تیجسوی پرساد یادو: دیکھئیے
آر ایس ایس کو نشانے پر رکھنا میرا سیاسی فرض ہے، میرا خیال ہے کہ جو تنظیم جمہوریت، آئین اور ریزرویشن کو ختم کرنے کی بات کرتی ہو، اس تنظیم و پارٹی کی ملک کے ہر شہری کو مخالفت کرنی چاہئے۔ جو تنظیم سکیولر آئین کے بجائے انتہا پسندانہ قانون لاگو کرنا چاہتی ہو اس کی مخالفت تو ہونی چاہئے۔ آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ ناگپور (آر ایس ایس کے مرکز) میں بھارتی پرچم نہیں لہرایا جاتا، اب آر ایس ایس کے جو لوگ ترنگے کو نہیں مانتے وہی ہر کسی کو حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بانٹتے ہیں، ان کے خلاف تو ہمیں بولنا ہی ہے۔
اسلام ٹائمز: ریاست بہار میں آپ حزب اختلاف کے لیڈر ہیں۔ بھاجپا حکومت کے ہوتے ہوئے ریاست کے حالات کیسے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو: اس وقت بہار میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی نافذ ہے۔ بھارت بھر میں ایسے بہت کم لوگ ہی ہوں گے جو نریندر مودی کی حکومت سے خوش ہوں گے۔ بھارت بھر میں ہر جگہ اور ہر سطح پر کہرام مچا ہوا ہے۔ میں نریندر مودی سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے الیکشن جیتا لیکن کیا وزیراعظم کا کام صرف الیکشن جیتنا ہوتا ہے یا کام بھی کرنا ہوتا ہے۔؟ نریندر مودی نے سالانہ دو کروڑ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن کتنے افراد کو روزگار ملا، آپ جانتے ہیں۔ منموہن سنگھ نے معیشت میں جو سدھار لایا تھا اسے نریندر مودی نے پلٹ دیا ہے، یہی حال خارجہ پالیسی کا ہے۔ ہمسایہ ممالک سے ہمارے تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔
اسلام ٹائمز: کیا آپ منموہن سنگھ کو نریندر مودی سے بہتر وزیراعظم مانتے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو: جی ہاں بالکل، منموہن سنگھ سے نریندر مودی کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ دونوں کو آمنے سامنے بٹھادیں تو پتا چل جائے گا کہ کون کتنا پانی میں ہے۔ نریندر مودی میرے سوالات کا جواب نہیں دے پائیں گے، منموہن سنگھ سے بحث تو دور کی بات ہے۔
اسلام ٹائمز: بھارت کا آئندہ وزیراعظم آپ کسے دیکھتے ہیں۔؟
تیجسوی پرساد یادو: میرے خیال میں اپوزیشن کی حکمت عملی میں وزیراعظم کا سوال بہت دور ہے۔ ابھی جو ملک کو بچائے گا، بھارتی آئین کو بچائے گا، بی جے پی کو ہرائے گا، ہم اسے ہی سپورٹ کریں گے۔ آئندہ وزیراعظم کون ہوگا، کون نہیں ہوگا، یہ دور کی بات ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کہا تھا کہ اگر کانگریس سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر رہی ہے، حالانکہ جو بھی سب سے بڑی پارٹی ہوگی وزیراعظم کے عہدے پر اسی کا حق ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کانگریس کس طرح تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ آئندہ انتخابات واقعاً بہت ہی اہم اور دلچسپ ہونگے۔