئیے یہ لڑائی کسی ایک پارٹی کی نہیں ہے اور نہ ہی محض بی جے پی و کانگریس کے درمیان کی لڑائی ہے۔ یہ لڑائی بھارت کے آئین کی حفاظت کی لڑائی ہے۔ میں آپ کو صاف طور سے بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگلا الیکشن جو 2019ء میں ہونے جا رہا ہے وہ گاندھی، امبیڈکر، منڈل بنام گولولکر، گوڈسے کے نظریات کے مابین ہوگا۔ اس نظریاتی جنگ میں جس کو جس طرف جانا یا آنا ہوگا آ جاسکتا ہے۔ اُس وقت معلوم ہوگا کہ کون کہاں کھڑا ہے، بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ آج ملک کے جو حالات ہیں اس سے ہر ذات کے لوگ، ہر مذہب کے لوگ، ہر طبقہ کے لوگ پریشان ہیں۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق مزید بڑھ رہا ہے۔ ان حالات میں تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے نجی مفاد چھوڑ کر ملک کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ جس طرح ہمارے والد (لالو پرساد یادو) نے ملک کے مفاد میں نتیش کمار کو بہار کا وزیراعلٰی بنایا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپ کے نجی مفاد کو چھوڑنا اور قبل از وقت قومی مفاد کے لئے سیاسی اتحاد سے کیا مراد لیتے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو:
دیکھئیے ملکی و قومی مفاد میں قربانی دینے کی کانگریس کی موجودہ مثال آپ کے سامنے ہے۔ کرناٹک میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود کانگریس نے کمارا سوامی کو وزیراعلٰی بنایا جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن اگر بہار اور دیگر ریاستوں کے حوالے سے دیکھیں تو وہاں ہم نے کانگریس کے ساتھ قبل از انتخابات اتحاد قائم کیا۔ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ الیکشن کے بعد اتحاد کرنے کے بجائے الیکشن سے پہلے سیاسی اتحاد قائم کیا جانا چاہئے۔ اگر ہم یکساں نظریہ والے ہیں تو پھر الیشکن سے پہلے اتحاد کیوں نہیں کر سکتے ہیں۔ کرناٹک میں اگر چناؤ سے قبل اتحاد ہوجاتا تو ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہوتی۔ بہار میں ہم نے انتخابات سے پہلے قومی مفاد کے لئے سیاسی اتحاد قائم کرکے اور کرناٹک جیسا نہیں ہونے دیا۔

اسلام ٹائمز: آپ بھی مسلسل راہل گاندھی کی طرح آر ایس ایس اور بھاجپا پر تنقید کر رہے ہیں، اس مخالفت کی وجہ جاننا چاہیں گے۔؟
تیجسوی پرساد یادو: دیکھئیے آر ایس ایس کو نشانے پر رکھنا میرا سیاسی فرض ہے، میرا خیال ہے کہ جو تنظیم جمہوریت، آئین اور ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات کرتی ہو، اس تنظیم و پارٹی کی ملک کے ہر شہری کو مخالفت کرنی چاہئے۔ جو تنظیم سکیولر آئین کے بجائے انتہا پسندانہ قانون لاگو کرنا چاہتی ہو اس کی مخالفت تو ہونی چاہئے۔ آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ ناگپور (آر ایس ایس کے مرکز) میں بھارتی پرچم نہیں لہرایا جاتا، اب آر ایس ایس کے جو لوگ ترنگے کو نہیں مانتے وہی ہر کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں، ان کے خلاف تو ہمیں بولنا ہی ہے۔

اسلام ٹائمز: ریاست بہار میں آپ حزب اختلاف کے لیڈر ہیں۔ بھاجپا حکومت کے ہوتے ہوئے ریاست کے حالات کیسے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو:
اس وقت بہار میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ بھارت بھر میں ایسے بہت کم لوگ ہی ہوں گے جو نریندر مودی کی حکومت سے خوش ہوں گے۔ بھارت بھر میں ہر جگہ اور ہر سطح پر کہرام مچا ہوا ہے۔ میں نریندر مودی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے الیکشن جیتا لیکن کیا وزیراعظم کا کام صرف الیکشن جیتنا ہوتا ہے یا کام بھی کرنا ہوتا ہے۔؟ نریندر مودی نے سالانہ دو کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کتنے افراد کو روزگار ملا، آپ جانتے ہیں۔ منموہن سنگھ نے معیشت میں جو سدھار لایا تھا اسے نریندر مودی نے پلٹ دیا ہے، یہی حال خارجہ پالیسی کا ہے۔ ہمسایہ ممالک سے ہمارے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ منموہن سنگھ کو نریندر مودی سے بہتر وزیراعظم مانتے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو:
جی ہاں بالکل، منموہن سنگھ سے نریندر مودی کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ دونوں کو آمنے سامنے بٹھادیں تو پتا چل جائے گا کہ کون کتنا پانی میں ہے۔ نریندر مودی میرے سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے، منموہن سنگھ سے بحث تو دور کی بات ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کا آئندہ وزیراعظم آپ کسے دیکھتے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو:
میرے خیال میں اپوزیشن کی حکمت عملی میں وزیراعظم کا سوال بہت دور ہے۔ ابھی جو ملک کو بچائے گا، بھارتی آئین کو بچائے گا، بی جے پی کو ہرائے گا، ہم اسے ہی سپورٹ کریں گے۔ آئندہ وزیراعظم کون ہوگا، کون نہیں ہوگا، یہ دور کی بات ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کہا تھا کہ اگر کانگریس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر رہی ہے، حالانکہ جو بھی سب سے بڑی پارٹی ہوگی وزیراعظم کے عہدے پر اسی کا حق ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کانگریس کس طرح تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ آئندہ انتخابات واقعاً بہت ہی اہم اور دلچسپ ہونگے۔
خبر کا کوڈ : 735998
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش